محمدیونس قادری-

 تقابلی جائزہ

                اس مضمون میں ہم ہندوستان کے تناظر میں سرمایہ دارانہ انقلاب(Capitalist Revolution and India) کو دیکھنے کی کوشش کریں۔ اول اس تناظر کو ہم بیرنگٹن مور (Berington Moore)کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے اس کے بعد اس کا تجزیہ خالص اسلامی تناظر میں کرنے کی کوشش کریں گے۔

                انقلاب کی اس بحث کو اجاگر کرکے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ انقلاب ہندوستان کے غیر سرمایہ دارانہ معاشرے میں کن بنیادوں پر استوار ہوا اس تناظر سے ہم سرمایہ داری کی حیثیت ساخت اور اس کے طریقے داردارت سے واقف ہوکر اس سے آج کے دور میں اپنے معاشروں میں مقابلے کی ترکیب (Strategy)کا جائزہ لے سکیں گے۔

سرمایہ داری کے جائزہ کے دو تناظرہیں ایک خالص مادہ پرستانہ جوکہ مور کا ہے اور دوسرا اسلامی تناظر جوکہ ہمارا ہونا چاہیے۔ مور انقلاب سے مراد ہی سرمایہ دارانہ انقلاب لیتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ انسان بنیادی طورپر اپنے وسائل کو بڑھانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ چوں کہ مور ایک مارکسیسٹ ہے اس لیے وہ اس کو طبقاتی کشمش کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مذہب نے انسان کو صدیوں سے اس غلط فہمی میں الجھائے رکھا ہے کہ انسان کا  مقصد اس دنیا میں حصول وسائل کے علاوہ کچھ اور ہے۔ اس لیے جب انسان کا شعور اس کے مطابق بیدار ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے حقوق کی جدوجہد کرتا ہے یہ جدوجہد وہ اکیلا نہیں کرسکتا بلکہ ایک اجتماعیت کسی دوسری غالب اجتماعیت کے بالمقابل اپنے حقوق کی جدوجہد کرتی ہے۔ وہ اجتماعیتیں مور کے نزدیک دو ہیں ایک جاگیرداروں (Feudals)کی دوسری مزاروں (Peasants) کی۔اول الذکر طبقہ استحصالی طبقہ ہے جو کہ وسائل کو اس طرح استعمال کرتا ہے جس سے وسائل میں مزید اضافہ نہیں ہوپاتا اور مزاروں سے حاصل شدہ پیداوار کو اپنے مقاصد کو لیے استعمال کر تاہے ۔ انقلاب جب ہی آسکتا ہے جب مزاروں کو اپنے حقوق کا ادراک ہوجائے اور وہ اپنے مادی مفادات کے حصول کے لیے جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کردیں۔

                سرمایہ دارانہ انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان اپنا تن من دھن سب زیادہ  سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے لگا دیں۔ اس زیادہ پیداوار کا مقصد اور زیادہ وسائل میں اضافہ ہو۔ وہ تمام افراد جو اپنی صلاحیتیں اس وسائل (یعنی سرمائے) کے حصول میں صرف کردیں ان کو پروفیشنل کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو آپ اس شعبہ کے پروفیشنل جب ہی بنیں گے جب آپ سرمائے میں اضافہ کو اپنا ہدف بنا لیں گے۔ یہ سرمایہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر زراعت کے ذریعہ اضافی وسائل پیدا کرتا ہے جو کہ شہروں میں جا کر تجارت وصنعت کے ذریعہ اپنی گردش کو مزید تیز کردیتا ہے اور اس اضافے (Surplus) سے مزید اضافہ جنم لیتا رہتا ہے۔ اس کے اضافے میں لا متناہی تیزی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب یہ فائننشل(Financial) مارکیٹ میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ انقلاب دراصل ایک غیر فطری انقلاب ہوتا ہے اور اس پر عمل پیرا شروع میں ایک محدود عقلیت ہوتی ہے۔ یہ عقلیت جب وسائل پر قابض ہوتی ہے تو پورے معاشرے کو اپنے تابع کرنے کے لیے طاقت وبہیمیت کا استعمال کرتی ہے۔ اور اپنے غلبہ کے لیے اس آبادی میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کر دیتی ہے۔ جیسا کہ انگلستان، فرانس، امریکا میں ہوا  سرمایہ دارانہ معاشرے کی عقلیت سرمائے کی بڑھوتری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ۔ وہ تہذیب جو  مذہب، ثقافت کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد بناتی ہے۔ اس میں طبقات کے بجائے، خاندان، قبائل، نسل آپس میں صلح رحمی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد اعلیٰ حصول سرمائے کبھی بھی نہیں ہوتا۔ ایسے معاشروں میں کبھی بھی پروفیشنل ازم پایا نہیں جاتا۔ افراد اپنے ہنر وکام کو مقصد حیات بنا کر اس میں ترقی کو زندگی کا اصل ہدف نہیں گردانتے ہیں۔ اسی لیے ایسے معاشروں میں لوگ برسوں ایک ہی طرح کا طرزمعاشرت اور ہنر اپنائے رہتے ہیں اور اسی پر قانع رہتے ہیں۔

                مور اور دیگر مغربی مفکرین غیر سرمایہ دارانہ اقدامات کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ اقدامات کو عدل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد ہی سرمایہ دارانہ عدل کا قیام یعنی غیر سرمایہ دارانہ فرد، معاشرت اور ریاست کا انہدام ہوتا ہے۔ مور کے نزدیک یہ انہدام خود بخود نہیں آتا بلکہ اس لیے کسی کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے اور وہ کردار مزارع  ادا کرتے ہیں اور یہ ہی جاگیرداری کے خلاف سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرتے ہیں۔

                اس تمہید کے بعد اب ہم ہندوستانی معاشرے کے خدو خال کا جائزہ تین ادوار میں لیتے ہیں ایک دور مغلیہ دور دوسرا انگریزوں کے استعمار کا دور اس کو ہم دو حصہ میں بانٹ سکتے ہیں 1857ء سے پہلے کا دور اور 1857کے بعد کا دور اور تیسرا آزادی ہند کی قوم پرستانہ تحریک کا 1947ء تک کا دور۔بیرنگٹن مور ایک مادہ پرست تاریخ تناظر میں ہندوستان کو جب دیکھتا ہے تو وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہندوستان میں مکمل طورپر سرمایہ دارانہ انقلاب کیوں کر برپا نہ ہوسکا؟ خاص کر انگریزی استعمار کے دور میں جو کہ سرمایہ داری کے سرخیل تھے سرمایہ داری کیوں نہ پوری ہندوستانی معاشرے کو ہڑپ کر گئی۔

مغلیہ دور:

                ویسے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا دور٧١٢ئ سے شروع ہوجاتا ہے مگر عظیم مغلیہ دور ١٣٩٨ئ میں تیمور لنگ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اس لگ بھگ 800سالہ دور اقتدار میں صرف 25فیصد آبادی نے اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کا یہ دور اسلامی دور ان معنی میں ہے کہ اس دور میں زیادہ تر شریعی قوانین نافذ رہے جہادجاری رہا اسلامی معاشرت کافی حد تک پائی جاتی تھی۔ اسلامی علمیت ہی اصل علمیت سمجھی جاتی تھی۔ اسی لیے اس دور میں سرمایہ داری کا نام ونشان تک نہ تھا جبکہ یورپ میںتشکیل جدید (Renaissance)کی ابتداء 16ویں صدی سے رکھ دی گئی تھی۔ مگر سرمایہ داری کی ابتدای 13صدی سے ہو گئی تھی۔ یورپ کے ساحلی شہروں، اٹلی، نیپل وغیرہ میں تجارت کے فروغ کے ساتھ سود اور بینکاری کی ابتداء سے سرمایہ داری کی ابتداء ہوجاتی ہے۔یعنی مغلیہ دور کے ابتدائی دور سے مغرب میں سرمایہ داری کا فروغ ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے یہ سوال ایک مادہ پرست آدمی مور اٹھاتاہے کہ مغلیہ دور میں کیوں سرمایہ دارانہ انقلاب ہندوستان میں برپا نہ ہوا؟جبکہ ہندوستان کے بیش تر شہر یورپ سے آگے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے بنیے کسی بھی صورت یہودیوں سے کاروبار اور سود خوری سے کم تر نہ تھے۔ اس کا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ انقلاب کے مواقع بھی ہندوستان میں پائے جاتے تھے۔

                مغلیہ دور میں پیداوار جہاں ممکن تھی وہ زرعی شعبہ تھا۔ یہ شعبہ اتنی پیداوار کرتا تھا کہ اس میں پیداوار  کھپت سے زائد ہوتی۔ یہ زائد (surplus) پیداوار ہندوستان کی ترقی میں استعمال نہیں ہو پاتی تھی۔ترقی سے مراد اس معاشرت کے مادی وسائل میں تیزی سے اضافہ ہے۔ غیر ترقی یافتہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہندوستان صدیوں سے ایک ہی طرز کی سادہ معاشرت اپنائے ہوئے ہے۔اس ترقی کی راہ میں دو عوامل کار فرما ہیں ایک جاگیردارنہ نظام دوسرا طبقاتی نظام (cast system) یہ دونوں عوامل اضافی پیداوار کو مزید پیداوار کے بجائے اس کو اپنی رسوم ورواج اور شاہ خرچیوں میں صرف کردیتے ہیں ۔ بادشاہ مزاروں اور دیگر سے جو لگان وصول کرتے ہیںاس کوہندوستانی ریاست کی توسیع و تعمیرات میں لگا دیتے ہیں۔(برینگٹن مور)

                مغربی مفکرین جب بھی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اس کی تعبیر اپنے اصولوں پر کرتے ہیں وہ ظلم اور انصاف کی اپنی تعبیر پیش کرتے ہیں۔وہ ھندوستان میں پائی جانے والی انتظامی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں پھر اس کے بعد اپنے تعبیر شدہ انصاف کو تلاش کرتے ہیں ۔ وہ مضارع کو مظلوم ثابت کرکے اس کو سرمایہ دارنہ انقلاب کا سب سے بڑا محرک تصورکرتے ہیں۔ہندوستانی معاشرے کی ساخت اس طرح تھی کہ اس میں زمین کی ملکیت تو بادشاہ کی ہوتی تھی مگر جاگیر دار ، نوابین، مہاراجے، پٹہ دار اس زمین کی کاشت پر اپنا حق رکھتے تھے۔ ان زمینوں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی اسلئے اس کی  کوئی تجارتی (commercial)  مالیت نہیں ہوتی تھی۔ان زمینوں پر کاشت کی ذمہ داری کاشتکاروں(مزاروں) کی ہوتی تھی، وہ اس کی کاشت کا بہت قلیل اپنی قلیل ضرورت کے حساب سے رکھ کر باقی ان کے مالکان کو دے دیتے تھے۔جو وہ مالکان رکھ کر کچھ رقم بادشاہ کو لگان کی صورت میں دے دیتے تھے۔اس طرح ایک سادہ سا نظام جاگیر داری اس دور میں رائج تھا۔اس نظام کا اصل مرکز اس کا خاندانی نظام تھا ۔ کہ ان زمینوں پر خاندان برسوں سے رہ رہے تھے۔جاگیریں موروثی بنیادوں پر استوار تھی اسی طرح کاشت کار بھی موروثی بنیادوں پر ان زمینوں پر کا م کرتے تھے۔ان طبقات کے درمیان کوئی مادی ٹکراؤ نہ تھا۔ہر طبقہ اپنی جگہ پر اپنی مادی وسائل پر قانع نظر آتا تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ صدیوں سے رہنے و بسنے والے اس معاشرے میں سرمایہ دارنہ انقلاب کا تصور ہی نہیں تھا۔اسی وجہ سے مادی طور پر پسا ہوا مزاروں کا طبقہ کبھی بھی جاگیر داروں کے خلا ف کھڑا  نہ ہوسکا ۔ سرمایہ دارانہ انقلاب کا تصور بھی اس معاشرے کے قریب سے بھی نہ گزرسکا۔

                ہندوستانی معاشرے میں بنیے ، ساہوکار،سود خور، ٹھگ جیسے افراد پائے جاتے تھے مگر ان کا معاشرتی اثر رسوخ کم تھا اور ان کے اوصاف ناپسندیدہ تصور کیے جاتے تھے۔یہ ہی فرق ایک سرمایہ دارنہ مغربی معاشرے اور غیر سرمایہ دارنہ مذہبی معاشرے میں ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشرے کے اوصاف حمیدہ غیر سرمایہ دارانہ معاشرے کے اوصاف رذیلہ تصور کیے جاتے ہیں۔اسی لئے مغرب یہ سوال اٹھاتا ہے کہ مزارع کیوں انقلاب کے لیے اٹھ کھڑے نہیںہوئے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیںکہ ہندوستان کا کاسٹ سسٹم جس میں سماجی اور مذہبی طورپر لوگ پیوستہ ہیں۔ یہ کاسٹ سسٹم موروثی اور طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے اور اسی نے پورے ہندوستان کے ذریعے معاشرے کو مربوط اور مستحکم کیا ہوا ہے۔یہ ہی سرمایہ دارنہ انقلاب میں سب سے زیادہ رکاوٹ کا سبب ہے۔

                ہندوستان کے شہر دہلی، آگرہ، لاہور یورپ کے روم، پیرس سے کم نہ تھے مگر ان شہروں میں بھی کامرس اور تجارت غالب نہ تھے۔ کامرس اور تجارت کا پورے معاشرے میں غلبہ ہی سرمایہ داری کے فروغ کے لیے لازم وملزوم ہے۔ کامرس کے فروغ سے مراد یہ ہے کہ پیداوار اس صورت سے ہو کہ اس کے نتیجے میں سرمائے کے ارتکاز میں اضافہ ہو اور تجارت کے ذریعے سستے مال کو خرید کر مہنگے داموں فروخت کیا جائے اور اسی بنیادوں پر ہی مملکتوں کو فتح کیا جائے۔ ہندوستان کے شہر بر خلاف یورپ کے کامرس اور تجارت کے گڑھ ہونے کے بجائے تہذیب وثقافت، علمیت کی آماجگاہ ہوتے تھے۔ ان شہروں میں زیادہ تر سیاسی اور مذہبی رحجانات عام ہوتے تھے۔ہندوستانی معاشرے میں دنیا پرستی، گناہ کے اثرات تو پائے جاتے تھے مگر ہندوستانی معاشرہ مکمل طورپر مادہ پرستانہ معاشرہ اس لیے نہ تھاکہ یہاں پر مذہبی اثرات کا اثر ورسوخ بہت تھا۔ مذہبی معاشروں میں مرنے کے بعد کی زندگی کو اس زندگی پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس لیے ایسا معاشرہ قناعت پسند معاشرہ ہوتاہے۔ دنیاوی ترقی اس کے اہداف نہیں ہوتے۔ مور اپنی کتاب میں جگہ جگہ ہندوستانی انتظامی ڈھانچہ کی کمزوری کا ذکر کرتا ہے۔ جاگیردار، پٹہ دار، وزرائ، راجے مہاراجے اور بادشاہ وقت مزارعوں کی حق تلفی کرتے اور ان سے بے جا محصولات وصول کرکے ان کو اپنی شاہ خرچیوں میں صرف کرتے جس سے اس معاشرے میں ترقی نہیں ہوتی اور مزارعوں اور دیگر عوام کا طرز معاشرت تبدیل نہیںہوتا۔ جس طرح دیگر مغربی ممالک میں یہ کاشت کار اٹھے اور اپنے حقوق کی جدوجہد میں شریک ہوکر سرمایہ دارانہ انقلاب کی راہ ہموار کرتے ہیں اس طرح کی کوئی تحریک ہندوستانی میں نہ ہی مغلیہ دور میں اور نہ ہی انگریز کے استعماری دور میں دیکھنے میں آئی۔

                مغلیہ دور کے بعد اب ہم انگریزی سامراجیت کے دور کا تجزیہ پیش کرتے اس دور کو دو ادوار میں منقسم کرتے ہیں۔ ایک دور١٧٥٠ء سے ١٨٥٠ء تک ایسٹ انڈین کمپنی کا دور ہے اس دور میں انگریز ایک لٹیرے کی حیثیت سے ہندوستان کے  بہت کم حصہ پر قابض ہوئے ۔دوسرا دور١٨٥٧ئ کے بعد کا دور ہے جو کہ انگریزوں کی اصل حکمرانی کا دور تھا۔

انگریزی سامراجیت کاد ور١٧٥٠ء سے ١٨٥٧ء تک

                اس حصہ میں ہم پہلے انگریزی دور کا تجزیہ پیش کریں گے کہ کس طرح یہ دور اقتدار کامیاب رہا اور کن بنیادوں پر اس کو ناکام دور سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی تجزیہ کریں گے کہ کیوں کر ایک غیر تہذیب (انگریزی تہذیب) نے اپنی مختصر فوج کے ساتھ  مغلیہ اسلامی ریاست کو عسکری شکست سے دو چار کیا۔انگریزی اقتدار کا یہ دور ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور ہے جس میں ایک کمپنی کامرس سے حکمرانی تک کیسے پہنچتی ہے۔ اس کا جواب مور یہ دیتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارت کے فروغ کے لیے زیادہ سے زیادہ ہندوستان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ اپنی خواہش اور قیمت کے مطابق سودے بازی کرسکے اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے ہندوستان پر قبضہ کی ٹھانی، پہلے مغلوں اور دیگر ہندوستانی راجوں، مہاراجوں کو شکست دی اس کے بعد دیگر مغربی استعمار مثلا ڈچ ، ولندیزی ، فرنسیسی افواج کو شکست دے کر فیصلہ کن برتری حاصل کرلی۔١٧٥٠ء سے ١٨٥٠ء تک کا انگزیری دور کو مور حکمرانی سے زیادہ لٹیروں کے دور سے تشبیہ دیتا ہے۔ اس دور میں انگریزی ہندوستان کے بہت کم حصہ پر قابض تھے۔ الزبتھ کے اس دور میں برطانوی سامراج ہندوستان کو سونے کے چڑیا سمجھ کر اس کی دولت کے قبضہ کرنے ہندوستان آئے تھے۔ وہ ایک تجارتی کمپنی کے طورپر ہندوستانی آئے اور کامرس کو محور ومرکز بنایا اور اسی کے فروغ کے لیے طاقت حاصل کی مقامی اور غیر ملکی مغربی افواج سے برسرِ پیکار رہے۔ یہ تو برطانیہ کی ہندوستان ہیں قبضہ کی وجہ ایک توجیہ تھی۔ اس میں کتنی صداقت ہے یہ ایک الگ تحقیقی مقالہ ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستانی معاشرے پر اپنی سلطنت کے کیا اثرات مرتب کیے۔ مغلیہ اسلامی ریاست میں طاقت ور اسلامی اور ہندو معاشرت پائی جاتی تھی۔یہ معاشرہ  زرعی معاشرہ تھا جس میں زمین نہ تھی بلکہ مغلیہ ریاست کے ایماء پر کاشت کاروں کو کاشت کی اجازت تھی، برطانوی دور میں اس زرعی نظام میں جو پہلی اور بنیادی تبدیلی وہ زمینوں کی ملکیت تھی۔ برطانوی سامراج نے Parminat Settlemant کے تحت زرعی زمین اپنے پسندیدہ باجگزار جاگیرداروں، ساہوکاروں کو دے دیں۔ اس طرح جاگیرداری نظام کی جگہ زمینداری نظام قائم کردیا۔ ان ہی زمینداروں کو محصولات کے حصول کا ذمہ دار بھی بنادیا گیا۔ وہ زمیندار جو کہ محصولات کے حصول میں ناکام رہتے ان کو برطانوی سامراج زمینوں کی ملکیت سے دستبردار کردیتا۔

                جاگیرداری نظام، زمینداری نظام سے ان بنیادوں میں تو الگ تھا کہ اب زمینوں کی ملکیت دی جانے لگے تھی۔ اس کے ساتھ  زمینوں سے کرایہ، لگان لیا جانے لگا اور زمینوں کی خرید وفروخت شروع ہوگئی۔ جس سے نئے جاگیرداروں نے جنم لیا جس کو مورParasaticجاگیردار کہتا ہے۔ ان زمینوں کی خرید وفروخت کے نتیجے میں دیوانی مقدمات میں اضافہ ہوا اور انگریزی عدالتی نظام کو اس سے تقویت ملی اور سرمایہ داری کے اصل کردار پروفیشنل وکیلوں کا اثرورسوخ بڑھا۔ زمین کے کرائے جاری ہوئے اور انگریزی عدلیہ کی اثر پذیری کے علاوہ  اس ہندوستانی زرعی معاشرہ میں کوئی واضح تبدیلی واقع نہیں ہوئی خاندانی، مذہبی اثرپذیری میں کوئی خاص کمی نہ آئی ہندوستان کے شہری علاقوں میں انگریز کے اقتدار میں تھوڑے بہت اثرات ساحلی علاقوں میں پائے جاتے تھے جہاں میں تجارت کے فروغ نے کچھ تجارت پیشہ افراد اور وکالت کے شعبہ سے منسلک افراد کو سرمایہ دار بنایا تھا عمومی شہری معاشرت پر اس دور میں سرمایہ داری کے کوئی خاص اثرمرتب نہ ہوئے۔انگریزی دور کی دوخصوصی ٹیکنالوجیز نے ہندوستانی معاشرے پر اثرات مرتب کیے ایک ٹیلی گراف اور دوسری ٹرین (Train)سروس ۔ٹیلی گراف ٹیکنالوجی نے ١٨٥٧ء کے جہاد میں مجاہدین کی شکست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ریل سروس کا آغاز١٨٥٣ء میں ہوا جو صرف 34کلومیٹر تک تھا۔ ١٨٥٧ء کے بعد ریل سروس کے نمایاں اثرات ہندوستان میں نظر آئے۔استعماری تعلیمی نظام جس کا سرخیل تھومس میکالے کو گردانا جاتا ہے اس نے ہندوستان کے لیے وہ تعلیمی نظام مروج کروایا جس کے خواص وہ خود بیان کرتا ہے۔١٨٣٥ء میں وہ کہتا ہے۔

                Lord Macaulay said the following about India in 1835 in British Parliament.

                 “I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief. Such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such calibre, that I do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her spiritual and cultural heritage, and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native self-culture and they will become what we want them, a truly dominated nation.”

                We must do our best to form a class who may be interperated between us and the millions whom we govern, a class of persons  Indian in blood and colour but English in taste, in openions,  words and intellect.

                برطانوی استعمار سے پہلے ہندوستانی تعلیمی ڈھانچہ مذہبی تھا ہندوستان میں تعلیم عام تھی۔ہر گائوں، قریے میں مدارس موجود تھے جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ پڑھنا لکھنا ریاضی (Theology)قانون، فلکیات، اخلاقیات، میڈیکل (حکمت) کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس نظام تعلیم کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ پروفیشنل تعلیم نہ تھی اس تعلیم کا تعلق معاش سے نہ تھا بلکہ معاد سے تھا۔ انگریزی تعلیم نے اس ثقافتی تعلیمی نظام سے الگ ایک مغربی تعلیمی نظام رائج کیا۔ یہ تعلیم عیسائیت کی تعلیم نہ تھی بلکہ سیکولر تعلیم تھی جس میں مذہب ایک مضمون کے تحت پڑھایا جاتا تھا۔ اس تعلیم کا مقصد سرمائے کی حاکمیت کے لیے جواز فراہم کرنا تھا۔ اس نظام تعلیم کے تحت ابتداء میں اسکولوں اور کالجوں کا نظام مرتب کیا گیا۔ کمپنی کی حکمرانی کے دور تک حکومتی یونیورسٹیاں بمبئی، کلکتہ، مدراس میں قائم ہوچکی تھیں جس میں٢٠٠٠طلبہ حکومتی کالجز میں 30,000سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم تھے۔ نجی سطح پر انگریزی اور امریکن عیسائی مشنری کالجز اور اسکول بھی اس دور میں قائم ہوئے۔ اس کے علاوہ Reformist Societyنے بھی عیسائی مشنری اسکول سے  علی ا لرغم  تعلیمی  ادارے قائم کیے۔ ١٨٥٧ء سے پہلے  جبکہ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج تھا اس دور میں بقول مور کے انگریز ہندوستان میں قلیل مدت کے لیے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قبضہ اور طاقت حاصل کررہے تھے۔ اسی لیے سرماریہ دارانہ اداروں کے فروغ کی ضرورت بھی بہت کم محسوس کی گئی۔ لہٰذا اس ضمن میں انگریز کے ماتحت کسی بھی قسم کی ادارتی صف بندی نظر نہیں آتی۔سقوط اودھ کا واقعہ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر جاگیرداروں کی جاگیروں سے بے دخلی نے انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی بغاوت کو جنم دیا۔ اپنوں کی غداری، مغلیہ حکمرانوں کی پست ہمتی، آپس میں مجاہدین کے رابطہ کا فقدان نے مسلمانوں کو١٨٥٧ء کے جہاد میں شکست سے دو چار کیا اور انگریزوں کا اقتدار ١٨٥٧ء کے بعد مزید مستحکم ہوا۔١٨٥٧ء سے ١٩٤٧ء تک کے دور میں انگریز نے باقاعدہ ہندوستان میں حکمرانی کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار لے کر براہ راست ہندوستان کو انگلستان کے زیر قیادت لے آئے۔ مور کے نزدیک١٨٥٧ء کے غدر کی وجہ اودھ کا واقعہ نہ تھا بلکہ بڑے پیمانے پر پرانے بااثر جاگیرداروں کو ان کی جاگیروں سے بے دخلی نے اس واقعہ کو جنم دیا۔

١٨٥٧ء کے بعد انگریزوں کی حکمت عملی اور قوم پرستانہ تحریکات

                ١٨٥٧ء کے بعد انگریزوں نے ہندوستان میں باقاعدہ حکومت کرنے کی حکمت عملی وضع کی۔ ہندوستانی معاشرے کو سرمایہ دارانہ معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے اس نے تین اقدامات کیے۔

                ١۔ ہندوستان میں ترقی (Development) کو فروغ دیا۔ اس کے لیے ریل کے نظام کو متعارف کروایا، ٹیلی گراف کے نظام کو مزید منظم کیا۔

                ٢۔ تعلیمی شعبہ میں میکالے کے نظام تعلیم کی سفارشات پر اسکولوں، کالجز، یونیورسٹیوں کے قیام کو عمل میں لائے۔

                ٣۔ شہری علاقوں میں ان ہی انگریزی کالجز سے پڑھے لکھے قیادت کو عوامی پذیرائی اور عوامی رنگ روپ میں وہ متعارف کروایا اور کوشش کے ساتھ ادارتی سیاسی صف بندی کے تحت ہندوستان میں قوم پرستی کو مقبولیت اپنے ایجنڈوں کے ذریعہ دلوائی۔1857ء کے جہادمیں مسلمانوںکی  شکست کے بعد انگریز نے ایک جارحانہ اور ایک دفاعی حکمت عملی وضع کی اس نے سب سے پہلے اس جہاد کے سرخیل علماء کرام کو اور مجاہدین کو بے دریغ قتل کیا اور بہیمیت کی وہ تاریخ رقم کی جس کا تصور بھی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ دفاعی حکمت عملی کے تحت ہندوستانی معاشرے ا ور مذہب سے براہ راست تصادم سے گریز کیا۔  اس حکمت عملی کے نتیجے میں مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ سرد پڑگیا اور مسلمانوں نے غلبہ دین کی جدوجہد کو ترک کرکے دفاع دین کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔انگریزی تعلیمی نظام کے متوازی مدارس کا جال  حضرت شاہ عبدالعزیز کے مرتب کردہ پلان کے تحت حضرت مہاجر مکی کی سرکردگی میں حضرت قاسم نانوتوی نے پورے ہندوستان میں بچھادیا ۔

                انگریزی نے اپنے تعلیمی نظام کے ذریعہ ہندوستانیوں میں میں ایک ایسی اشرافیہ پیدا کی جو کہ مسلمانوں اور ہندؤں کی قیادت کرسکے۔ اس ہی انگریزی نظام تعلیم سے آراستہ اشرافیہ نے ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا جس میں نظام سرمایہ داری میں رہتے ہوئے آزادی ہند کی جدوجہد کو محور ومرکز بنایااس تحریک کو قوم پرستانہ تحریک کہتے ہیں تین قسم کی قوم پرستی کو انگریزوں کے حواریوں نے ہندوستان میں پروان چڑھایا۔

١۔            ہندوستانی قوم پرستی۔

٢۔            مسلم قوم پرستی۔

٣۔            ہندو قوم پرستی۔

                ہندوستانی قوم پرستی کے سرخیل گاندھی اور نہرو سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے کانگریس کی شکل میں اس کو فروغ دیا۔ اس قوم پرستانہ تحریک نے بڑی خوبی کے ساتھ ہندوکلچر کی علامات(Symbol)کو ہی استعمال کیا۔

٭             اس تحریک کا مقصد (Goal) آزادی

٭             اس کا طریقہ کار عدم تشدد ،عدم تعاون

٭             اس کا نشان (Symbol)چرخہ 

                گاندھی کی قوم پرستانہ تحریک کی قیادت تو شہری اشرافیہ پر مشتمل تھی مگر عوامی پذیرائی کے لیے اس نے دیہی علاقوں کو اپنا محور اور مرکز بنایا۔ خاص کر مزارعوں کے خلاف ظلم واستحصال کو محور ومرکز بنایا۔انگریز جس نے اپنے اقتدار کو تقویت دینے کے لیے زمینداروں، نوابوں کو زیادہ مراعات دیں۔ گاندھی نے قوم پرستوں کی خصوصیت کو اپناتے ہوئے استعمار کی شدت سے مخالفت کی کہ استعماری زمینداروں، نوابوںنے مل کر

مزارعوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا  ۔مسلمانان ہند نے بھی١٨٥٧ء کے بعد جب غلبہ دین کی جدوجہد کو پس پشت ڈالا تو اس کے پاس سیاسی طور پر ایک ہی موقف تھا کہ وہ انگریزی قوانین (نظام) کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کریں سر سید احمد خان وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں میں قوم پرستی کے جذبات کو پروان چڑھایا اور مسلمانوں کو ایک امت سے نکال کر قوم بنانے کی کامیاب سعی کی۔مسلم قوم پرستی کو ہم تفصیل کے ساتھ آگے دیکھیں گے۔ مختصر یہ کہ مسلمان سرمایہ دارانہ اہداف، آزادی، مساوات اور ترقی کو قبول کرکے اس کو حلال وحرام کی قیود میں حاصل کرنے کی جدوجہد کو اپنا محور ومرکز بنالیتے ہیں۔مسلم قوم پرستی کے سحر میںعام مسلمانوں سے لے کر علماء کرام اور دینی قیادت گرفتار ہوگئی۔ وہ علماء کرام جو کہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے وہ یا تو کانگریس میں شامل ہوگئے یا پھر اس نئی مسلم قوم پرست جماعت مسلم لیگ کی حمایت کرنے لگے۔ مسلم لیگ بھی کانگریس کی طرح انگریزی پڑھنے لکھنے  والی اشرافیہ پر مشتمل تھی جس کی قیادت کا سہرابر مسٹر محمد علی جناح کے سررہا۔ ہندوستان میں مسلم قوم پرستی نے انقلاب اسلامی کو١٩٢٠ئء میں بہت بڑی شکست سے دوچار کیا جب شیخ الہند محمد حسن مدنی رحمہ اللہ نے مالٹا کی اسیری کے بعد جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں لائے اورانقلابی جدوجہد کو خیر باد کہہ کر خالص سرمایہ دارانہ جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا۔١٨٥٧ء سے ١٩٤٧ء کا دورانگریزوں کی کامیابی کا دور تھا جب پورا ہندوستان یکسو ہوکر سرمایہ دارانہ انقلاب کا حصہ بن گیا اس دن سے آج تک پورے بر صغیر میں مسلم، ہندو اور خالص قوم پرستی کا غلبہ ہے۔ اور یہ ہی انقلاب اسلامی کے لیے اصل چیلنج ہے۔

تجزیہ:

                ہندوستان سرمایہ داری کے لحاظ سے ایک مکمل کامیاب انقلاب تو نہیں ہے جیسا کہ یورپ، امریکا، چین، جاپان میں آیا مگر اس کو مکمل ناکام انقلاب بھی نہیںکہا جاسکتا۔ کن معنیٰ میں یہ ایک کامیاب سرمایہ دارانہ انقلاب ہے کن معنیٰ میں ناکام ہے؟ اس کا تجزیہ یہاں کرنے کی کوشش کریں گے اس کے علاوہ اس کی کامیابی میں کن افراد اداروں کا کردار ہے اور اس کی ناکامی میں کن افراد اداروں کا کردار ہے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ آخر میں اس بات کا تجزیہ کریں گے کہ کن بنیادوں میں ہم دوبارہ انقلاب اسلامی کو اس خطہ میں برپا کرسکتے ہیں۔ہندوستان میں اسلامی خلافت/ سلطنت کے دور میں تو چوں کہ اسلامی علمیت، معاشرت، ریاست وحکومت موجود تھی اس لیے سرمایہ دارانہ انقلاب کا کوئی بھی اثر موجود نہ تھا۔ ہاں مسلم امت میں دنیا پرستی کے جذبات عام ہوگئے تھے۔ دولت کی فراوانی نے حکمرانوں کو عیش وعشرت میں مبتلا کردیا۔ جہاد کی روح معدوم پڑگئی 16صدی سے اٹھنے والے مغربی انقلاب سے بے بہرہ مسلمان اشرافیہ اور حکمران اپنے ہی حصار میں بند ہوکر رہ گئے تھے۔

  غلبہ اسلام کے تحت مغرب کو فتح کرنے کے بجائے اسپین میں عیاشیوں میں گرفتار ہوگئے۔ علماء کرام وصوفیائے عزام کی بڑی تعداد اسلامی ریاست سے بے تعلق ہوگئی ۔ اور یہ مثل عام ہوگئی کہ ایک دروازے سے بادشاہ داخل ہو تو دوسرے دروازے سے صوفی باہر چلا جائے۔ حضرت اورنگ زیب عالمگیر کو ایسی معنی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ اپنے 50سالہ دور اقتدار میں علماء کرام کو قیادت کے لیے کھڑا نہ کرسکے۔ بالآخر عالمگیر کی وفات کے بعد اقتدار پر نا اہل مغل حکمران ہی براجمان ہوئے جس نے ہندوستان میں انگریزی اقتدار کی راہ ہموار کی۔ انگریز کی مختصر فوج نے بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔میرے خیال میں ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو ختم کرنے میں جہاں مغل حکمرانوں کا قصور تھا اس کے ساتھ دینی شعار کے حامل علماء کرام، صوفیۂ عزام کا بھی کردار تھا کہ مسلمانوں کے 800سالہ دور اقتدار میں صرف 25فیصد آبادی مسلمان ہوئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتدار غلبہ دین کا موجب نہ تھا چوں کے غلبہ دین سے مراد ہی اسلام کا پھیلنا ہے۔ غلبہ دین کی تحریک سے دوری اور صرف انفرادی اصلاح نے مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کردیا۔١٧٥٠ء سے انگریزی دور اقتدار کا آغاز ہوتا ہے۔ انگریز جو کہ خود سرمایہ داری کا سرخیل تھا وہ اپنے دور اقتدار میں ہندوستان میں سرمایہ داری کو اس سطح پر پروان نہ چڑھا سکا جس سطح پر اس نے خود انگلستان میں کیا۔ نہ ہی فرانس امریکا، چین، روس، جاپان کی سطح کا سرمایہ دارانہ انقلاب ھندوستان میں برپا کرسکا۔

                درج بالا ممالک کا جیسا کہ ہم نے جائزہ لیا ان علاقوں میں سرمایہ دارانہ انقلاب کے دو اہم وجوہات تھیں۔ ایک یورپ نے عوامی سطح پر دنیا پرستی کو قبول کرلیا۔اور اپنے مذہب وثقافت کو بالکلیہ ترک کردیا۔ دوسرا  امریکا، آسٹریلیا کی صورت میں جب مقامی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ قتل وغارت گری اور بہمیت کی تاریخ رقم کی پورے علاقوں پر یورپی خود قابض ہوگئے۔ ہندوستان میں یہ دونوں صورتیں نہ ہوسکیں۔ ہندؤں اور مسلمانوں نے اپنا تہذیبی رشتہ مضبوطی سے جوڑے رکھا اور آبادی کی اکثر حصہ کو اقتدار سے دور رکھ کر ہندو اور مسلمان معاشرے، تعلیمی نظام اور علمیت کو زندہ رکھا۔ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی کو انگریزی مختصر فوج کے ذریعہ صفحہ ہستی سے مٹانا ممکن نہ تھا اس لیے اس نے ہندوستان میں امریکا، اسٹریلیا کی قتل وغارت گری کو برپا تو کیا لیکن کثیر آبادی تہہ تیغ کرنے میں ناکام رہے۔

                انگریز بہر حال اس چیز میں ضرور کامیاب رہا کہ اس دوران اس نے اپنے اقتدار کو ہندوستان میں مضبوط کیا۔ اس کی علمیت کا غلبہ حا صل ہوا۔ اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوستانیوں کی ایسی جماعت تیار کی جو کہ آج تک انگریزی اقتدار کو برصغیر میں کامیابی سے چلا رہے ہیں اور انگریز سے زیادہ انگریز ہیں۔ قوم پرستی کے جذبات مذہبی قوم پرستی اور مجرد قوم پرستی، وطن پرستی (پاکستانی ، ھندوستانی) کو ہندوئوں اور

 مسلمانوں میں کا میابی سے چلا رہی ہے۔ اسلامی علمیت کو حکمرانی واقتدار سے علیحدہ کرکے مسلمانوں کو سیکولر بنادیا۔ سرمایہ دارانہ مارکیٹ کو پورے ہندوستان میں غالب کرنے کی راہ ہموار کردی۔مسلمانوں کو امت سے ہٹا کر قوم بنانے کی فکر کو عام کردیا۔ مسلمان انگریز سے اقتدار چھیننے کے بجائے اس نظام میں شامل ہوکر اپنے حقوق کی جدوجہد میں لگ گئے۔ جہاد وغلبہ دین کے جذبات اس دور میں بالکل سرد پڑگئے۔ مسلمان اپنی ذاتی اصلاح کو ہی معراج تصور کرکے اس کو اصل دین تصور کر بیٹھے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *