bankari ka islami mutabil1

زیر نظر کتاب ” موجودہ بینکاری کا اسلامی متبادل” کی دوسری طبع شائع کی جارہی ہے۔ طبع اوّل میں پائی جانے والی تنقیدات کی روشنی میں اس کتاب میں چند تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ پہلی تبدیلی تو یہ ہے کہ اس کتاب میں پائی جانے والی بہت زیادہ ٹیکنیکی جزیات کو حذف کرکے اسکو عام فہم بنایا جارہا ہے تاکہ عام مسلمانوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل ہو۔اس سلسلہ میں باب اوّل جو کہ صرف معاشیات کی سمجھ بوجھ کے حامل افراد کے لیے  تھا اسکو سہل بنا کر اس میں سے تمام ٹیکنیکی باتوں کو حذف کردیا گیا ہے اس کی جگہ آمدن اخراجات کے چارٹ کی مدد سے مالیاتی نظامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ باب اوّ ل سے ہی کتاب کا تعارف مکمل ہو کر سرمایہ دارنہ ، قبل از سرمایہ دارنہ اور اسلامی مالیاتی نظام میں فرق کو واضع کردیاجائے۔اس کے بعد باب دوئم میںسرمایہ دارنہ مالیاتی اداروں کے پیچھے پائے جانے والے نظریات، افکار اور تاریخ کا مختصرا جائزہ لیا گیا ہے اور اسکے علاوہ ان مالیاتی اداروں کے کام کرنے کا طریقہ بھی بیان کیاگیاہے۔ اس باب کا مقصد یہ بات ثابت کرنی ہے کہ ان مالیاتی اداروں کی ایک تاریخ بھی ہے اور ان کے پیچھے بہت مصبوط افکار اور نظریات بھی ہیں اسلیے ان کو جداگانہ ،جیسا کہ اسلامی معیشت دانوں نے دیکھنے کی کوشش کی ہے،  نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی ان کو غیر اقداری تصور کرکے ان کو من و عن اسلامی نظام میں پیوست کیا جاسکتاہے۔باب سوئم میں اسلامی بینکاری کی اسی غلطی کو اجاگرکیا جارہا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلامی بینکاری سرمایہ داری کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔ باب چہارم اور پنجم میںسرمایہ دارنہ اور اسلامی معیشت کے علررغم اسلامی مالیاتی نظام کا ماڈل پیش کیا جارہاہے ۔ ایک ایسا عملی ماڈل جس کے ذریعہ اسلامی غلبہ قائم ہوسکے اور سرمایہ دارنہ نظام کو کمزور کیا جاسکے۔

 اس کتاب کا مقصد کوئی منافع کمانا نہیں ہے اسلیے اس کتا ب کو اگرکوئی بغیر ترمیم  چھاپنا چاہے تو میری طرف سے اسکی اجازت ہے ۔ اس کتاب میں جو بھی کاوش وکوشش ہے وہ ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کی افکار کی مکمل ترجمانی کرتی ہے اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ ان ہی سے حاصل کردہ ہے۔اور اس میں جو بھی کمی اور خامی ہے اس کا میں ذمہ دارہوں کہ میں نے اللہ تعالی کی عطا کردہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا۔

                                                                                    سید محمد یونس قادری

ہم آمدن و اخراجات کے خاکہ کی مدد سے تین نظاموں کا موازنہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک وہ معیشت جو کہ سرمایہ داری سے پہلے ایک سادہ معاشرے میں پائی جاتی تھی دوسری وہ جو کہ موجودہ دور میں ایک سرمایہ دانہ معیشت میں پائی جانی چاہیے ہے اور تیسری وہ معیشت و معاشرت جوکہ سرمایہ داری سے علرغم ایک اسلامی معاشرے اور معیشت کی نشودنما کے لیے پائی جانی چاہیے ہے۔

سب سے پہلے ایک سادہ معیشت کا خاکہ 1 کی مدد سے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس معیشت میں اگر فی الحال حکومت اور بقایا دنیا  اور بچت کو نظر انداز کردیا جائے تو ہم خاکہ 1 کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گھرانہ اپنی آمدنی اور صر ف کے لیے سب سے پہلے اپنی مزدوری کو آمدنی کے عیوض بیچتا ہے یا خود بحیثیت کاروباری منافع حاصل کرتا ہے اور اگر کوئی زمین ہو تو اس پر کرایا وصول کرتا ہے۔

اس طرح       آمدنی برابر ہوئی مزدوری ، کرائے اور منافع  کے۔ اگر کاروباری فریق اور گھرانہ کوئی بچت نہیں کرتے

کل اخراجات برابر ہوئے گھرانے کے خرچ کے اور یہ بھی برابر ہوئے  مزدوری اور منافع کے کہ کاروبار ی فریق نے جو اشیاء بیچیں اس سے جو آمدنی ہوئی اس کا ایک حصہ اس نے مزوری، کرائے اور منافع  کی صورت میںدے دیا ۔ اس طرح

اس سادہ سے معاشرے میں اگر  خ  ١٠٠٠ روپے جس سے کاروبار سے ١٠٠٠ روپے کی اشیاء خریدی جاتی ہیں تو یہ رقم اس کارباری فریق کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔ وہ اس ١٠٠٠ روپے میں سے ٨٠٠ روپے کی مزدوری ، ١٠٠ روپے کا کرایااور ٢٠٠ روپے کا منافع ادا کرتا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ١٠٠٠ روپے کہاں سے آئے۔١٠٠٠ روپے یا تو مرکزی  ادارہ  تمویل نے جاری کیے اتنے جتنی کہ اس معاشرہ کی ضرورت ہوگی  یا پھر طلائی اور نقرئی سکے ہوں گے جس کی مالیت حکومت یا ریاست طے کرے گی۔زر کی ترسیل کا مقصد اس معاشرہ میں صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ اشیاء کو خریدا بیچا جاسکے زر دراصل ترسیل کا ذریعہ قبول ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں زر کی خرید و فروخت نہیں ہوتی چاہے یہ خود ھاتی کرنسی کیوں نہ ہو۔

یہ سوال سب سے اہم ہے کہ سرمایہ داری سے پہلے کرنسی کن بنیادوں پر تشکیل پاتی تھی۔ اگر ہم پاکستا ن کے تناظر میں دیکھیں تو ہم کو مغلیہ دور  میں جانا ہوگا کہ اس دور میں کرنسی کن بنیادوں تشکیل پاتی ہے۔ 

خاکہ 2میں دیکھ سکتے ہیں تمویلی ادارے کی ضرورت بہت محدود ہوتی ہے وہ صرف کرنسی کے اجراء اور اسکی ترسیل کا ذمہ دار ہوتا اور وہ ذمہ داری بھی ریاست کے ایک ادارے کی صورت میں ادا کرتاہے۔  اس زر کی  ضرورت میںجب ہی اضافہ ہوگا جب آبادی میں اضافہ ہو، قیمتوں میں اضافہ ہو  یاپھر لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی واقع ہو۔

آبادی میں اضافہ برسوں میں ہوتا ہے اس کے ساتھ اموات میں اضافہ بھی ہوتا ہے اس لیے ایک روایتی معاشرہ میں آبادی میں اضافہ کا تناسب بہت زیادہ نہیں بڑھتا۔قیمتیں  میں بھی برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔چوں کہ لوگوں میں حرص و طمع کم ہوتی ہے۔ لوگوں کا طرز زندگی بھی عیر ترقی یافتہ معاشروں میں بہت مشکل سے تبدیل ہوتا ہے اور اس میں برسوں لگتے ہیں۔ ا س نقطہ نگاہ سے  مزدوری  ، منافع میں بہت معمولی تبدیلی ناہونے کے برابر آسکتی ہے اسی وجہ سے  خ میں اضافہ بھی معمولی نوعیت کا ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیںکہ ایک روایتی معاشرہ میں حکومت اور بقایا دنیا کے آنے سے اس خاکہ میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے۔

حکومت کا کردار اس سادہ معیشت میں مالی لحاض سے یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو پوراکرنے کے لیے کاروبار پر محصولات لگاتی ہے۔ جس کوبیت المال کے ذریعہ ضرورت مندوںاور اپنے اخراجات کے لیے ادائیگی کرتی ہے۔دیگر دنیاسے درآمداد اور برآمداد  زیادہ تر کاروباری ضرورت کے لیے ہوتی ہے اس لیے وہ ہی اسکی ادائیگی اور وصولی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس پورے نظام میں تمویلی ادارے کا کردار صرف کرنسی کی حد تک ہے کہ وہ کرنسی کے اجراء  کا ضامن ہوگا۔ قرض کا لین دین نجی پیمانے پر معاشرے میں جاری رہتا ہے وہ بھی بہت محدود پیمانے پر اس کے لیے کوئی باقائدہ ادارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔محدود وسائل پر پیداوار ہوتی ہے جو کہ اس معاشرہ کی محدود ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ مالیاتی نظام  Financial system))کی ضرورت رہتی ہے کہ حکومت کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر زری پالیسی محدود ہوتی سوائے کرنسی کے اجراء اور ترسیل کے اس کے کوئی اور فرائض نہیں ہوتے۔

اب اس نظام میں جو مخصوص تبدیلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کاطرز معاشرت بدل جاتا ہے ۔ وہ خواہشات کے پجاری بن جاتے ہیں ۔ ان کی بڑھتی ہوئی خواہشات موجودہ وسائل سے پوری نہیں ہوتیں تو انکو ان وسائل میں توسیع کے لیے پیداور کو وسعت دینی پڑتی ہے۔  نئے وسائل کے لیے بڑے پیمانے پر بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس  جدید معاشرہ کی ادارتی صف بندی تبدیل ہوجاتی ہے ۔ پہلے محدود ضروریات کو پورا کرنا مقصود تھا اب لامحدود خواہشا ت کو پورا کرنا مقصود بن گیا۔  لامحدود خواہشات لامحدود منافع یہ اس معاشرے کے اوصاف بن گئے۔ جس ادارے کی اہمیت بہت محدود تھی اس کی اہمیت بڑھ گئی یعنی تمویلی اداروں کی ضرورت کہ وہ اس بڑھتی ہوتی خواہشات اور پیداوار کے لیے قرضوں کا اجراء کریں۔ قرضوں میں اضافہ ہواتو لوگوں کی بچتوں کی ضرورت پیدا ہوئی اسکے لیے ان کو لالچ دی گئی کہ ان کی بچتوں پر محدود مدت بعد اضافہ کرکے دیا جائے گا ۔ مذ ہبی معاشرے میں اسکو سود سے تعبیر کرتے ہیں، جس کی ممانعت تھی۔ جدید معاشرہ میں مذھب کو بالائے طاق رکھ کر اسکو قبول کرلیا گیا۔ تمویلی اداروں میں بینک کا وجود قائم ہوا۔ جس کا کام یہ ہو اکہ وہ   لوگوں سے بچت لے کر اسکو زیادہ سود پر قرض داروں کو سرمایہ کاری یا صرف کے لیے دے سکیں۔جو لوگوں کی ضرورت کے لیے خرچ تھا وہ صرف (خواہشات کو پوراکرنے کے لیے چیزوں کا استعمال)بن گیا۔ پیداواری ضروریات کو پوراکرنے کے لیے استعمال ہونے والی دولت سرمایہ( ایسی دولت جو کہ خود اپنے اضافے کے لیے جمع کی جائے) بن گئی۔ خاکہ ٤اور٥ کے مدد سے اس کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

خاکہ نمبر 4سے واضع ہے کہ ہر لین دین جو کہ گھرانے اور کاروبار کے درمیان براہ راست تھی اب بینک کے ذریعہ بلاواسطہ ہوگیا۔ کاروبار اپنا سرمایہ بینک میں رکھے گا اور تمام ادارئیگیاں اسی کے ذریعہ کرے گا اور  افراد بھی اپنی وصولیاں بینک کے ذریعہ کریں گے۔اس کے لیے بینک نے دو اہم سہولیات دیں ایک یہ کہ اس کہ رقم کی ترسیل محفوظ رہے گی دوسرا اسکی ضرورت سے زائد رقم کو جو وہ بینک میں رکھے گا اس پر اسکو سود کی مد میں اضافی رقم بھی ملے گی۔دونوں کاروبار اور افراد کی بچتیں بینک میں جمع ہونے لگی جس پر وہ ان کو زائد سود پر قرض فراہم کرنے لگا۔اس طرح ایک اور کاروباری ادارہ قائم ہو گیا جو بر خلاف کاروبار کے جہاں اشیاء کا لین دین ہوتا ہے یہ زر کے لین دین کا ادارہ بن گیا اور اس نے جو قیمت وصول اور ادا کی وہ سود ہوگئی۔اس ادارہ کا خود پیداوار کے تعلق نہیںرہا اور نہ ہی اسکا مقصد پیداور میں اضافہ ٹہرا۔ یہ تو اپنے منافع میں اضافے کے لیے قرض فراہم کرتا ہے۔ وہ چاہے کاروبار کے لیے ہو کہ صرف کے لیے۔ جیسا کہ خاکہ 5   سے ظاہر ہے کہ تمام معیشت کا دار مدار تمویلی اداروں پر ہوگیا قرض لیکر  ہی سرمایہ کاری اور اخراجات کیے جاتے ہیں ۔ سرمائے کی مارکیٹ وہ مارکیٹ ہے جس میں طویل مدت کے لیے بچت رکھی جاتی اس بچت پر صرف منافع نہیں دیا جاتا بلکہ اس کمپنی کے آپ حصص خرید کر اس کے مالک تصور کیے جاتے ہیں ۔ برخلاف ایک سادہ معیشت کے جہاں آپ اپنے کاروبار کے حقیقی مالک ہوتے تھے چوںکہ آپ ہی ہر فیصلہ خود کرتے تھے ۔ یہاں اس جدید سرمایہ دارنہ معاشرہ میں کمپنیاں ، کارپوریشن بن گئی اور مالک شیئر ھولڈز بن گئے ، ملازم یعنی مینیجرز فیصلہ ساز بن گئے۔ کارپوریشن فرضی شخصیت ہوگئی۔جس کا کوئی حسی وجود نہیں رہا اس طرح نچی ملکیت کا خاتمہ ہوگیا۔اور ہر شخص مزدور بن کر بینکوں کے توسط سے تنخواہیں وصول کرنے لگا اور بہت محدود پیمانے پر حصص کی مارکیٹ سے منافع حاصل کرنے لگا۔ حصص کے خریدنے کا اصل مقصد منافع کا حصول نہیں رہا بلکہ ان حصص پر مسلسل سٹہ کھیلا جاتا ہے جس سے اسکی مالیت میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔  سٹہ (Speculation) ہی اس مارکیٹ کا اصل محرک ہوتا۔  اس حصص کی خرید فروخت کو اس معیشت کے چڑھاؤ او ر اتار کا میزان مانا جاتا ہے۔ 

تمویلی اداروں کا دائرہ عمل انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر مسلط ہوجاتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ ہی اخراجات ہوتے ہیں۔ہر خرچ قرض کے بغیر ناممکن بن جاتاہے۔ اسکے علاوہ انشورنس کمپنیوں کا وسیع جال بھی بچھ جاتا ہے۔اس طرح ہر شعبہ سود اور سٹہ سے ملوث ہوجاتا ہے۔ہم کہ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارنہ معاشرت میں سود اس کی رگ و پے میں خون کی مانند دوڑتا پھرتا ہے۔

حکومت کا کردار بھی تبدیل ہوجاتا ہے وہ صرف مالیاتی پالیسی مرتب کرتی ہے اور زی پالیسی میں صرف اپنا سود  پر کمی بیشی کرسکتی ہے۔ حکومت بھی تمام تر محصولات بھی بینک کے ذریعہ وصول کرتی اور ادر اسکا خرچ بھی بینک کے ذیعہ ہوتا ہے ۔ زری پالیسی کا دائرہ عمل بڑھ جاتا ہے ۔ سود ہر شعبے سے متعلق ہو جا تا ہے۔سود کی تبدیلی معیشت کے اتار چڑھاؤ میں بڑی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ کرنسی کا اجراء چوںکہ حکومتی خسارہ کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے کرنسی جو مرکزی بینک جاری کرتا وہ بھی وہ سودی قرضوں کی مد میں ہر سال جاری کرتا ہے۔ تو کرنسی بھی سود سے منسلک ہوجاتی ہے۔ایک کرنسی تو  مرکزی بینک جاری کرتا ہے دوسری کرنسی کمرشل بینک سودی قرضوں کے عیوض جاری کرتے ہیں۔ بینک جو رقوم رکھتا ہے یا قرض کی صورت میں دیتا اس کے بدلہ آپکو چیک بک یا کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ دیتا ہے۔ اب چاہے آپکی اپنی رقم ہو یا قرضے کی رقم وہ آپ چیک یا پلاسٹک کارڈ کی مدد سے استعمال کرتے ہیں اس طرح جو زر مرکزی بینک نے جاری کیا ہوتا ہے اسکا اکثر حصہ تو بینک کے پاس محفوظ رہتا ہے اور بینک اسکے عیوض کئی گناہ زیادہ قرض جاری کردیتا  ہے ۔ جس کو لوگ اپنے اخراجات  یا سرمایہ کاری میں استعمال کرلیتے ہیں۔ایک ١٠٠ روپے کے عیوض ١٠ گناہ یا اس سے بھی زیادہ زر کی ترسیل ہوجاتی ہے۔ جتنی تیزی سے سرمایہ دارنہ معاشرہ، عقلیت اور ادارے پروان چڑتے جاتے ہیں اتنی ہی تیزی سے اشیاء کی ماکیٹ زر اور سرمائے کی مارکیٹ کے تابع ہوتی جاتی ہے۔سرمایہ دارنہ معاشرے میں زر کا کردار تبدیل ہو جاتا ہے ،پہلے وہ زر کو اشیاء کے تبادلہ کے لیے استعمال کرتے تھے اب زر خود شے بن کر اسکی خرید و فروخت زر کے بازار میں ہوتی ہے۔ زر کی طلب میں ایک اہم محرک کارفرما ہوجاتا ہے وہ قیاس آرائی/سٹہ بازی  ہوتا ہے۔

اسلامی معشت دانوںنے اس پورے عمل کو جداگانہ دیکھا اور اس سرمایہ دارنہ نظام کو غیر اقداری تصور کیا۔ جس طرح زر اور سرمائے کے بازار کی فوقیت قائم ہوئی اور پیداوار کو جس طرح سرمائے کی بڑھوتری کے  لیے استعمال کیا ۔ حرص و حسد کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اسلامی معیشت دانوں نے سب سے سہو نظر کرکے صرف اس پر توجہ مرکوز کی کہ کس طرح اس نظام میں اپنی جگہ بنائیں۔اسلامی بینکاری نے بینکوں کی حیت کو تبدیل کیے بغیر اس میں اسلامی تمویلی آلات کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

خاکہ7 میں ہم  اسلامی نظام تمویل نظام کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اس خاکہ میںاسلامی تمویلی نظام سے سرمایہ دارانہ نظام تمویل کا موازنہ کر سکتے ہیں۔اسلامی نظام میں پیداوار کندہ اور گھریلو صارفین کا تعلق براہ راست ہے اس میں کسی بھی طرح بینک یا کسی بھی تمویلی ادارے کی ثالثی نہیں پائی جاتی یعنی قرض پر کسی بھی تمویلی ادارے سے کوئی شے خریدنے کا معاہدہ نہیں ہوگا۔ خود پیداوار کنندہ اشیاء کو فروخت کرے گا اگر چاہے تو اسکو قرض حسن پر یا اقساط کی صورت میں دے سکتا ہے۔حکومت بھی محصولات کو براہ راست اپنے نمائندوں کے ذریعہ وصول کرے گی اور اسکو اپنے بیت المال میں جمع کروائے گی۔ اسی طرح حکومت  کی نگرانی میں درآمداد اور برآمداد ہوں گی اس میں بھی بینک کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی اس پر کوئی ادائیگی بعد کی مدت کی بینک کے ذریعہ ہوگی۔زکواة ، خیرات اور صدقات بھی محکمہ اوقاف ہی وصول کرے گا۔

تمویلی ادارے کی ذمہ داری دو ہوں گی ایک وہ کاروباری فریق ، افراد اور حکومت کی بچت کو وصول کرے گااور ان کو شراکت کے تحت کاروباری فریق کو مہیا کردے گا۔مرکزی تمویلی ادارے ملکی اخراجات کو مدِ نظر رکھ کر کرنسی کا اجراء کر ے گا اور اس کرنسی کی ترسیل کو اس سے زیادہ ہونے سے روکے گا۔وعدے ناموں کے بل بوطے پر ادائیگیاں نہیں ہوں گی اور نہ ہی انکی بنیاد پر علحیدہ سے کوئی اکاؤنٹ بنے  گا۔ اگر وعدے نامہ کی ضرورت بھی ہوگی تو اتنی مقدار کی کرنسی تمویلی ادارے کے پاس حقیقی معنی میں موجود ہوگی۔ ایک وعدہ نامہ کی بنیاد پر دوسرا وعدہ نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ اس پورے نظام کو چلانے کی لیے اسلامی ریاست کی ضرورت ہوگی جو کہ مرکزی کردار اس طرح اداد کرے گی کی تمام اداروںکو خود اپنے تعلقات گھرانے ، حکومت اور کاروبای فریق سے استوارکریں ان تعلقات میں تمویلی ادارے کے ملوث ہونے سے روکا جائے گا۔ تمویلی ادارے کا کردار جو اوپر بیان ہوا ہے اس میں توسیع نہیں ہونے دی جائے گی۔ تمویل ادارہ کسی طرح بھی کاروباری ادارہ نہیں ہوگا یہ تو حکومت یا ریاست کی طرح کا ادارہ ہوگا جیسا کہ بیت المال، اوقاف ہیں۔یہ ادارہ اپنے اخراجات کے لیے فیس وصول کرے گا جو کہ حقیقی اخراجات پر مبنی ہوں گی ۔زر کا کردار صرف اشیاء کے تبادلہ تک محدود ہوگا ۔ کسی طرح بھی تمویلی ادارے سود اورسٹہ کے بازار کو گرم کریں گے۔

اسلامی نظام تمویل اور سرمایہ دارنہ نظام تمویل میںاگر موازنہ کریں توہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں نظاموں میں اصولی  اختلافات پائے جاتے ہیں۔ برخلاف اسلامی معیشت دانوں کے جوصرف چند فروعی اختلافات کی نشان دہی کرکے اسکو سرمایہ دارانہ ماڈ ل میں پیوست کردینا چاہتے ہیں ۔  اسلامی تمویلی ماڈل میں جو اصولی اختلافات ہماری نظر میں پائے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

١۔ سرمایہ دارانہ نظام تمویل ، سرمایہ داری کو پروآن چڑھانا چاہتا ہے اسکے برخلاف اسلامی نظام تمویل کو غلبہ دین کا پیش خیمہ ثابت ہونا چاھیے ہے۔

٢۔ سرمایہ دارنہ نظام میں تمویلی ادارے مرکزو محور ہوتے ہیں اور ان ہی کی بالادستی پورے معاشرے پر قائم ہوجاتی ہے۔ اسلامی نظام میں تمویلی ادارے اسلامی معاشرت کے تابع ہوتے ہیں۔ ان کا دائرہ عمل محدود ہوتا ہے۔ تمویلی ادارہ ایک مجبوری ہے ناکہ مقصود۔

٣۔  سرمایہ دارنہ تمویلی ادارے منافع اور سرمائے کی بڑھوتری کے مقصد کے تحت قائم ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تمویلی ادارے ثالث اور امداد باہمی کے تحت اپنے فرائض کسی اسلامی ریاست کے ماتحت انجام دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے ہیں اسلامی کاروبار اور نجی ملکیت پروآن چڑھتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ پہلے باب میں گردشی خاکہ کی مدد سے واضع کیا گیا ہے کہ سرمایہ دارانہ دور میں تمویلی اداروں کی کلیدی حیثیت ہوگئی اس سے پہلے ان اداروں کی محدود ضرورت تھی۔ اب ہم ان افکار کا جائزہ لیں گے جن کی بدولت سرمایہ دارانہ افکار پروآن چڑھے۔

مغربی فکر میں قانون فطرت  نے خدا کے قوانین کی جگہ لی۔۔ یہ قوانین چوں کہ عقل /جذبات /خواہشات کے متقاضی ہوتے ہیں اسلیے یہ تحریری صورت میں نہیں ہوتے ان قوانین کے مطابق تمام انسان ناصرف برابر ہوتے ہیں بلکہ آزاد بھی ہوتے ہیں۔تمام انسان قانون فطرت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔اس قانون کی موجودگی میں وہ  دیگرانسانوں کے اخذ کردہ قوانین سے آزاد و خود مختار ہیں، ان قانون کے تحت وہ دیگر افراد کے خواہشات کو احترام کریں گے چوں کہ تمام انسان برابر ہیں۔ اس طرح قانون فطرت انسان کو آزاد اور مساوی تسلیم کرتاہے۔ان قوانین کا اطلاق افراد پر ہوتا ہے، مگر افراد جب باہم مل کر رہتے ہیں تو ایک معاشرہ  یا ریاست بناتے ہیں اس قانون فطرت کی رو شنی میں ایسے معاشرتی اور ریاستی قوانین اخذ کرتے ہیں جن کی پیروی کرکے وہ ایک امن قائم کرسکیں اور اس تہذیب کو ناصرف پروان چڑھاسیکیں بلکہ ان کو غالب کرسکیں۔ وہ معاشرہ سول معاشرہ ہوتا ہے جہاں پر تحریری قانون پایا جاتا ہے ۔اس قانون کی اساس تو قانون فطرت فراہم کردیتاہے مگر اس کی تفصیل کہ معاشرت اور ریاست کن اداروں اور قوانین کے تحت چلے اس لے لئے معاشرتی قوانین بتائے جاتے  ہیں۔ ان قانون کو سول حقوق (civil right)سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ جس کے تحت انسان کا سب سے پہلا حق،  ملکیت کا حق (property right) ہے اسکو تسلیم کیا جاتا ہے۔انسانی ذات یا جسم جو کہ خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے اس تصور کو رد کرکے اسکی جگہ انسان کا اپنے جسم پر حق ہے ان چیزوں پر حق ہے جن کو انسان اپنے ہاتھوں سے تخلیق کرتا ہے۔ یعنی انسان مالک بھی ہے اور خالق بھی ہے۔وہ اپنی ذات کو اور اپنی بنائی ہوئی اشیاء کو اپنی خواہش یا عقل کے مطابق استعمال کرنے کا مجاز ہے۔جب انسان ان قوانین کو تسلیم کرلیتا ہے تو ان کو اس کی رشنی میں ہی ادارتی صف بندی اور افکار کو پروآن چڑھاتا ہے۔ اس نظام کو اہل مغرب نے اپنے حالات اور تاریخی تناظر میں پروآن چڑھایا ہے ۔ ہم اسکی فلسفیانہ تفصیل سے تو گریز کریں گے مگر ان کا کچھ تاریخی جائزہ ضرور لیںگے پھر اس کے بعد اسکا ہم معاشیات سے تعلق بیان کریں گے۔

تاریخی طور پر مغربی افکار میں جو تبدیلی واقع ہوئی وہ پندھرویں اور سولھویں صدی میںسے موسوم کی جاتی ہیں ۔ اس سے پہلے عیسائیت میں جو تبدیلیاں رو نما ہوئیں اس میں سب سے پہلے  ٣٢٥ء میں جب جرنل کونسل نے حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا تسلیم کیا اس کے بعد تثلیث کا مسئلہ درپیش آیا کہ باپ، بیٹا اور روح القدس کیا ایک خد ا ہیں اگر الگ الگ ہیں تو ان میں کون بڑا ہے۔پھر سینٹ اوگسٹان نے عیسائیت کے عقائد میں یونانی فلسفہ سے متاثر ہو کر سب سے پہلے سیکیولر ازم اور انسان کی آزادی  کی بنیاد رکھی کہ خد ا کی حاکمیت (City of God) اور انسان کی حکمیت(City of man)  دو الگ دائرہ عمل عیسائیت سے تسلیم کروائے ۔ اوگسٹائن ٤٣٠ء میں مرگیا اس کے بعد عیسائیت پر اس کے افکار کے اثرات مرتب ہوئے۔آزادی کو عیسائی جواز فراہم کیا۔ اس کے بعد کے آنے والوںمیں افکار میں جونمایاں تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ عیسائی انفرادییت اور معاشرت تو برقرار رہی مگر عیسائی ریاست میں تبددیلی ١٦ صدی میں رانما ہوئی وہ یہ تھی کہ عیسائی کیتھولک چرچ  نے اپنا اختیار بادشاہ کو سونپ دیا کہ بادشاہ خدا کا براہ راست نمائندہ ہے  اوربادشاہ جو بھی عیسائی قونین میں جو تبدیلی کرے گا وہ خداکی مرضی ہی ہو گی اور اسکی اطاعت خداکی اطاعت تسلیم کی جائے گی۔ اس  کے نتیجے میںحکمران طبقہ کو وہ آزادی میسر آگئی کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں مگر رعایا کو اب تک یہ اختیار نہ دیا گیا۔ستھروی صدی میں عیسائی بادشاہت بھی کمزور پڑنی شروع ہوگئی اور معاشرت و ریاست پر آزادی کے افکار نمایا ہونے شروع ہوگئے ۔ ڈیکارڈ(Descartes)، ھوبز(Hobbes)   اور لوک(Loke) نے اپنے فلسفوںکے ذریعہ یہ باور کردیا کہ صرف بادشاہ ہی خدا کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ ہر شہری خدا کا نمائندہ ہے اور وہ آزاد اور برابر ہے۔لوک کے دو ر میں میں آپس کی جنگوں کا خاتمہ ہو ا اور بادشاہ خدا کے نمائندے کے بجائے عوام کا نمائندہ بن گیا ۔ ١٦٨٨ میں عظیم انقلاب(Glorious Revolution) نے جیمز دوئم کی جگہ ولیم کی حکمرانی قائم ہوئی۔ لوک نے اس ریاست کا نیا قانون لکھا جس میں اس نے بادشاہ کی خدا کی نمائندگی کی جگہ  عوام کی نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔ انسان کی آزادی، خودمختاری اور برابری پر زور دیا ۔ چوں کہ اس دور تک عیسائیت معاشرت اور فرد کی گرافت قائم تھی اسلیئے اس دور میں تمام فسلسفیوں نے عیسائی استعارے استعمال کیے ان اوصاف کو خدا کی مرضی اور رضا سے تعبیر کیا۔انسان کی آزادی کا یہ سفر ١٨ ویں صدی تک پورے عروج تک پہنچتا ہے اور تحریک تنویر (Enlightenment) کے نتیجے میں پورے مغرب سے عیسائیت کے افکار کا جنازہ نکل جاتا ہے۔کانٹ اور آنے والے مفکرین نے آزادی اور مساوات کو پورے طور پر قابل عمل حقیقت ثابت کرکے اس کو پورے مغرنی معاشرے پر نافذکردیا۔

مغربی افکار و نظریات میں تبدیلی کے ساتھ ہی سرمایہ داری کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جیسا کی باب اوّل میں بتایا گیا ہے کہ ان افکار میں تبدیلی سے ادارتی صف بندی تبدیل ہوگئی۔معاشیات کے نقطہ نظر سے جو تبدیلی واقع ہوئی اس میں ایڈم اسمتھ کا کردار اہم ہے۔

کلاسیکل معیشت دان جن کا دور 1776 سے شروع ہوتا ہے اور یہیں سے ہی سرمایہ داری کی ابتداء ہوتی ہے۔  اس دور کے قابل ذکر مفکرین میں  لوک ،ایڈم اسمتھ، ڈیوڈ رکارڈو ، مارشل، جان ایسٹورڈ ملز، جے بی سیز(J B Says)میلتھوز (Malthus)   شامل ہیں ۔ کلاسیکل دور لگ بھگ 1930  تک جاری رہتا ہے۔یہ دور  ابتداء میں آزاد معیشت کا دور تھا۔ یہاں ہم ان نظریات میں فرد اور معاشرت سے متعلق مفروضات کو جانچنے کی کوشش کریں گے کہ سرمایہ داری کن عقائد کی پیروکار ہے اور وہ کیسی شخصیت اور معاشرت کو قائم دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے نظریات کے پیچھے درج ذیل مفروضات کارفرما ہیں۔

 ا یڈم اسمتھ جو کہ دور تنویر کا ایک مفکر ہے اس نے لوک اور ہیوم جو کہ دور تنویر کے بہت اہم فلسفی ہیں سے متاثر ہو کر معاشیات پر اہم تصانیف مرتب کیں۔ جس میں “The theory of moral sentiment”   اور    , “An Inquiry into the nature  & causes of The wealth of nations” قابل ذکر ہیں۔ ایڈم اسمتھ اپنی کتاب Theory of moral sentiment میں فرد کی حیثیت سے متعلق جدیدیت کے حامل مفکرین  کانٹ ، ویبر، ملز سے متاثر نظر آتا ہے ۔وہ فرد کو آزاد ،عاقل (Rational) ، خود مختار تصور کرتا ہے۔جہاں تک اخلاقیات (Morality) کا تعلق ہے تو ایسا فرد  اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے۔فرد کو کیا چاہنا چاہیے ۔ اسکو وہ چاہنا چاہیے جس سے اسکی خواہشات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو سکے۔وہ کسی بھی ایسی اخلاقی قدر کا  پابند نہیںہے جو کہ اسکو باہر سے رہنمائی  فراہم کرے۔ اس قسم کی اخلاقیات میں آسمانی صحیفہ کی کوئی گنجایش نہیںہے۔ (Robert 1996)

معاشیات کے قوانین کہاں اور کن بنیادوں پر اخذ کیے گئے تو اس کی ایک تاریخ ہے اور وہ ہی تاریخ جہاں سے قانون فطرت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ایسے قوانین اخذ کیے گئے جن کا تعلق وحی الٰہی اور کسی بیرونی عناصر سے نہ ہو۔  قانون فطرت کو بقول لوک (Locke) کے تعقل (Reason)کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیںجب کہ  ھیوم کے مطابق اسکوجذبات/ خواھشات (passions)  سے اخذ کیا جاتا ہے کہ ”  عقل تو جذبات /خواھشات کی غلام ہوتی ہے”(Reason alone cannot be a motive to the will, but rather is the slave of the passions)        

سترویںصدی کے اوآخر میں مغربی معاشرے میں جس نوعیت کی تبدیلی آئی اسی تبدیلی سے متاثر ہو کر معاشیات بحیثیت مضمون متعارف ہوا ۔اس لیے ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشیات کی اقدار مغربی ثقافتی اقدار سے نکلتی ہیں اور خاص کر تحریک تنویر  (Enlightenment)اور اس کے مفکرین   سے ہی متاثر ہو کر معاشیات کی بحیثیت مضمون داغ بیل ڈالی گئی۔ اس دور میں مغربی معاشرے میں جو فکری تبدیلی واقع ہوئی اس نے اس دور کے مغرب کے عقائد کو تبدیل کردیا ۔ مغرب جو کہ ایک عیسائی معاشرہ تھا جس میں مذہبی عقائد کو فوقیت حاصل تھی ۔ چرچ اور اس سے منسلک افراد ہی معاشرتی طور پر افراد کی رہنمائی کرتے تھے۔مگر اس کی اس اسا س میں تبدیلی 15  ویں اور 16صدی میںیورپ کے چند  ساحلی شہروں میں رکھی گئی تھی۔16ویں صدی تک سر مایہ دارانہ مخالف تحریکیں یورپ میں عام تھیں اسی صدی میں دو عیسائی ریاستیں کیلوین (Calvan)کی جنیوا میں اور اولیورکرومویل (Oliver Cromwell)کی انگلستان میںسرمایہ داری کی مخالفت میں قائم ہوئیں۔مگر جنہوں نے  عملی طور پر سرمایہ داری کو عیسائی جواز فراہم کیا۔اس وجہ سے جلد ہی سرمایہ داری کے ہاتھوں تحلیل ہوگئیں۔تاریخی طور پر سرمایہ داری  کو جن دو انقلابات نے سہارا دیا اس میں انقلاب امریکہ ١٧٧٦ء  اور انقلاب فرانس ١٧٨٩ء  ۔ یہ دونوں انقلابات دراصل انگلستان کے شاندار انقلاب  (Glorious rovolution 1688 AD)کے نتائج تھے۔معاشیات کی بحیثیت مضمون بھی داغ بیل اس دور میں رکھی گئی۔جس کا سہرا  ایڈم اسمتھ کے سر ہے۔   ایڈم  اسمتھ جس فرد کی صلاحیت کو معاشی نمو کا اصل سبب سمجھتا ہے وہ  خود غرضی (Selfishness)ہے۔خود غرضی کو جب فروغ حاصل ہوگا تو اسکے نتیجے میں مساوات (Equality) کو بھی قبول کرنا ہوگا۔مساوات کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر شخص کی غرض مساوی اہمیت کی حامل ہے کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیںہے ۔خود غرضی کو اس طرح فروغ دیںکہ اسکے نتیجے میں دوسروںکے اغراض کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس عمل کو خود پسندی (Self interestedness)کہتے ہیں۔(Towney 1990)

 بقول اسمتھ (١٧٨٨)کے ان خود غرض افرد کو اگر ہم آزاد چھوڑ دیں گے تو اسکے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ اور ترقی میں تیزی آئے گی۔کسی قسم کی مداخلت خاص کر حکومت کی مداخلت معاشی نمو کے لیے اسکے بقول زہر قاتل ہے۔ معیشت اپنے آپ کو خودبخود توازن پرلاتی ہے ۔ طلب و رسد کی رسہ کشی کے نتیجے میں معیشت خود بخود حالت استحکام(Stability)میں آجاتی ہے۔ وہ قوت جو مارکیٹ کو مستحکم رکھتی ہے اسکو اسمتھ غیر مرئی ہاتھinvisible hand)  ) کہتا ہے۔تاریخی طور پر کلاسیکل دور صنعتی اور سائنسی انقلاب کا دور کا ابتدائی دور تھا۔صنعتی دور کے لحاظ سے اسمتھ مہارت یا مزدوری کی تقسیم  (Division of labour or Specialization)کا قائل تھا۔ایک خود غرض شخص اپنے سرمائے کے حصول کے لیے اپنے آپ کو ایک کام کا ماہر بنالیتاہے۔جس سے ناصرف اسکی آمدنی میں اضافہ ہوتاہے بلکہ مجموعی پیداور میں بھی اضافہ ہوتاہے۔

معاشرے سے متعلق مفروضات :

فرد اس قسم کی اخلاقیات کا جب پیرو ہو جاتا ہے  تو وہ جس قسم کا معاشرہ تعمیر کرتا ہے اس میں دو قسم کی اخلاقیات خاص طور پر استوار ہوتے ہیں۔ ایک فرد باہم ایک دوسرے سے مارکیٹ کی سطح پر مقابلہ(Competition) کرتے ہیں۔ یعنی ان میں باہم حسد کا جزبہ کارفرما ہوتا ہے۔دوسر ے وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل میں دنیاکے حریص ہوتے ہیں۔ سرمایہ  دارانہ معیشت میں فرد جس چیز کا حریص و حاسد ہوتا ہے اسکو سرمایہ کہتے ہیں ۔سرمایے کی بڑھوتری ہی مقصد بن جاتا ہے۔اسے معاشرہ میں زندگی کا مقصد سرمائے کا حصول بن کر رہ جاتا اور یہ رویہ ہر انسانی عمل کا پیمانہ بن جاتاہے۔ پورا معاشرہ  مارکیٹ بن جاتا ہے۔اس قسم کے معاشرہ کو سول معاشرہ(Civil society)  بھی کہتے ہیں۔

 مارکیٹ سے متعلق مفروضات : 

 تمام کلاسیکل مفکرین اس بات قائل تھے کہ معیشت میں مکمل روزگار پایا جاتا ہے ۔ اور معیشت ہمیشہ مکمل  توازن کی حالت میں رہتی ہے۔ عدم توازن کی صورت میں معیشت  خور بخود توازن کی حالت میں آجاتی ہے ۔  عدم توازن کی یہ حالت جزوی نوعیت کی ہوتی ہے ۔  مارکیٹ میں موجود غیر مر ئی قوتیں اسکو خود بخود  توازن کی حالت میں لے آتی ہیں۔اسکو  معیشت کی زبان میں خود بخود توازن (Automatic Stablization)کہتے ہیں۔کلاسیکل معیشت دان اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ معاشی

معاملات میں حکومتی  کی عدم مداخلت نہایت ضروری ہے ۔ کلاسیکل معیشت دان کہتے ہیں کہ جب مارکیٹ میں کسی قسم کہ مداخلت نہیںہوگی تو مارکیٹ میں داخل ہونے اور اس سے باہر نکلنے  کی آزادی (Free exit and free entry)کے نتیجے میں مارکیٹ میں مکمل مقابلہ (Perfect Competition) پایا جائے گااور معاشا ت ہمیشہ مکمل توازن کی حا لت میں  رہے گی (Schimpeter 1950)۔مارکیٹ سرمایہ داری میں ایک الگ حیثیت کا حامل ادارہ ہے ۔ جو سرمایہ داری سے پہلے موجود نہ تھا ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر افراد  ایک غرض سے ملتے ہیں۔ صارف جس کی غرض اس میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کم قیمت پر زیادہ سے زیادہ اشیاء صرف کرسکے اور سرمایہ دار کی غرض ہوتی ہے کہ وہ ان اشیاء کو زیادہ سے زیادہ داموں میں بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔اشیاء کی مارکیٹ سے اوپر ایک اور مارکیٹ ہوتی ہے جس کو فائینشل  مارکیٹ(Financial Market) کہتے ہیں۔یہاں زر اور سرمائے کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور یہ خرید و فروخت سود کے بل بوتے پر ہوتی ۔ زر اور سرمائے کی قیمت اس مارکیٹ میں سود کے ذریعہ طے ہوتی ہے، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔سرمائے کی ماکیٹ جتنی فروغ پائے گی اتناہی لین دین نقدی کے بجائے قرضوں پر ہوتا جاتا ہے ۔ پیداوار کنندہ  زیادہ سے زیادہ پیداور کے لئے اس  فائینشل  مارکیٹ(Financial Market)کے دست نگر ہوتے ہیں۔ اور بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضہ لے کر اپنے کاروبارکو  فروغ دیتے ہیں۔صارف بھی اپنی لا متناہی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے لینے پر مجبور ہوگا۔ اس طرح پوری معاشرت فائینشل  مارکیٹ(Financial Market)   کے تابع آجائے گی۔مارکیٹ(Market)  ہی معاشرے کی قدر کو متعین کرے گی ناکہ معاشرہ مارکیٹ پر اثر انداز ہوگا ۔مارکیٹ میں بھی فائینشل  مارکیٹ (Financial Market) کے ہی فیصلے لاگو ہوںگے۔اس طرح پورے معاشرے کی رگ و پے میں سود سرائیت کرجائے گا  (Ansari  2004)۔

تمام معا شی مفکرین اس فرد کی حیثیت سے متعلق اور معاشرہ سے متعلق اوپر دیے گئے افکار سے  تو باہم متفق ہیں ۔ مگر اس مارکیٹ میں اس سرمایے کی برھوتری کو کس طرح ممکن بنایا جاسکتا ہے اس پر باہم اختلاف ہے۔یعنی اختلاف طریقہ کار پر ہے ۔ ہم اس باب میں زری پالیسی کے تناظر میں مختلف ادوار میں معاشی نظریات کا جائزہ لیں گے۔ سرمایہ داری کے معاشی نظریات کو ہم بنیادی طور پر پانچ ادوار میں بانٹ سکتے ہیںپہلے دور کو  کلاسیکل دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، دوسرا دور کینزین دور ہے۔ اسکے بعد موینڑریسٹ ، نیو کلاسیکل اور پس کینزین ا دور ہیں۔  ان تمام افکار میں فکری تبدیلی تونہیںہوئی مگر جو ادارتی تبدیلی واقع ہوئی ان کی نمائندگی ان مفکرین نے کی۔ اب ہم ان نمایاں تمویلی اداروں کا تفصیل سے جایزہ لیتے ہیں تاکہ ان کے کام کرنے کا طریقہ معلوم ہوسکے۔

            بینکاری نظام (Banking System)

بینکاری نظام کا جائزہ لینے سے پہلے ہم اسکا مختصرا تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔

بینکوں کی تاریخ:

بینکوں کی تاریخ جب ہی شروع ہوتی جب سے مغرب میں عیسائی اقدار کمزور پڑتی ہیں۔ عیسائیت جہاں پر دنیا پرستی کو معتوب سمجھا جاتا تھا اور کامیابی کو آخرت سے ہی جوڑا جاتاتھا۔ وہاں سود کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔سود usuryعیسائیت میں ممنون تھی  خاص کر کیتھولک چرچ میں تو ہرقسم کے شرح سود اور  زر کی لین دین پر فیس لینے تک کی مما نعت تھی۔ مگر آہستہ آہستہ جیسے جیسے سرمایہ دارنہ اقدار کا غلبہ ہوتا گیا  تو سب سے پہلے سود کی کچھ شرح کو جائز گردانا جانے لگا۔ اور پھر ١٨ صدی میںپروٹسٹینٹ کے غالب آنے کے بعد تو ہر قسم کے سود سے پابندی اٹھ گئی ۔ یہود یت میں آپس میں تو سود کی ممانعت تھی مگر دیگر افرد کے ساتھ سود کی لین دین جائز تھی۔ اس لیے زر کے بازار میں شروع میں صرف یہودی ہی لین دین کرتے تھے مگر جیسے جیسے عیسائی معاشرہ میں دینا پرستی غالب آگئی اور چرچ کا اثر رسوخ ختم ہوتا گیا سود کی حرمت قائم ہوگئی۔

سرمایہ داری جو کہ ١٥ ویں ١٦ صدی تک صرف یورپ کے چند ساحلی شہروںفلورینس،  نیپل، وینس تک تھی ۔ جہاںپر مغرب کے تاجر اپنے مفتوح علاقوں سے لوٹ کا مال جمع کرتے۔ اس مال کی خرید و فروخت میں کثیر سرمایہ دارکار تھا جو کہ یہودی ساہوکار سود پر ان تاجروں کو  فراہم کرتے تھے۔یہ ساہوکار ان قرضوں کے عیوض سود سے جمع رقوم کو مزید سرمایہ کاری کے لیے رہن پر سونے اور دیگر قیمتی اشیاء کو رکھ کر قرضہ فراہم کرتے اور ایک پرچی دینے۔ جس پر اس ساہوکار کا اعتبارہوتا۔ اس اعتباری پرچی کو لوگ مزید لین دین کے لیے استعما ل کرتے اس طرح سے سب سے پہلے اعتباری کرنسی کی شروعات ہوئیں۔بینکوں کی شروعات سب سے پہلے اٹلی  کے شہر لومبارڈی (Lombardy) میں قرون وسظی میں مرچینٹ بینکیگ سے ہوئی جہاں پر اجناس کی پیداوار اور خرید و فروخت پر سودی قرضے سب سے پہلے یہویوں نے شروع کیے اس وقت تک عیسائیت میں سود کی حلت موجود تھی۔  نا صرف سودی قرضے فصل کی کاشت کے وقت دیے جاتے تھے بلکہ فصل کی کاشت اسکو خریدار تک  حفاظت سے پہچانے کی ذمہ داری کے لیے انشورنس بھی کی جاتی تھی۔ ان قرض کو جاری کرنے والے افرا د اجناس کی ماکیٹ میں ایک بینچ(Banch) میں بیٹھ جاتے اس بینچ کو اطالوی زبان میں بانک کہتے تھے وہاں سے بینک  کی اصطلاح شروع ہوئی۔  ١٦ ویں صدی میں وینس میں تاجروںکی حفاظت  سے ادائیگی کے پیش نظر  زر کے تاجروں نے طلائی کرنسی  میں لین دین کی جگہ  پہلی دفعہ چیک کا استعمال کیا گیا۔ اس طرح چیک کے ذریعہ سے لین دین شروع ہوئی ، جو کی پہلے پرچی کے ذریعہ ہوتی تھی۔ یہ ایک آسان طریقہ تھا اس لین دین سے بینک کے مالکان کے کھاتے میںکافی رقم جمع ہوگئی جو کہ اس نے مزید قرضے پر دینی شروع کردیں۔ اس طرح طلائی زر ان بینکاروں کے پاس آگیا اور اس کے عیوض کاغذ کے چیک جاری ہوگئے جوکہ  دیگر ادائیگیوںکے لیے بھی استعمال ہونے لگے۔ یہ کاروبار نجی طور پر  خوب فروغ پایا اور دیگریورپ کے ممالک میں بھی پھیل گیا۔ برطانیہ میں میںگولڈ اسمتھ بینکاری نے فروغ پایا۔ سونے کے تاجر بھی یہ ہی کام کرتے تھے کہ لوگوں سے سونا لیتے اس کے عیوض قرضہ فراہم کرتے یہ قرضہ ایک پرچی پر لکھا ہوتا لوگ اس پرچی سے خرید و فروخت کرتے۔ کم لوگ اس سونے کو نکلوتے اور زیادہ جمع کرواتے۔جس سے ان سناروں کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس سونے اور چاندی کے محفوظات کے بدلہ مزید قرضہ فراہم کرے اور انکو کاغذی رسید دے جس کے پیچھے کچھ نہ ہو سوائے سنار کے اعتبار کے  اس طرح یہ رسید پہلی اعتباری بینک کرنسی بن گئی۔ یہاں سے سب سے بڑا منظم فراڈ شروع ہوا اور آج تک جاری ہے کہ کھاتے دار بینک اپنے ڈپاسٹ سے کئی گناہ زیادہ قرض فرا ہم کردیتے ہیں یہ قرض اعتباری کرنسی کی صورت میں اشیاء اور خدمات کی خرید و فروخت کو ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے آپ اگلے ابواب میں ملاحظہ فرمائیںگے۔١٥ سولہویں صدی تک یہ بینکاری نجی شعبہ تک محدود رہی اور متعدد خاندان اس سے مستفید ہوئے۔ یہ خاندان خلافت عثمانیہ تک پہنچ گئے تھے اور زر کا کاروبار وہاں بھی فروغ دیا۔ مگر یہ کس نہج تک پہنچا یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے۔

 ١٧ ویں ١٨ ویں صدی میں یہ بینک نجی سطح سے نکل کر ریاستی سطح تک پہنچ گئی تاکہ زر کے اس کاروبار کو اعتبار حاصل ہو اور کوئی نجی شخص فراڈ نہ کرسکے اور قلاش  نہ ہوجائیں اس لیے کہ بینک اپنی محفوظات سے بڑھ کر قرضہ فراہم کرنا   شروع ہوگئے ۔ مگر جب یہ افواہ گرم ہوجاتی کہ فلاں شخص جو کہ بنکاری کر رہا ہے وہ دوالیہ ہوگیا ہے  تو  جنہوں نے اس کے پاس طلائی کرنسی یا اشیاء رکھوائی ہوتیں وہ جوق در جوق اس سے اسکو حا صل کرنے کا مطالبہ کرتے چوں کی وہ اس رقم سے زیادہ قرضہ فراہم کرچکا ہوتا ہے تو وہ ان رقوم کو دینے سے قاصر ہوتا تھا ۔وہ سنار قلاش ہوجاتا اور لوگوں کی رقم ڈوب جاتی ۔ اس مشکل کے حل کے لیے ایک ریاستی مرکزی  ادارہ کی ضرورت پڑی جو کہ تمام کا محافظ ہو اور آفت میں انکو مدد فراہم کرسکے اور قلاش ہونے سے بچا سکے۔ نجی ان مالیاتی اداروں کو ایک مرکزی ادارہ سے منسلک کردیا گیا۔ سب سے پہلے وینس میں سرکاری سطح پر١٦١٧ء میں بینک گیرو(Giro)قائم ہوا اس کے بعد ١٨ ویں صدی میں بینک آف انگلینڈ قائم ہو ا اور اس کے ساتھ ہی بینکاری کی باقاعدہ شروعات ہوگئیں اور اعتباری کرنسی جسکو عام طور پر کاغذی کرنسی کہتے ہیں اسکی شروعات ہوگئیں۔بینک آف انگلینڈ کو پہلا  باقاعدہ مرکزی بینک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اسکے بعد سے بینک دیگر فرائض بھی انجان دینے لگا  جیسے بینکوں کا بینک، کرنسی نوٹوں کا اجرائ، زری پالیسی کو قابو کرنے کا لائحہ عمل ۔

بینکوں کی تاریخ کو اگر دیکھیں تو پتہ چلے کا کہ مغرب میں عیسائیت کی شکست کے بعد سے جب سے مغرب میں تشکیل جدید (Enlightenment) کی تحریک نے فروغ پایا تو سود کو جواز ملا کہ اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کو منظم کیا جاسکے۔ سود کی لین دین نجی طور پر تو ہر معاشرہ میں جاری تھی، لوگ سودی لین دین محدود پیمانے پر کررہے تھے۔ مگر اسکو پزیرائی اور ادارتی صف بندی بینکوں کے ادارے سے ہی ملیں۔بینک نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ تجارت اور ذریعی قرضوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بہانے سودی قرضوں کی لین دین کو کاروبار بنا لیا اس کی بنیاد پر سودی کرنسی کا اجراء کردیا۔ طلائی اور نقرئی کرنسی جو کہ اصل پیمانہ تبادلہ تھی اسکو تبدیل کرکے قرضوںکی بنیاد پر اعتباری کرنسی کا اجراء کردیا۔ اس اعتباری کرنسی پر بینک کا اختتار ہے کہ وہ جتنا زر چھاپنا چھاہے چھاپ سکتاہے۔

اب ہم اس بینکاری نظام کے کلیدی اداروں کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔بینکاری نظام کا اگر جائزہ لیا جائے  تو موجودہ دور میں اسکو ہم تین اہم اداروں میں بانٹ سکتے ہیں ایک مرکزی بینک دوسرے کھاتے دار بینک اور تیسرے غیر کھاتے دار بینک ۔ ہم اس سیکشن میں ان تینوں بینکوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے ۔ سب سے پہلے ہم کھاتے دار بینکوں کے سب سے زیادہ پائے جانے والے ادارے کمرشل بینک کا جائزہ لیں گے۔

کمرشل بینک(Commercial  bank)  :

            کمرشل بینک کو اگر دیگر کھاتے دار بینکوں سے موزانہ کریں تو کمرشل بینک وہ ادارے ہوتے ہیں جو کہ بڑے پیمانے پر تجارتی بنیادوں پر بغیر کسی رکاوٹ کے قرضوں کا اجراء کرسکیںاور وہ قانونی طور پر اس کے مکلف ہوںکہ چیک والے اکاؤنٹ کھول سکیں۔یہ تو بینک کی ایک تعریف تھی ۔ بینک میں اور دوسرے اداروں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اسکی ذمہ داریوں (Liabilities)کا زیادہ تر حصہ عوام الناس سے جمع کیے ہوئے کھاتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کے لیے لوگ بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ کھولتے ہیں۔بینک ان کھاتوں کو رکھنے کے عوض زیادہ تر سود کی ادائیگی کرتا ہے ۔ بینک کا یہ فنڈ جو کہ وہ کھاتے داروں سے حاصل کرتا ہے اسکو وہ آگے سود پر قرضے کے طور پر دے دیتا ہے۔کمرشل بینک یہ قرضے تجارتی بنیادوں پر اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے منافع  میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے۔ اس لیے وہ ان قرضوں پر سود کھاتے داروں کو دیے گیے سود سے زیادہ رکھتا ہے۔ کمرشل بینک کے نظام کو  تفصیل سے جاننے کے لیے ہم اسکی بیلنس شیٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کی بیلنس کی طرح بینک کی بلینس شیٹ  کے بھی دو اجزاء ہوتے ہیں ایک اثاثے(Assets)اور دوسرا  ذمہ داریاں(Liabilities)

کمرشل بینک کے اثاثے:(ASSETS OF COMMERCIAL BANK)

کمرشل بینک کے اثاثوں پر اگر نظر ڈالیں تو اس کے اثاثے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک قرضوں  و تمسکات کی صورت میں اور دوسرے  محفوظات کی صورت میں۔ محفوظات کا کچھ حصہ  وہ  اپنے پاس رکھتا ہے تاکہ اس کی  روزمرہ کی کیش کی ضروریات  پوری ہوسکیں اورکچھ حصہ  مرکزی بینک  میں اس لیے رکھتا ہے تاکہ  بہ وقت ضرورت اس سے  قرضہ لے سکے۔  ان ہی دو مدوں میں کمرشل بینک اپنے اثاثے رکھتا ہے اس میں بھی اول ذکر اثاثے جس پر اسکو سود ملتا  ہے کل اثاثوں کا  60 سے 70فیصد ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو ان کی ترتیب کچھ یوںہوگی۔

١۔ نقد اثاثے (Cash Assets):

نقد اثاثے آلی مبادلہ (Medium of exchange) کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ نقد اثاثوں میں درج ذیل اثاثے شامل ہوتے ہیں۔

1۔ نوٹس،  کرنسی  اور چاندی کے اثاثے.

2۔محفوظات(Reserves) :

کمرشل بینک کچھ محفوظا ت کھاتے داروں کی کیش ضروریات کے لیے رکھ لیتا ہے جسکو  والٹ نقدی (Vault Cash)   کہتے ہیں یا  جو  محفوظات  مالیاتی ادارے اپنے پاس تمسکات کی صورت میں رکھتے ہیں اس کو سیال محفوظات(Liquid reserve)  کہتے ہیں۔

  کمرشل بینک کچھ محفوطات مرکزی بینک کے  پاس رکھتا ہے اس کو  نقدی محفوظات(Cash Reserve)   یا  محفوظات کھاتے  (Reserve deposit) بھی کہتے ہیں۔ ان محفوظات کی بنیاد پر مرکزی بینک ان دیگر مالیا تی ادارو ں کو  مصیبت کے وقت قرضے فراہم کرتا ہے۔

3۔ Corresponding Balance :  اس کے علاوہ کسی بھی بڑے کمرشل بینک کے پاس چھوٹے بینکوں کی کچھ  رقم محفوظات کی صورت میں ہوتی ہے اسکو Corresponding balanceکہتے ہیں۔

ان نقد اثاثوں کے علاوہ دیگر اثاثے درج ذیل ہیں۔

٢۔ تمسکات کی خریداری(Securities) :

 اس میں حکومتی تمسکات، ٹریژری بل (T bills) ، بونڈز(bonds) ، غیر ملکی تمسکات اور دیگر تمسکات شامل ہوتے ہیں۔ جب بینک ان تمسکات کو خریدتا ہے تو وہ دراصل مرکزی بینک کوقرضہ فراہم کرتا ہے ۔ تمسکات کی خریداری اثاثوں کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے۔

٣۔قرضے  دینا(Loans):

بینک کا سب سے اہم فریضہ قرضوں کی فراہمی ہے۔ یہ قرضہ وہ صنعتی اور کمرشل بنیادوں پر دیتا ہے یا پھر صرف کے لیے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے طویل مدت کے لیے بھی ہوتے ہیں اور قلیل مدت کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ 

ان اثاثوں کے علاوہ بہت قلیل مدت کے قرضے بھی کمرشل بینک دیتا ہے جن کو محفوظ اور غیر محفوظ قرضے(Secured & unsecured loan) بھی کہتے ہیں۔

 محفوظ اور غیر محفوظ قرضے   (Secured & unsecured loan):

یہ قرضے بہت ہی قلیل مدت کے لیے ہوتے ہیں جن کی معیاد چند دنوں یا گھنٹوں تک کی ہوتی ہے۔

            ان قرضوں میںدو بارگی تمسکات کی خرید و فروخت (Repurshase REPO)”  کے معاہدے اور بینکوں کے درمیان قرضوں کے تبادلے یا کال قرضہ(inter bank loan or call loans)  شامل ہیں۔ اول ذکر قرضوں کو محفوظ قرضہ(Secured loan) یا  اثاثی قرضہ (collateral Loan)  تصور کیا جاتا ہے۔جبکہ بینکوں کے درمیان قرضوں کے تبادلے(inter bank loan or call loans)    غیرمحفوظ قرضے(Unsecured Loan)  یا  بے اثاثی قرضے (Noncollateral loan) تصور کیے جاتے ہیں۔ بینکوں کے درمیان قرضوں کی معیاد عام طور پر ایک دن  یا اس سے کم چند گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔ بہت کم مقدار میں قرضے ایک دن سے زیادہ معیاد کے بھی ہوتے ہیں۔ان قرضوں پر لیا جانے والا سود کال قرضہ (Call rate)  کہلاتا ہے ۔ ان قرضوں کا تبادلہ اس صورت  میں ہوتا ہے کہ ایک بینک کے پاس اگر کوئی قرضہ لینے آیا اور بینک کے پاس اتنی رقم  محفوظات میں نہیں ہے مگر اسکو علم ہے کہ یہ رقم کل تک اس کے پاس آجائے گی اس صورت میں وہ دیگر

بینکوں سے رجوع کرے گا جس بینک کے پاس اس دن زیادہ محفوظات موجود ہوںگے وہ ان سے کال ریٹ پر یہ قرضہ ایک دن یا چند گھنٹوں کے لیے لے لے گا۔اس طرح بینک آپس میں محفوظات کا تبادلہ کرتے ہیں۔چوں کہ ان قرضوں کے پیچھے کوئی تحفظ(security) یا collateral موجود نہیں ہوتا اس کیے ان کو   غیرمحفوظ قرضہ(Unsecured Loan)  یا  بے    قرضہ (Noncollateral loan)  تصور کرتے  ہیں۔  جب کمر شل بینک اپنے زائد محفوظات میں سے قرضہ فرہم کرتا ہے تو وہ اسکے اثاثے بن جاتے ہیں اسی طرح جب وہ  دوبارگی کی بنیاد پر ان تمسکات کو خریدتا ہے تو یہ بھی اسکے اثاثوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

            بینک یہ اثاثے کیسے بناتا ہے تو ان کی بنیاد  وہ وصولیاں ہوتی ہیں جو کہ  ذمہ داریاں (Liabilities) کی صورت میں لیتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔

ذمہ داریاں (Liabilities):

            بینک میں بنیادی طو ر پر تین قسم کی وصولیاں ہوتی ہیں ایک بینک کے کھاتے  اور دوسرے بینک قرضوں کی وصولیاں  اور بینک کا سرمایہ۔

بینک کھاتے(Bank Deposits) :

            بینک بنیادی طور پر چارقسم کے کھاتے وصول کرتا ہے ایک عند الطلب کھاتے(Demand deposit)دوسرے میعادی کھاتے (Time deposit)  تیسرے  بچت کھاتے اور چوتھے غیر ملکی کرنسی کھاتے۔

 عند الطلب کھاتے(Demand deposit):

یہ وہ کھاتے ہوتے ہیں جن  میںکھاتے دار کو کسی بھی وقت نقد نکلوانے کی اجازت ہوتی ہے۔اس میں دو طرح کے کھاتے ہوتے ہیں ایک وہ کھاتے  جن پر سود دیا جاتا ہے اور دوسر ا وہ جن پر کوئی سود نہیں دیا جاتا ۔ ان آخر الذکر کھاتوں کو عام طور  پر فوری کھاتے (current accunt deposit ) کہا جاتا ہے ۔

میعادی کھاتے (Time Deposit):

             یہ وہ کھاتے ہوتے ہیں جن کو نکلوانے کی میعاد مقرر ہوتی ہے یہ میعاد طویل مدت کی بھی ہوتی ہیں اور قلیل مدت کی بھی ہوتی ہیں۔اگر ان کی میعاد ایک سال سے کم ہوتو وہ قلیل مدتی کھاتے کہلاتی ہیں اور اگر مدت ایک سال سے زیادہ ہو تو یہ طویل مدتی کھاتے کہلاتے ہیں۔جتنا  کسی کھاتے کی مدت زیادہ ہوگی اتنا ہی اس پر زیادہ سود بینک ادا کرتا ہے ۔

بچت کھاتے (Saving account):

            بچت کھاتے وہ کھاتے ہوتے ہیںجس میں لوگ  اپنی بچتیں کچھ  مدت کے لیے رکھتے ہیںیہ مدت متعین نہیںہوتی۔ ان کھاتوں  پر بینک  ماہانہ بنیادوں پر سود کی ادائیگی کرتاہے۔

غیر ملکی کرنسی کھاتے(Foreign currency Account):

             ان کھاتوں میںغیرملکی کرنسی میںکھاتے کھولے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کھاتوں میںزیادہ تر ڈالر کھاتے ہوتے  ہیں۔امریکہ میںاسکو یورو ڈالر کھاتے(Eurodollar account) کہتے ہیں۔

            ان کھاتوں میں عندالطلب کھاتے عام طور پر تبادلہ(Transaction)کے لیے استعمال ہوتے ۔ جبکہ میعادی کھاتے عام طور پر انویسٹمینٹ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جتناکسی ملک میں انویسٹمینٹ کے مواقع کم ہوں گے اتنا ہی لوگ اپنے کھاتے عندالطلب کھاتوں میں رکھیں گے۔اس کے علاوہ جتنا معیشت میں مالیاتی اداروں کا عمل دخل زیادہ ہوگا اور تمام لین دین بینکوں کے ذریعہ ہوں گی اتنا ہی طلب کھاتوں میں اضافہ ہوگا ۔ اے ٹی ایم (ATM)کریڈٹ کارڈ کے عام استعمال سے بھی ان کھاتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ بینک اپنی اصل خدمت سے دور ہوکر اپنے منافع میں اضافہ کے لیے زر کو صرف کے لیے او ر تبادلہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان کھاتوں کے علاوہ دیگر وصولیاں جو کہ بینک وصول کرتا ہے اس میں قرضوںکی وصولیاں ہیں۔

قرضوںکی وصولیاں :

            جیسا کہ ادائیگیوں میں ہم نے دیکھا تھاکہ بینک مختلف قسم کے قرضے لیتا ہے جیسے وہ تمسکات کی خریداری کرتا ہے ۔ جب یہ تمسکات اپنی میعاد پوری کرلیتے ہیں تو بینک ان کو فروخت کردیتا ہے ۔ بینک کی یہ فروخت اسکی وصولیوںمیںشمال ہوتی ہیں۔اسی طرح بینک جو دوبارہ فروخت کے نتیجہ میں تمسکات کی فروخت کرتا ہے تو یہ بھی وصولیوںمیںآجاتا ہے۔اس کے علاوبینک جو آپس میںقرضوںکی وصولی کرتا ہے وہ بھی  بینک کی ذمہ داریوںمیںآتا ہے۔ڈسکاؤنٹ ونڈو کے تحت بینک جو بھی قر ضے بینک مرکزی بینک سے وصول کرتا ہے وہ بھی اس کی ذمہ داروںمیںآتا ہے۔

 بینک کا سرمایہ:(Equity capital)

             بینک نے اپنے قیام کے لیے قرضوں کے علاوہ کچھ سرمایہ لگایا ہوتا ہے جس کو بینک کا سرمایہ کہتے ہیں۔ یہ سرمایہ برابر ہوتا ہے ادئیگیوں اور وصولیوںکے فرق کے۔بینک کا سرمایہ کھاتے داروں کے لیے مصیبت کے وقت ایک سہارا ہوتا  بھی ہوتا ہے۔

            بینک کی یہ وصولیاں یا ذمہ داریاں دراصل بینک کے فنڈ(Funds)ہوتے ہیں۔ اس فنڈ ز میں بینک سرمائے کا بہت کم حصہ ہوتا ہے جیسے

جیسے بینک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں بینک فنڈ کے دیگر ذرائع پر اس کا انحصار بڑھتا جاتا ہے۔

کمرشل بینک کے وظائف وخدمات:(Functions of Commercial Bank)

بینک کے دو بنیادی فرئض ہوتے ہیں ایک وہ  امانتوں کی وصولی کرتا ہے کھاتے کھول کر دوسراوہ قرضوں کی فراہمی کرتا ہے۔ جس کی تفصیل ہم ذمہ داریوں اور اثاثوں  میں دیکھ چکے ہیں۔ان خدمات کے علاوہ وہ ایک اور وظیفہ ادا کرتا ہے ۔کہ ان قرضوں کی فراہمی کے ذریعہ زر کی تخلیق کرتا ہے وہ یہ کس طرح کرتا ہے اسکو ہم ایک مثال سے دیکھتے  ہیں۔

کمرشل بینک کا تخلیق زر:

            ایک بینک الف لیتے ہیں جس کی بیلنس شیٹ ابھی خالی ہے۔فرض کریں کہ مرکزی بینک سے 1000روپے کے ٹی بلز  اس بینک الف کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں جیسا کہ جدول 1-2 میں دیا گیا ہے۔ان وصولیوں کی وجہ سے بینک میں 1000روپے  کے محفوظات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب فرض کریں کہ درکار محفوظات کی شرح  دس فیصد ہے۔ اس نسبت سے جیسا کہ جدول 1-2 میں دیا گیاہے بینک 900روپے کے قرضوں کا اجراء کرے گا اور  100روپے کے محفوظات اپنے پاس رکھے گا۔یہ قرض جس دوسرے شخص کو ملے گا وہ  چیک کی صورت میں ملے گا وہ اسکو فرض کریں بینک  ب میں جمع کروادے گا جس کی وجہ سے بینک ب کی بیلس شیٹ کچھ یوں ہوگی دیکھیں جدول 1-3 ۔

            جدول  1-1                                   بینک الف (ابتدائی حالت)

ذمہ دا ریاں

اثاثے

کھاتے                                1000روپے

بینک  ب  دس فیصد اپنے پاس رکھے گا اور باقی 810روپے بطور قرض کسی تیسرے شخص کو  چیک کی صورت میں دے گا۔ یہ شخص اس چیک کو اپنے بینک ج میں جمع کروادے گا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک کہ کھاتے صفر نہ ہوجائیں۔

جدول  1-3                                   بینک ب (ابتدائی حالت)

اس مکمل صورتحال کو اگر ہم دیکھیں جیسا کہ جدول1-5میں دیا گیا ہے تو ہم کو پتہ چلے گا کہ اس 1000روپے سے یہ بینک دس ہزار(10000)روپے تک  کے نئے کھاتے تشکیل دے دیتا ہے۔ اس طرح 1000روپے کے عوض اگردرکار محفوظات دس فیصد ہوں تو 9000روپے کی مزید کرنسی کا اجراء قرضوں اور انویسٹمینٹ کی صورت میں کردے گا۔

جدول 1-5

اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اصل زر جو کہ مرکزی بینک تشکیل کرتا ہے،وہ بھی اصل زر نہیںہوتا وہ بھی سودی قرضوں کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے جس کی تفصیل ہم مرکزی بینک کے حصہ میں دیکھیں گے، اس سے دس گناہ زیادہ اعتباری زر کمرشل بینک تخلیق کرتا ہے ۔ اس دس گنے کو زر کا ضارب (Deposit Creation)کہتے ہیں اور اس کو ہم ایک فارمولے سے ظاہر کرتے ہیں۔

اگر d= Required reserve درکار محفوظات

D= Change in deposit   کھاتوں میں تبدیلی

R = Change in reserveمحفوظات میں تبدیلی

توD = 1/d R ………….1-24

ہماری مثال میں چوں کہ d = 0.1 اور R = 1000 تو اس طرح مساوات 1-24 D برابر ہوگا

اس مساوات میں   1/d زر کا ضارب ہے جو کہ 1/0.1 = 10 کے برابر ہے

 اس طرح 1000روپے  کے محفوظات کے نتیجہ میں 10000روپے کے نئے کھاتے یا زر کی تخلیق ہوگی۔ اگر  d کی مقدار کو بڑھا کر 20فیصد کردیا جائے تو            

1/ d = 1/0.2 = 5 جس کے نتیجہ میں5000روپے کے نئے کھاتے یا زر کی تخلیق ہوگی۔d کی مقدار کو تبدیل کرکے مرکزی بینک زر کی ترسیل کو تبدیل کرسکتا ہے۔ایک آزاد مالیاتی نظام میں  جب کہ مرکزی بینک کا اختیات dکی تبدیلی پر ختم ہوجاتا ہے اور یہ اختیات کہ d کو کتنا رکھا جائے یہ بینک کے  منافع کے حصول پرہوتا ہے کہ اس کے پاس کتنے قرضے اور انویسٹمینٹ کی ضرورت ہے۔ اس طرح d پر اختیار مارکیٹ کا ہوتا ہے کہ اس کو کتنارکھا جائے۔

     اس مثال میں زر کاضارب (mm) درکار محفوظات(d) پر منحصر ہے مگر حقیقت میںmm دیگر تناسبوں پر بھی منحصر ہوتا ہے۔

 اگر                        MB= Monetary Base بنیادی زر 

M = Quantity of moneyمقدار زر

c = Currency deposit ratio   کرنسی کھاتوں کا تناسب

e = Exess reserve to deposit ratio زائد محفوظات اور کھاتوں کا تناسب

M =(1+c)/(d+e+c) MB……….1-25

M = mm MB

اس مساوات 1-25کی مدت سے ہم زر کے ضارب کی مکمل پیمایش نہیں کرسکتے بلکہ ایک تخمینہ لگا سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ قرض لینے والا کتنی رقم فوری ضرور کے لئے نکالے گا اور کتنی رقم بعد میں نکلوئے گا۔ وہ چیک کتنے عرصہ بعد جمع کروائے گا وغیرہ ۔ اس لئے زر کو ناپنے کے لئے عام طور پر M / MB  کا تناسب نکال لیا جاتا ہے ۔

            جتنا زیادہ مالیاتی اداروں کا اثر رسوخ معاشروں میں بڑھے گا اتنا ہی سودی قرضوں کا زیادہ اجراء ہوگا اتنا ہی زر کی تخلیق میں کمرشل بینکوں کی تخلیق کردہ زر میں اضافہ ہوگا۔اس زر کو قریبی زر)  near money (   M2بھی کہتے ہیں۔

زری پالیسی کا اجرائ:

            کمرشل بینک تخلیق زر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اسی لیے یہ ترسیل زر کو بھی قابو میں کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھاکہ جتنا زیادہ بینک قرضے فرہم کرے گا اتنا ہی زر کی ترسیل میں اضافہ کا سبب بنے گا۔قرضوں کو قابو کرنے کے لیے محفوظات کے تناسب  میں کمی بیشی کرنی پڑتی ہے اور یہ کمی بیشی  زر کے ضارب کے اجزاء کو تبدیل کرکے کی جاتی ہے۔اگرترسیل زر کو زیادہ کرنا ہو تو ز ر کے ضارب کو بڑھانا ہوگا جس کے لیے d کو کم رکھنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ دیگر تناسبوں کو بھی کم یا زیادہ کرکے بھی ترسیل زر کو قابو میںکیا جاسکتا ہے مگر ان میںکمی بیشی مرہون منت ہے کھاتے دار کے رویے کا جو کہ تبدیل کرنا بینک کے اختیار میں نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے ادارتی  ساخت میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔جو کہ ایک طویل میعاد کا م ہے۔

             اس کے علاوہ شرح سود میں تبدیلی سے بھی کھاتوں اور انویسٹمینٹ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ بینک کے پاس چار قسم کے سود ہوتے ہیں ایک وہ سود جو وہ اپنے کھاتے دار کو دیتا ہے دوسرا جو وہ قرض دار سے لیتا ہے اسکو مارکیٹ ریٹ کہتے ہیں تیسرا جو وہ دیگر بینکوں کو دیتا لیتا ہے جس کو کال ریٹ کہتے ہیں اور چوتھا جو وہ  مرکزی بینک کو دیتا ہے جس کو بینک ریٹ کہتے ہیں۔ مارکیٹ ریٹ کو کم کرنے سے بینکو ں کے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر اس کو کم کرنے سے کھاتے دار کو دیا جانے والا سود بھی کم ہوجاتا ہے جس سے کھاتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مگر مرکزی بینک سے قرضوں  وافر مقدار میں  فرہمی کی وجہ سے بینک فنڈ میں کمی کو پورا کرسکتا ہے۔ مگر اس صورت میں بینک ریٹ کو مارکیٹ ریٹ سے بھی کم کرنا ہوگا اور یہ ریٹ مارکیٹ ریٹ سے کم ہوگا ۔ اگر مرکزی بینک قرضوں میں کمی کرنا چاہتا ہے تاکہ زر کی ترسیل میں کمی کر سکے تو وہ اس صورت حال میں بینک ریٹ کو بڑھاسکتا ہے۔

            ایک آزاد مالیاتی نظام میںجہاں بینکوں کے درمیان مقابلہ ہو اور انکا اصل ہدف زیادہ منافع کا حصول ہو تو اس صورت میں زری پالیسی میں بینک کا اور مرکزی بینک کا کردار کم اور مارکیٹ میں قرض لینے والی کارپوریشن کی خواہش کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔

            مالیاتی نظام کا ایک اور اہم ادارہ مرکزی بینک ہے اب ہم اسکے وظا ئف و خدمات کا جائزہ لیں گے۔

مرکزی بینک:          (Central bank) 

             مرکزی بینک جو کہ مالیاتی ادارو ں کا سب سے بنیادی ادارہ ہے اس کے فرایض و ذمہ داریوں کا جائزہ لینے سے پہلے اس اسکی بیلنس  شیٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔

مرکزی بینک کے اثاثے (Assets):

            اگر کسی بھی ملک کے مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ کو دیکھیں تو اس میں درج ذیل اثاثے عام طور پر ہوتے ہیں۔

1۔حکو متی تمسکات :(Goverment Securities)

مرکزی بینک کے اثاثوں میں سب سے زیادہ جس کا حصہ ہوتا ہے وہ حکومتی تمسکات کا ہوتا ہے اس میں حکومتی کفالتوں اور ھنڈیاں شامل ہوتی ہیں۔یہ تمسکات جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا تھا کہ حکومتی سودی قرضے ہوتے ہیں جو کہ وہ مرکزی بینک کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔مرکزی بینک جو کہ حکومتی بینک ہوتا ہے ۔، حکومت کو جب بھی خسارہ کاسامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس خسارے  بڑا حصہ ان تمسکات کے اجراء کے ذریعہ پورا کرتا ہے۔مرکزی بینک ان تمسکات کو دیگر مالیاتی اداروں کو فروخت کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے دیگر مالیاتی اداروں کی ذمہ داریوں میں اس مقدار کا اضافہ ہوتا ہے اور مزکزی بینک کے اثاثوں میںاس مقدا ر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ  دوبارہ خریداری (RPs)کے معاہدے کے تحت بھی بہت قلیل مقدار میں اثاثوں میں

اضافہ ہوتا ہے۔

۔قرضے  (Loans):

            جیسا کہ ہم نے کمرشل بینک کے حصہ میں دیکھا تھا کہ کمرشل بینک مرکزی بینک سے قرضے لیتا ہے۔ یہ قرضے  جو مرکزی بینک اجراء کرتا ہے اسکے اثاثوں میں آتے ہیں ۔ ان قرضوں کے تحت مرکزی بینک ڈسکاؤنٹ ونڈو کو آلہ کار کے تحت استعمال کرتاہے۔ یہ قرضے اسکی زری پالیسی کا اہم جز ہے۔جبکہ اثاثوںمیں اسکا حصہ کم ہوتا ہے۔

3۔سونے  کے ذخائر  (Gold and Gold bullion):

            سونے کے ذخائر یا سونے کے سرٹیفکیٹ دراصل بینک کے اثاثے ہوتے ہیں ۔ سونے کو  جب کہ معیا ر تصور کیا جاتا تھا اس وقت سونے کے ذخائر کا اثاثوں میں سب سے زیادہ حصہ ہوتا تھا۔ مگر موجودہ دور میں جب سے سونے کے میعار کو ختم کردیا گیا ہے اثاثوںمیں اسکا حصہ واجبی ہوکر رہ گیا ہے۔ عام طور پر اسکا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہوتاہے۔

4۔ایس ڈی آر (SDR):

            ایس ڈی آر  دراصل آئی ایم ایف  کی طرف سے اجراء کیے ہوئے سرٹیفیکٹ ہوتے ہیں یہ سرٹیفیکٹ سونے کے ذخائر کے متبادل تصور کیے جاتے ہیں۔یہ IMFاپنے ممبر ممالک کو ان کے حصہ کے مطابق دیتا

ہے۔ان سرٹیفیکٹ کا اجراء 1970 کے بعد ہوا تاکہ سونے کے گرتے ہوئے میعار کو مستحکم کیا جائے ۔ مالیاتی پالیسی کو IMFکے تحت بین الاقوامی طور پر چلایا جائے۔مگر مالیاتی پالیسی کی آزادی کے نتیجے میں یہ پالیسی کامیاب نہ ہوئی اور سونے اور ایس ڈی آر کے ذخائر میں کوئی اضافہ نہ ہوا ۔ دنیا کے تمام ممالک میں SDR  اثاثوں کا قلیل حصہ ہی رہے۔

5۔زرمبادلہ کے ذخائر (Foreign exchange reserves):

            غیر ملکی کرنسی  کے ذخائر کے مجموعہ کو جو کہ مرکزی بینک کے پاس جمع ہوتا ہے اسکو زرمبادلہ کے ذخائر کہا جاتا ہے۔جب بھی غیر ملکی سرمائے کی درآمد ہوتی ہے  تو اس کے نتیجے میں مرکزی بینک کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ اثاثے  زیادہ تر غیرملکی یا بین الاقوامی اداروں کی امداد اور قرضوں، بیرونی ملک مقیم افرد کی بھیجی جانے والی رقم(Remmittance)، غیرملکی انویسٹمینٹ سے حاصل ہوتی ہے۔ان ذخائر کا حصہ اثاثوں میں اچھاخاصہ ہوتا ہے۔اس کا اثاثوں میں حصہ اس بات پر منحصر ہے کہ ملک میں کتنا زر مبادلہ آتا ہے۔جتنا زیادہ زرمبادلہ ملک میں آئے گا اتنا ہی اثاثوں میں اسکا حصہ زیادہ ہوگا۔

             یہ وہ اثاثے ہیں جو کہ اثاثوں کا اکثر حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر وصولیاں بھی مرکزی بینک کو حاصل ہوتی ہیں۔ان اثاثوں کے بعد ہم اب اس کی ذمہ داریوں کو جائزہ لیں گے۔

مرکزی بینک کی ذمہ داریاں (Liabilities) :

            مرکزی بینک اپنے اثاثوں کی بنیاد پر جو ذمہ داریاں پیدا کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ جو ذمہ داری  ہے وہ کرنسی اور نوٹس ہیں اور کسی بھی ملک میں اس کا حصہ 70فیصد سے 80فیصد ہوتا ہے۔ اس کے  بعددیگر مالیاتی اداروں کے محفوظات ہوتے ہیں جو کہ وہ لازمی طور پر اسکے پاس رکھتے ہیں ۔ یہ محفوظات  مالیاتی اداروں  کے اثاثے ہوتے ہیں جو کہ  مرکزی بینک کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔اس کے علاوہ حکومتی تمسکات جو کہ میعاد پوری کرنے کے بعد اس کے پاس مالیاتی اداروں سے آتے ہیں ۔ اس میں ریپو (REPO)  معاہدے کے تحت خریدے گئے تمسکات بھی ہوتے ہیں۔

            یہ تو مرکزی بینک کے اثاثوں اور ذمہ داریوں کی تفصیل تھی اب ہم دیکھیں گے کہ مرکزی  بینک کیا فرئض اور خدمات انجام دیتا ہے۔

 جدول 1-6                           مرکزی بینک کی بلینس شیٹ

مرکزی بینک کی خدمات اور فرائض (Functions of Central Bank) :

            یہاں ہم مرکزی بینک کی خدمات اور فرائض کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ یہ فرائض اور خدمات کن بنیادوں پر انجام دیتا ہے۔

تخلیق زر:

              تخلیق زر جس کی اصل ذمہ داری مرکزی بینک کی ہوتی ہے وہ اس کی تخلیق دراصل اپنی بیلینس شیٹ کی مدد سے کرتا ہے۔ جیسا کہ جدول 1-6 میں دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی تخلیق اپنے اثاثوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس میں سے حکومتی تمسکات ، سونے کے ذخائر اور زرمبادلہ کے ذخائر کی بنیاد پر دنیابھر میں زیادہ تر کرنسی تخلیق کی جاتی ہے۔                 مرکزی بینک کن بنیادوں پر تخلیق زر کرتا ہے اس کے کیے ہم مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ دیکھتے ہیں۔جیسا کہ جدول 1-6میں دیا گیا ہے کہ مرکزی بینک تخلیق زر اپنے اثاثوں کی بنیا پر کرتاہے۔دنیا کے جدید ممالک کو دیکھیں  جیسے برطانیہ  امریکہ وغیرہ(Rawbothen 1997),

Annual report Various)   یا ترقی پزیر ممالک کو دیکھیں جیسے پاکستان(Miller 1993) ان ممالک کے اثاثوں کا زیادہ تر حصہ تمسکات اور زرِ مبادلہ پر مبنی ہوتا ہے۔مائیکل روبوتھم(Rowbotham 1997) تفصیل سے لکھتا ہے کہ موجودہ دور میں کس طرح زرتخلیق کیا جاتا ہے ۔ اس زر کے پیچھے اندرونی قرضے ہی ہوتے ہیں وہ کہتا ہے کہ تمسکات جو کہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں یہ حکومت جاری کرتی ہے تاکہ اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرسکے۔اس کو ہم مزید تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

بیررونی قرضے اور تخلیق زر:

                         تخلیق زر کے پیچھے جو بیرونی قرضے پوشیدہ ہوتے ہیںاس کے عوامل  اس سے مختلف ہے جو کہ ان قرضوں کو دیتے وقت مقروض ملکوں کو  بتائے جاتے ہیں۔قرض دینے والے دو بڑے بین الاقوامی ادرے جنگ عظیم دوئم کے بعد بر یٹن ووڈ کونفرنس ( Bretton wood conference)  کے نتیجے میں 1944 میں وجود میں آئے ایک عالمی بینک اور دوسرا بین الاقوامی مالیاتی ادارہ    World bank and IMF)  (  ان اداروں کا وجہ وجود یہ تھا کہ یہ ان ممالک کی  مدد کریں جو کہ قرضوں اور زر مبادلہ کی کمی کا شکار ہوں۔ یہ ادارے بین الاقوامی قرضوں کو دراصل دیکھ بھال کرنے کے ادارے ہیں۔ ان اداروں کے بننے سے پہلے قرضے ممالک دیتے تھے خاص کر استعماری ممالک یہ قرضے اپنے استعمار کو برقرار رکھنے کے لیے قرضے فرہم کرتے تھے 1930 کی کساد بازاری اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میںامیر ممالک ایک تو قرضے دینے سے قاصر ہوگئے تھے اور دوسرے جنگ کے نتیجے میں تباہ شدہ ممالک کو تعمیرات کے لیے بڑے پیمانے پر  قرضے درکا ر تھے۔ عالمی بینک تعمیرات کے لیے قرضہ فرہم کرنے کا مجاز بنا جبکہ آئی ایم ایف زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی کو پوری کرنے کے ادارے بنے ۔ اس طرح ان دونوں ممالک نے انفردی ممالک کی جگہ لے لی اور کوئی قرضے بھی ان اداروں کی اجازت کے بغیر نہیں دیے جاتے ۔یہ ممالک جب ہی کسی ملک کو قرضے فراہم کرتے ہیں جبکہ

وہ ان کی شرائط پوری کریں۔ان میں خاص شرئط یہ ہیں

٭ مقروض ملک اپنی تجارت کو آزاد رکھے گا اور درآمدا ت پر سے پابندی ختم کردے گا۔

٭درآمدات میں بھی کسی ہوئی امداد (Tied aid)   کے تحت سستے داموں میں امداد دینے والے ممالک کو اشیاء فروخت کرنی ہوتی ہیں۔

٭ مقروض ملک  شرح مبادلہ ان اداروں کے ایما پر طے کرتے ہیںان کا سب سے بڑا مطالبہ ان ممالک کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ ا پنی کرنسی کو مسلسل ڈالر کے مقابلے میں کم (Devalued)کریں ۔

٭غریب ممالک اپنے کمزور سیکٹر کے فروغ کے لئے چھوٹ (Subsidy) فراہم کرتا ہے ۔ مگر ان اداروں کی شرط یہ ہوتی ہے کہ فوراً اس چھوٹ کو ختم کردیا جائے۔ضرورت کی اشیاء پر خاص کر یوٹیلٹی پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیا جائے۔ تاکہ یہ ممالک اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ سود کی ادئیگی پر خرچ کرسکیں۔

٭اس کے علاوہ موجودہ دور میں “پرگرام امداد(Programme aid)” اور اسٹرکچر ل ایڈجیسٹ مینٹ(Structural adjustment) کے تحت ان ممالک کو مکمل طور پر مغربی طرز کی ترقی (Development) کا پابند کیا جاتا ہے۔

٭مقروض ملک معاشی پالیسی میں ان اداروں کے پابند ہوں گے۔

جد ول 1-7                                   بر طانیہ میں ترسیل زر کی تفصیل

 source:  Bank of Englind Statistical Realeases  (Several)

            ان پالیسیوں اور ان قرضوں کے نتیجے میں زر کی تخلیق میں جو اثرات پڑتے ہیں ان کا اب ہم جائزہ لیتے ہیں ۔ان ادراروں کی امداد دینے کا مقصد یہ تھا کہ ان ممالک کی قرض کی ضرورت اس طرح پوری کی جائے کہ  یہ ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر نہ صرف قرضے واپس کر دیں بلکہ اپنی برآمدات کو بڑھاکر زر مبادلہ کی کمی کو پوراکرسکیں۔جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ ان کی شرائط ان کی بیان کردہ مقاصد سے بالکل  مختلف ہیں ۔ ان قرضوں کے نتیجے میںغریب ممالک خود کفیل ہونے کے بجائے اس نئے استعمار کے ایجنٹ اداروں کے محکوم ہوجاتے ہیں۔ان ممالک کی زری پالیسی ان کے تابع ہوجاتی ہے اور زر کی تخلیق میں ان کے قرضوں کا حصہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔یہ تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ اگر فرض کریں کہ  پاکستان کو سن 2000ء میں تجارتی  خسارہ چار بلین ڈالر کا تھا یہ کمی وہ اس طرح پورا کرے گا کہ اس کے پاس موجود زرمبادلہ سے ان چار بلین ڈالر کی ادائیگی کردیں۔ مگر مسلسل زرمبادلہ کی کمی سے ملک کو چند سالوں میں دیوالیہ کا  سامنا کرنا پڑے گا اور یہ غریب ممالک اس قابل نہ ہوں گے کہ یہ امیر ممالک کو سستی اشیاء  فروخت کرسکیں ۔ اس لیے فوراًآئی ایم ایف حرکت میں آتا ہے اور وہ پاکستان کو چار بلین ڈالر کا قرضہ فرہم کرتا ہے۔ یہ 4 بلین  ڈالر ایک نئی کرنسی کی صورت میں پاکستان کو دیے جاتے ہیں اسکو ایس ڈی آر (SDR) کہتے ہیں ایک ایس ڈی آر کی

مالیت کیا ہوتی ہے ؟   ایس  ڈی آر کی مالیت ہر دور میں مختلف رہی 1971  میں اسکی مالیت 1 ڈالر کے برابر تھی 1981میں اسکو کرنسی کی باسکٹ(Basket of currency)  سے منسلک کردیا  گیا یہ یو ایس ڈالر کا 42فیصد جرمن  مارکس کا 19فیصد فرنچ فرینک ، جاپانی ین اور یو کے اسٹرلینگ کا 13فیصد وزن کا  تھا(Robert 1996)۔

ایس ڈی آر در اصل رکن ممالک کی محفوضات پر مبنی کرنسی ہوتی ہے ۔ اب اسکا جو بھی وزن ہو اس کرنسی کی مد میں پاکستان کو اتنا قرض ملے گا۔وہ قرض اس طرح ملے گا کہ اتنی مالیت کی کرنسی پاکستان کے زر مبادلہ کا حصہ بن جاتی ہے اور اس کی مدد سے مرکزی بینک اتنی مالیت کے زر کو تخلوق کرتا ہے ۔اگر اس دور میں  1 ڈالر 50 روپے کر برابر ہو تو  20 بلین ایس ڈی آر  کی کرنسی تخلیق ہوگی۔اس کرنسی  کی تخلیق کے پیچھے دیگر ممالک کے قرضے ہی شامل ہوں گے۔بریٹن ووڈ سسٹم اور کینزین نظام کی ناکامی کے بعد دنیا بھر کے ممالک میں ایس ڈی آر اور سونے کے ذخائر  کا حصہ کم ہوتا جارہا ہے جیسا کہ جدول میں دیا گیا ہے ۔ مرکزی بینک میں دنیا کے کسی بھی ملک کی ذمہ داریوں میں زیادہ حصہ ملکی قرضوں کا اور غیر ملکی زخائر کا ہوتا ہے۔

            بیرونی قرضے چاہے وہ پیرس کلب سے ہوں یا لندن کلب سے ہوںوہ زرِ مبادلہ کا حصہ بن کر اتنی مقدار میں زر کو تخلیق کرتے ہیں۔ مگر یہ تخلیق زر مشروط ہوتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ان مقروض ممالک کی پالیسی میں خود مختاری قائم نہیں رہتی ۔جن مقاصد کے لیے قرضے دیے جاتے ہیںوہ مقاصد تو پورے نہیںہوتے اس طرح یہ ممالک مزید قرضوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایس ڈی آر کا حصہ زرِ  مبادلہ کے زخائر میں کم ہوتا جارہا ہے۔بہر کیف یہ قرضے زر کی تشکیل کرتے ہیں ۔

سونے کے ذخائر اور تخلیق زر:

            سونے کے ذخائر سے تخلیق زر جیسا کہ جدول 1.7  میں دیا گیا ہے 1965کے بعد سے بہت تیزی

سے کم ہورہا ہے ۔سونے کا معیار مکمل طور پر سرمایہ دارنہ ممالک میں رو بہ عمل رہا اس کا دورانیہ 1880 سے 1914پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ   سلسللہ ختم ہوگیا اوردوبارہ 1925 سے 1931 تک رہا ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد بریٹن ووڈ سسٹم (Brettion wood system)  یا آئی ایم ایف سسٹم کارفرما رہا جس میں سونے کی جگہ جو بین الاقوامی کرنسی متعارف کرائی گئی اس کا نام ایس ڈی آر (SDR) تھا یہ دور1946سے 1973کے لگ بھگ جاری رہا۔ اس کے بعد سے آج تک کا دور بریٹن ووڈ سسٹم (Brettion wood system)  یا آئی ایم ایف سسٹم  (IMF System)کے ناکام ہونے کے بعد کا نیو کلاسیکل دور ہے۔ جس میں کرنسی کی پیچھے نہ ہی سونا ہے اور نہ ہی اور بین الاقوامی اعتبار  اس دور میں مالیاتی نظام جیسا کہ نیوکلاسیکل ماڈل میں دیکھا کہ وہ آزاد ہوتا ہے اس طرح اس دور میں زر بھی آزاد ہوگا اس کے پیچھے کوئی اعتبار نہیں ہوتا ماسوائے قرضے کے وہ بھی ملکی قرضہ۔ جیسا کہ جدول 1-7میں دیکھا ہے کہ 1970کے بعد سے ایس ڈی آر اور سونے کے ذخائر یکساں رہے اس لیے محفوظات میں ان کا حصہ گرتا جارہا ہے۔سونے کے ذخائر جن کی بنیاد پر مکمل کرنسی کی تخلیق ہوتی تھی یہ دور سونے کی بولین(Gold Bullion) دور کہلاتاہے ۔ 1819-21برطانیہ صرف واحد ملک تھا جہاں پر مکمل سونے کا معیار قائم تھا۔ مگر 1880کے بعد زیادہ تر صنعتی ممالک میں بھی قائم ہوگیا۔یہ نظام لگ بھگ 35سال تک جاری رہا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اس میں تعطل آیا۔سونے کے اس معیار کا 35 سالوں تک قائم رہنے کی وجہ جو کہ آرگے(Argy 1981)  دیتاہے کہ برطانیہ کی مضبوط معیشت اور اسکی کرنسی کا مضبوط ہونا ہے ۔ اس دوران برطانیہ کو ہر سال جاری کھاتوں میں زیادتی (Surplus)  حاصل ہوتا ہے۔سونے کا معیار قائم رہنے کی اصل وجہ یہ ہے کی فائنینشل مارکیٹ(financial market) اتنی مستحکم نہ تھی ، مرکزی بینک پر برطانوی استعمار کی گرفت مضبوط تھی اور  قرضوں کا لین دین کم تھا ۔ خود برطانیہ کی معیشت کو خسارہ کا سامنا  نہ تھاجس کی وجہ سے اسکو نہ ہی اندرونی قرضوں کی ضرورت تھی اور نہ ہی بیرونی قرضوں کا بوجھ تھا۔ سرمایہ داری کے اس ابتدائی دور میں کاغذی کرنسی کو سونے سے مکمل طور پر منسلک کردیا گیا ۔ بعد کے دور میں خاص کر پہلی جنگ عظم کے بعد جب برطانیہ کی معیشت میں کمزوری آئی ، تجارت میں خسارہ ہوا ، فائنینشل خدمات لندن سے

نیویارک منتقل ہوگئی ،سونے کے ذخائر برطانیہ میں کم ہوگئے اور امریکہ اور فرانس میں بڑھ گئے۔ اس کے علاوہ  پہلی جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کی ساخت تبدیل ہوگئی یورپ  میں بیروزگاری بڑھ گئی، اجرتیں اورقیمتیںغیر متبدل (Rigid) ہوگئیں۔اس لیے  یہ سمجھا جانے لگا کہ  سونے کا معیا ر قیمتوں اور اجرتوں پر اثر انداز ہونے کے بجائے روزگار پر اثر انداز ہوگا۔جیسا کہ کینزین  معیشت میں دیکھا کہ وہ بھی اس بات کا حامی تھا کہ زر غیر جانبدار ہے اور اس کی تبدیلی سے پیداوار اور بیروزگاری پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مالی نظام میں تبدیلی آگئی اور 1925 کے بعد تخمینہ گوئی(Speculation) کا رجحان بڑھ گیا اور محفوظات میں شرح مبادلہ کا حصہ بڑھ گیا۔1930کی کساد بازاری نے تو یورپ کی اقتصادی قوت کو کمزور کردیا ۔ برطانیہ کا استعماری رعب ختم ہونے سے اس کی  بیرونی انویسٹمینٹ کم ہوگئی۔اسٹریلیا اور جرمنی میں بینکوںکے بحران (crisis)نے حالات اورخراب کردیے حتیٰ کہ برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ اور پورے یورپ نے سونے کے معیار سے برأت کا اعلان کردیا اور 1930 کے بعد اس دور کا اختتام ہوا۔

            دوسری جنگ عظیم کے بعد سونے کے معیار کا مکمل خاتمہ برطانیہ کی معیشت کے زوال کے ساتھ ہوا۔ اس دور کے بعد امریکہ کے عروج کا دور شروع ہوا اور بریٹن ووڈ کانفرنس کے نتیجے میں دنیا بھر میں کرنسیاں سونے سے آزاد ہوکر زر مبادلہ کے ذخائر سے منسلک ہو گئیں ۔زرے مبادلہ میں جس قدر نے سونے کی جگہ لی وہ اس ملک کی کرنسی تھی جو سب سے زیادہ مستحکم اور سرمایہ داری کی محافظ ریاست تھی یعنی امریکہ کی کرنسی ڈالر ۔ ڈالر کے معیار کو ہی سونے کی جگہ معیار تصور کیا گیا ۔ مگر اس ڈالر کے پیچھے سونے کو ہی 1960کی دھائی تک معیار تصور کیا گیا ۔امریکہ جس میں پوری دنیا کے سونے کے ذخائر کا 60 فیصد ذخیرہ تھا ۔ 1946سے 1949تک امریکہ کو تجارت میں اور توازن ادائیگی میں اضافہ(surplus)حاصل رہا اس کے بعد اس کے توازن ادئیگی میں خسارہ ، اور سونے کے ذخائر میں  کمی د یکھنے میں آئی جیسا کہ جدول  1-9  میں دیا گیا ہے کہ امریکہ کے ذخائر کم ہو نے کے باوجود اسکی کرنسی میں استحکا م رہا ۔اسی کی ہی کرنسی بین الاقوامی کرنسی کے طور پر رائج رہی۔1958تک اس امریکہ کے سونے کے ذخائر میں کمی آنی شروع ہوئی مگر پھر بھی اس وقت تک اس کے پاس اتنے ذخائر تھے کہ وہ ڈالر کے بدلے میں سونے

سے تبادلہ کر سکتا تھا ۔1960کی دھائی میں امریکی معیشت میں کساد بازاری  رہی اور اس کے خسارے میں مزید اضا فہ ہوتا گیا ۔ جس کی وجہ ئی ہوئی کہ سونے کے ذخائر میں کمی آنے لگی۔ڈالر اور سونے کا تعلق کمزور پڑنے لگا۔ اس کے علاوہ یورپی مملک کی معیشت میں استحکا م آنے لگا اور یو ایس کے مقابلہ  میں یورپ کی اجتما عیت قائم ہونے لگی اور 1957میں روم کا سمجھو تہ (Treaty of Rome) طے پایا۔اس دور میں آئی ایم ایف نے اپنی گرفت کچھ مضبوط کرنی شروع کردی اور اس بات پر بات ہونے لگی کہ ڈالر کی جگہ کسی اور بین الاقوامی کرنسی کا اجراء کیا جائے۔1967 میں محفوظات کومستحکم کرنے کے لیے ایک نئے بین الاقوامی محفوظات کو متعارف کرویا گیا جس کا نام ایس ڈی آر(SDR) ۔ایس ڈی آر(SDR)کیا ہے ؟ یہ وہ محفوظات ہے جس کے پیچھے کوئی چیز نہیں ہے۔ بس یہ آئی ایم ایف (IMF) کھاتے میں موجود نمبرز کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔

1973  میں کل ذخائر  152.2 بلین میں ایس ڈی آر 8.8  بلین رہے اس کے بعد کل ذخائر کا حجم بڑھتا رہا مگر  ایس ڈی آر کا حجم لگ بھگ اتنا ہی رہا۔ایس ڈی آر کی ناکامی کے بعد سے برٹن ووڈ سسٹم کا خاتمہ ہوا ۔ اسی دوران ڈالر کا مسئلہ اور پیچیدہ ہوگیا اور مئی 1971 میں ڈالر اس قابل نہ رہا کہ وہ ڈالر کے بدلے سونے کی ادائیگی کرسکے۔اس لیے اس دور میں امریکہ نے سونے سے تبادلہ مکمل ختم کردیا اور اسی کے ساتھ زرِمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر کے علاوہ دیگر  کر نسی کی باسکٹ(Basket of currencies)   کو بھی شامل کردیا گیا۔ اس دور کے بعد کرنسی پر سے ہر قسم کے معیاریات کا خاتمہ ہوگیا اور کرنسی کے پیچھے صرف قرضے ہی ہوگئے جس کی تفصیل یوں ہے۔

اندرو نی قرضے اور تخلیق زر:

            حکومت اپنے  بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے اندرونی قرضہ لیتی ہے ۔ یہ قرضہ وہ مرکزی بینک کی وساطت سے بھی لیتی ہے اس عمل کو کھلی مارکیٹ میں تمسکات کی خرید و فروخت (OMO)کہتے ہیں۔یہ قرضے جب حکومت لیتی ہے تو وہ اس کے عوض تمسکات کی خرید و فروخت کرتی ہے۔ جب مرکزی بینک تمسکا ت کو فروخت کرتی ہے تو اتنے مقدار کے اثاثے مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ میں آجائیں گے۔ ان اثاثوں کے عوض وہ اتنے مقدار کا زر تخلیق کردے گا۔اگر فرض کریں سن 2005ء  میں پاکستان کو 100بلین روپے قرضے کے طور پر چاہئے تھے۔جو کہ وہ اتنی مالیت تمسکات کو چھاپ کر پورا کرے گا ۔ یہ 100بلین حکومت عوام سے قرض کے طور پر لے گی اس طرح یہ  100بلین روپے کی مقروض کرنسی ترسیل کی جائے گی اور مرکزی بینک اندرونی قرضے کے ذریعہ بھی کرنسی کا اجراء کرے گا۔اس سودی قرضے کے ذریعہ وہ ہی ہوتا ہے جوکہ بیرونی قرضے میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس کا سلسلہ ایک دفعہ شروع ہوجائے تو پھر بند نہیں ہوتا۔ اگر ہم دیگر مغربی مملک کی مثال دیکھیں تو 1960 میں برطانیہ کا ملکی قرضہ 26 بلین پونڈ تھا، جوکہ 1980میں بڑھ کر 90بلین پونڈ ہوگیااور 1995 میں یہ 380بلین پونڈ ہوگیا،اگلے بیس پچیس سالوں میں ٹریلین پونڈز تک پہنچ جائے گا۔ اگر امریکی ملکی قرضے کا جائزہ لیں تو  1960میں یہ 240 بلین ڈالر ، 1997میں 5000بلین ڈالر اور 1997میں 5ٹریلین ڈالر تک ہوگیا ہے اور اس میں ہر سال کئی گناہ اضافہ ہی متوقع ہے(Robert 1997)۔ان ترقی یافتہ مملک کی معاشی صورتحال یہ ہے کی ان کا ملکی قرضہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ بڑھتا ہی رہے گا  اس کی وجہ  سرمایہ دارنہ عقلیت ہے ۔ان مقروض ممالک کا قرضہ اس لیے بڑھتا ہے کہ برطانیہ جس کا بجٹ خسارہ 1997 میں 10 بلین  پونڈ تھا اب اس کو  اس قرضے کو پورا کرنے کے لیے وہ یا تو ٹیکس لگائے گا یا پھر اپنے اخرجات میں کمی کرے گا مگران دونوں کے معاشی نقصانات بہت ہیں ۔ جس کا متحمل برطانیہ نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ وہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید اندرونی قرضے لے۔ اس لیے اسے اس سال کے 10  بلین کے قرضے اور پچھلے سالوں کی ہنڈیاں ، کفالیتیں اور دیگر تمسکات جو کہ اس سال قابل ادائیگی ہو گئی ہیں ان کی ادائیگی اور ان پر سود کی ادائیگی یہ سب کچھ کہا ںسے آئے

گا ۔ بینک نے یہ رقم حکومت کو دی حکومت نے یہ رقم کسی منافع بخش کام میں تو نہیں لگائی اس لیے اس رقم کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے چاہے  وہ امیر ملک ہو کہ غریب ملک ہو وہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں قرضوںپر ہی اکتفاکرے گا اور زیادہ قرضہ اندرونی ہی ہوگاکہ اس کا حصول ایک توآسان ہوتا ہے دوسرا بیرونی قرضے کی بہ نسبت کسی بھی شرائط سے پاک بھی ہوتا ہے۔حکومت جو قرضہ لے گی اتنی کرنسی ہرسال مرکزی بینک اجراء کرے گا ۔جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ یہ قرضہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لیے اس کا حصہ کرنسی کی تخلیق میں بڑھتا ہی رہے گا۔جیسا کہ جدول 1-7میں دیا گیا ہے کہ قرضوں کا حصہ کرنسی کے اجراء میں 96.4فیصد ہے۔ 1997میں 680بلین پونڈ کی کرنسی تخلیق کی گئی اسی سال اندرونی قرضہ 380بلین پونڈ ہے اس طرح کرنسی میں اندرنی قرضے کا حصہ56فیصد ہے۔پاکستا ن میں 1997میں اندرونی قرضے کا حصہ 75 فیصد ہے(Heidegger 1977)۔ یہ وہ وجہ ہے جس کے سبب کرنسی کے اجراء میں اندرونی قرضوں کا حصہ بڑھ رہا ہے۔

   

اند ونی قرضوں کے ذریعہ جب بھی کرنسی تخلیق کی جاتی ہے تو اسکا  کچھ حصہ تخلیق زر کرتا ہے یعنی نئی کرنسی تخلیق کرتا ہے یا پھر پرانی کرنسی کی گردش میں اضافہ کرتا ہے۔  تخلیق زر اور ترسیل زر میں فرق یہ ہے کہ اگر مقامی قرضہ کو پینشن (Pension) فنڈ ، انشورنس کمپنی(Insurance Company)، یا نجی فرد (Private person) خریدیں تو پہلے سے موجود اثاثے گردش میں آجائیں گے اور زر کی ترسیل میں اضافہ ہوگا۔ اگر اس کے برخلاف مقامی قرض  بینک یا دیگر مالی ادارے خریدیں تو نئے زر کی تخلیق ہوگی۔مرکزی بینک دو طرح سے زر کی تخلیق کرتا ہے ایک اوّل الذکر طریقے میں بینک پہلے سے موجوداثاثوں کی مدد سے زر کو تخلیق کرتا ہے یعنی وہ دراصل زر کی ترسیل کرتا ہے اور یہ کا م وہ اسی طرح کرتا ہے جیسا کہ کمرشل بینک پہلے سے موجود کھاتوں کی مدد سے تخلیق زر کرتا ہے۔  اس کے برخلاف کمرشل بینک کی تمسکات کو  فروخت کے نتیجے  میں نئی کرنسی تخلیق ہوتی ہے۔  تمسکات جب دیگر کمرشل بینک خریدتے ہیں تو اس کے نتیجے جو ادائیگی یہ بینک کرتے ہیں وہ چیک کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں کسی بھی کھاتے دار کے کھاتے میں کوئی کمی نہیں ہوتی یعنی اس کی قرض دینے کی صلاحیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ادائیگیاں جب مرکزی بینک کے اثاثوں میں آجاتے ہیں یہاں سے وہ حکومت کو اخراجات کے لیے ادائیگی کر دیتا ہے ۔ حکومت جب اس سے ادائیگیاں کرتی ہے تو یہ رقم پھر واپس بینکوںمیں آجاتا ہے۔بینک ان کھاتوں کی بنیا د پر مزید قرضے دے کر مزید کرنسی تخلیق کرسکتا ہے۔مرکزی بینک  بینکوں اور دیگر مالی اداروں کو قرضے دے کر براہ راست زر کو تخلیق کرتا ہے۔ جبکہ کمرشل بینک اور دیگر مالی ادارے بلاواسطہ زر تخلیق کرتے ہیں۔جتنا زیادہ مالی نظام مستحکم ہوگا اور ادائیگیوں کے لیے بینک کو واسطے کے طور پر استعمال کیا جائے گا اتنا ہی کمرشل بینک زیادہ زر تخلیق کرے

گا ۔ وہ ممالک جن کا  مالی نظام زیادہ مستحکم نہیں ہوتا وہاں پر زر کی تخلیق کا زیادہ حصہ مرکزی بینک کے سرہوتا ہے ان ممالک میں M1/M4 کا تناسب زیادہ ہوگا  اس کے برخلاف ان ممالک کا جہاں  مالی نظام بہت مستحکم ہو وہاں M1/M4  کا تناسب کم ہوگا۔ جیسا کہ جدول 1-7  میں دیا گیا ہے کہ 1963برطانیہ میں کل تخلیق زر میں کرنسی اور سکوںکا حصہ 21فیصد تھا اور صرف تیس سالوںکے عرصے میں اسکا حصہ4فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے اور مسلسل کم ہورہا  ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زر کی ترسیل  جو کہ مارکیٹ میں پائی جاتی ہے اس میں کرنسی اور نوٹوں کی صورت میں صرف 3  سے 4 فیصد  زر ہوتا ہے  اور بینکوں اور کمپنیوں کے اکاؤٹس میں  اعداد کی صورت میں 90 فیصد سے زائد کرنسی ہوتی ہے۔ یہ  حال صرف برطانیہ کا نہیں ہے بلکہ ہر سرمایہ دارانہ ملک کا حال یہ ہی ہے۔90  فیصد سے زائد زر صرف مالی اداروں کے کمپوٹر میں موجود ہے ۔ اور یہ زر وہ جتنا چاہیں بڑھاسکتے ہیں۔ یہ تو تھا تخلیق زر کا طریقہ کار اب ہم مرکزی بینک کے دیگر خدمات اور وظائف کا جائزہ لیں گے۔

1۔حکومتی بینک:

مرکزی بینک کا  ایک اور اہم وظیفہ یہ ہے کہ وہ حکومت کا مشیر ہوتا ہے۔حکومت جب بھی زر پالیسی کوچلاتی ہے تو اس میں کلیدی کردار مرکزی بینک ہی ادا کرتا ہے۔ اس بات کو ہم مفصل طور پر زر ی پالیسی کے باب میں ملاخطہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کیلئے بھی حکومت ٹریثری بل اور بونڈ کا اجراء کرتا ہے جو کہ مرکزی بینک کی وساطت سے ہی عمل پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح حکومت کیلئے مرکزی بینک ایک ایجنٹ کا کردارادا کرتا ہے۔مرکزی بینک اس سرمایہ دارانہ نظام میں وہ بینک ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کیلئے کام نہیں کرتا اس لئے یہ ایسے افعال حکومت کیلئے انجام دیتا ہے جو کوئی دوسرا ادارہ ادا نہیںکرسکتا۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ مرکزی بینک حکومت کا آلہ کار ہو۔نہ صرف زری  پالیسی کا اجراء کرتا ہے بلکہ حکومت کے ایما پر زر کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ جس کو ہم تفصیل سے آگے دیکھیں گے۔ اس کے علاوہ ملکی کرنسی کا دیگر ممالک کی کرنسیوں سے شرح مبادلہ بھی طے کرتا ہے۔زر مبادلہ کے ذخائر بھی مرکزی بینک کے ذریعہ ہی وصول کیے جاتے ہیں۔اور یہیں سے ہی زر مبادلہ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ مرکزی بینک کے کردار میں تبدیلی وقت اور نظریات کی تبدیلی کے ساتھ آتی رہتی ہے۔ آزاد معیشت کے دور میں جب مرکزی بینک کی آزادی کی بات ہوتی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی مرکزی بینک اپنے ملک کے مفادات سے بالا ہو کر کس طرح زر پالیسی بنائے گا۔ ظاہری سی بات ہے وہ ملکی سطح سے اٹھ کر عالمی سطح پر کسی عالمی ریاست کا تابع ہوگا یا عالمی مالی اداروں کا تابع ہوگا۔ اسی لیے اسکے تابع ہوکرملک کے  مالی نظام کو چلائے گا۔

2۔بینکوں کا بینک:

کھاتہ دار بینکوں اور مرکزی بینک کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔  کھاتہ دار بینک اپنے منافع کے زیادہ سے زیادہ حصول کیلئے اس بات پر کوشاں ہوتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرضہ دیں زیادہ سے زیادہ سود لیں ۔  اس کے علاوہ یہ بینک آپس میں منسلک  بھی ہوتے ہیں کہ ایک بینک سے جاری کردہ چیک دوسرے بینک میں قابل قبول ہوتا ہے کہ نہیں۔ ایک بینک دوسرے بینک سے اپنے فنڈ میںکمی کو پورا کرنے کیے لیے قرضہ لیتا ہے اور زائد فنڈ کو دوسرے بینکوں کو بطور قرضہ فرہم کرتاہے۔ایک شخص جو اپنی جمع پونجی ایک بینک میں جمع کرواتا ہے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے اس کو اس کی رقم وقت ضرورت حاصل ہوجائے۔ اس لئے باہم

بینکوں کے نظام کو مربوط رکھنے کیلئے کھاتہ داروںکا اعتماد بحال  رکھنے کیلئے ، حکومتی زری پالیسی کے احیاء کیلئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو کہ وہ بینکوں کو صحیح خطوط پر رواں رکھے ان میں کمی ہونے والے فنڈ کو پورا کرے۔جس طرح بغیر حکومت کے معیشت نہیں چل سکتی اسی طرح بغیر مرکزی بینک کے دیگر بینک نہیں چل سکتے۔مرکزی بینک دیگر بینکوں کیلئے جو ذمہ داری ادا کرتا ہے اس میں سب سے اہم فریضہ ان بینکوں کی مصیبتیا زیادہ کرتے ہیں۔سرمایہ داری کے اس دور میں دیگر کاپوریشن کی طرح بینک بھی ملکی نہیںرہے ۔ بین الاقوامی بینک کا حا ل یہ ہوتا ہے کہ وہ  معیشت میں اس کے اچھے وقت میں آتے ہیں اور جب بھی اس ملک کی معیشت زبو ںحالی کا شکار ہوتی ہے تو یہ بینک اس وقت قرضوں کی فراہمی بند کرکے اس ملک کو چھوڑ کر اس طرف حرکت کرتے ہیں جہاں سرمایہ محفوظ اور منافع زیادہ ہو ۔اس طرح اس ملک کی معشت کو اور مشکلات میں پھنسا دیتے

ہیں۔جیسا کہ 1999 میں پانچ ایشیائی ممالک تھائی لینڈ ، ملیشیا ، ساؤتھ کوریا ، انڈونیشیا، فلپائن میں ہوا کہ ان مملک میں سرمایہ داری کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی بینکوںکا جال بچھا دیا گیا جب اس دور میں ان مملک میں معیشت کساد بازاری کا شکار ہوئی تو ان مملک کے غیر ملکی بینک سرمایہ لے کر اس ملک کو چھوڑ گیے۔ جس کے سبب ان مملک کی معاشی صورتحا ل اور ابتر ہوگئی اور وہ اس سے سنبھل نہ سکے۔یہ بات موجودہ بینکوں کے نظام سے عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اب حکومتوں اور مرکزی بینک کا زری پالیسی میں عمل دخل ختم ہوتا جارہا ہے۔ ملکی مفادات اور معاشی صورتحال کے مطابق زری پالیسی کی عمل پزیری باقی نہیںرہی ۔

اس باب میں ہم سب سے پہلے اسلامی معیشت دانوں کے ان تجزیات کا جائزہ لیں گے جو انہوں نے نظریہ زر (Monetary Policy)کمرشل اور مرکزی اور دیگر مالیاتی اداروں کے کردار کے متعلق پیش کئے اور آخر میں اسلامی معیشت دانوں کے درج بالا نظریات کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔

کمرشل بینک سے متعلق اسلامی معیشت دانوں کے نظریات

اس حصہ میں ہم دیکھیں گے کہ اسلامی کمرشل بینک جن کو ہم آسانی کے لئے کھاتہ دار بینک بھی کہہ سکتے ہیں ان کی بیلنس شیٹ (Balance Sheet)کس طرح ہوگی یعنی اثاثوں (Asset) اور ذمّہ داریوں (Liabilities) کی نوعیت کیا ہوگی۔ اسلامی بینک دیگر کمرشل بینک کی طرح چونکہ وہ  ہی دو فرائض انجام دیتے ہیں یعنی اول یہ کہ مالی وسائل کو کس طرح پورا کرتے ہیں یا یوں کہیں جو کس مد میں عوام الناس اور کمپنیوں کی بچتوں کو جمع کرتے ہیں دوسرا یہ اسلامی کھاتہ دار بینک کس طرح ان وسائل کا استعمال کریں تاکہ عوام الناس کی بچتوں پر کچھ منافع بھی حاصل ہوسکے۔

اگر ہم کمرشل بینک کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو اثاثوں (Assets)اور محفو ظات(Reserves) کیسے رکھتا ہے، بینکوں  کے ما بین کس طرح قرضوں کا تبادلہ (Inrter Bank Borrowing)کرتا ہے اور کھاتے دار بینک قرضہ اور سرمایہ کاری اپنے کاروباری فریق اور صارفین کوکس طرح فراہم کرتا ہے۔ آب دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی بینکاری اثاثوں کی بابت کیا اقدام اختیار کرتی ہے اور کس طرح ان اثاثوں کو پیدا کرتی ہے اسکے علاوہ ذمّہ داریوں(Liabilities)یعنی کھاتہ داروں سے کن بنیادوں پر سرمایہ حاصل کرتی ہے۔ اس سب کے جئزہ سے پہلے  ہم اسلامی بینکوں کے قیام کے  تاریخی پس منظرکا جائزہ لیتے ہیں۔

اسلامی بینکوں کے قیام کا تاریخی پس منظر:

اسلامی بینکاری کی ابتداء دراصل 1971 الناصر سوشل بینک کے قیام کے ساتھ ہوئی۔ اسلامی جدید بینکاری کے بانیوں میں پرنس الفیصل کا فیصل اسلامی  بینک مصر شمار کیا جاتا ہے جس کی بنیاد 1979میں رکھی گئی۔  مگر اس سے پہلے ملیشیا ااور  مصر میں دو اسلامی تمویلی اداروں کا قیام عمل میں آچکا تھا،ملیشیا کا تبونگ حاجی اور مصر کا مت غمر  ۔1950    اور 1960 کی دھائی میں اسلامی معاشی نظام کی سوچ پیدا ہوئی۔اور اسکو  عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی ادارے قائم کرنے کی کوشش ہوئیں ، جن میں سے دو جن کے بارے میں کچھ لکھا گیا ہے وہ ملیشیا کا تبونگ حاجی اور مصر کا مت غمر  تمویلی ادارے ہیں(Henry 2005),،(غازی ١٩٨٧)،(اوصاف ١٩٩٦)  ۔

اسلامی بنکاری نے جس موڈل (Model)سے پزیرائی حاصل کی وہ مصر ایک دیہی تمویلی ادارے مت غمر تھا جو کہ ١٩٦٣ء  سے ١٩٦٦ء تک قائم رہا۔ جس کے روح رواں احمد النجار تھے۔ مت غمر بینک کا قیام کیوںعمل میں آیا تو اس بات کو سمجھنا ضروری ہے؟  اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مت غمرجو کہ مصر کا ایک دور افتادہ دہی علاقہ تھا جہاں پر راسخ العقیدہ مسلمان سودی بینکاری سے کسی بھی قسم کا تعلق روا نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ ان راسخ العقیدہ مسلمانوں کی آمدنی کا ایک معتدد بہ حصہ فوری ضروریات پر خرچ نہیں ہوتاتھا بلکہ سماجی تقریبات اور ناگہانی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے مختص کردیا جاتاتھا۔ ان کی بچت زراعت اور دیگر سرمایہ کاری کے لئے معاون ثابت نہیں ہوتی تھیں۔ اس لئے ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو آبادی کے بڑے حصے کو مذہبی اصولوں پر سرمایہ فراہم کرسکے۔  اس کی ابتداء  جرمنی کے بچت بینک سے اخز  کی گئی تھی۔ اور اس کا ابتدائی سرمایہ بھی جرمنی نے فراہم کیا تھا  (Henry 2005),(DM 780,000 ) ۔ یہ ادارہ عام مسلمانوں کی بچت کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا مگر اپنی ساخت میں اسلامی کبھی نہ رہا۔اس نے جو ساخت اختیار کی وہ تو سودی بینکوں کی طرح تھی بس اس میں اسلامی تمویلی آلات کو بطور نام استعمال کیا ۔

اس بینک میںتین قسم کے کھاتہ کھولے گئے (١)بچت کھاتے (٢)سرمایہ کاری کھاتے اور(٣)  زکوٰة کھاتے۔ بچت کھاتوں میں کسی بھی قسم کا نفع نقصان نہیں دیا جاتاتھا بلکہ یہ جاری کھاتوں (Current Account) کی طرح عمل کرتے تھے کہ اس میں جمع رقم کو عندالطلب نکال لینے کا اختیار تھا۔ البتہ پبلک کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اس میں موجود جمع کو چھوٹے کم مدتی، غیر سودی قرضوں میں لگاسکے۔

سرمایہ کاری کھاتوں میں نفع ونقصان کے تحت شراکت کی جاتی تھی، اس میں موجود جمع کو خاص مدت کے بعد نکالا جاتاتھا۔ اس کی مذید تفصیل آگے آئے گی۔ اس کے علاوہ زکواة کھاتے میں وہ رقم وصول کی جاتی تھیں جس کو زکوٰة کے لئے مخصوص کردیاگیاہو اور ادا کنندہ گان غرباء اور مستحقین میں اس رقم کی تقسیم بینک کے ذریعہ کرانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ اس کے متعلق رپوٹوں سے پتہ چلتاہے کہ اس بینک کا خاص تعلق مصر کے دیگر بینکوں اور مرکزی بینک سے نہ تھا بلکہ یہ اس علاقہ کے لئے مخصوص تھا۔ اس بینک کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ دیگر اسلامی جدید بینکوں کے برخلاف یہ کم آمدنی اور چھوٹے قرضوں پر انحصار کرتاتھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا قیام شہری علاقوں کی جگہ دہی علاقوں پر رکھاگیاتھا۔ اس بینک کا دھندگی (Recovery rate) بہت اچھا رہا اور یہ پروجیکٹ توقع کے برخلاف بہت کامیاب رہا۔ بچت کھاتوں میں جس پر کوئی منافع نہیں تھا اس میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی اس کھاتے ہیں ١٩٦٣ سے ١٩٦٦ تک رقوم ٢٥ہزار مصری پونڈ سے بڑھ کر ایک لاکھ ٢٥ ہزار مصری پونڈ تک پہنچ گئی ۔جو کہ اسلامی معیشت دانوں کی اس تشویش کا جواب ہے کہ لوگ اگر بغیر کسی نفع کے کیونکر اپنی جمع رکھوائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں معاشرہ اسلامی معاشرہ تھا جہاں سرمایہ دارنہ عقلیت حرص وحسد ناپید تھی اس لئے وہ افراد اپنی رقوم کو محفوظ رکھنے کے لئے یا مستقبل میں بچتوں کو جمع رکھنے کے لئے اپنی رقوم بینک میں جمع کرواتے تھے۔مصر میں سرمایہ دارنہ معیشت کے علرّ غم کام کرنے والے اس بینک کو تین سال بعد بندکردیاگیا۔

دوسرا بڑا پروجیکٹ جو کہ جدید اسلامی بنکاری کے برخلاف ایک اسلامی ارکان کی بجاآوری کے لئے شروع کیا گیا یہ بھی عام آدمی کے لئے چھوٹے پیمانے کا پروجیکٹ تھا جوکہ ملیشیاء میں حاجیوں کو حج کے لئے بچت پر منحصر تھا۔ تبونگ حاجی ایک ایسا مالیاتی ادارہ جو حاجیوں سے حاصل کی گئی بچتوں سے اسلامی طریقہ تمویل (Islamic Mode of Financing)کے تحت سرمایہ کاری کرتاتھا۔

ایک مالیاتی ادارے کے طور پر تبونگ حاجی کے مقاصد درج ذیل ہیں۔

٭          مسلمانوں کو ایسے مواقع بہم پہنانا کہ وہ حج کے اخراجات یا اپنے دوسرے نفع بخش مقاصد کے لئے بچت کرسکیں۔

٭          مسلمانوں کی ایسے مواقع فراہم کرنا کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی  بچت کی سرمایہ کاری کرسکیں۔

٭          حج کے سفر کے دوران تبونگ حاجی کی مختلف سہولیات کے ذریعہ مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کے لئے خدمات کی فراہمی۔

ان مقاصد کے حصول کے لئے بورڈ کو ایسے اختیارات دے گئے تھے جن کے تحت وہ اپنی شاخیں یا دوسری ایجنسیوں مثلاً ڈاکخانہ کے ذریعہ بچتیں اکھٹی کرسکیں۔

تبونگ حاجی ادارہ دراصل ایک بچت اور سرمایہ کاری ادارے (Saving & Investment Organization) کے طور پر کام کرتاہے۔ اس ادارے کے اعمال کی بنیاد مطلق وکالت (Absolute Power of Attomey) کے اصول پر رکھی گئی ہے۔ جس کے تحت کھاتہ دار تبونگ حاجی کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان کی جمع کو مختلف طریقوں سے استعمال کرسکتے ہیں۔

حج کے خواہش مند حضرات کی تنخواہوں سے تبونگ حاجی رقوم براہ راست وضع کرلیتاہے۔ فنڈ میں جمع رقوم کو ان کے منافع کے ساتھ ساتھ چھ ماہ بعد میں واپس کردیتاہے۔ مگر وہ لوگ جو کسی سال میں حج پر جانے کے لئے رجسٹریشن کرالیتے ہیں ان کو اس سال رقم نکالنے کا اختیار نہیں دیاجاتاہے۔

تبونگ حاجی کے طریقہ تمویل میں کھاتوں میں رکھی ہوئی اس جمع کو کاروبار میں لگانا کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ مضاربت ،مشارکت اورا جارہ ہیں۔ تبونگ حاجی کی سرمایہ کاری کی چار خاص صورتیں ہیں:

١۔تجارتی حصص             ٢۔ ذیلی کمٹیوں                 ٣۔ اراضی وعمارات                      ٤۔ کم مدّتی سرمایہ کاری

تبونگ حاجی کو شریعت کے مطابق پرکھنے کے لئے ملائشیاء کی قومی فتاویٰ کمیٹی سے استفادہ کیا جاتاتھا مگر بینک اسلام ملیشیا کے قیام کے بعد اس بینک سے متعلقہ شریعت بورڈ سے مشورہ کیا جاتاہے۔منافع میں اس ادارہ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بینک کل آمدنی میں سے اخراجات عمل (Operating Expeses) نکال کر ادر زکوٰة کی کٹوتی کرکے  بقیہ نفع کھاتہ داروں کی درمیان تقسیم کردیتی ہے۔یہ ادارہ بھی بچتوں کے لحاظ سے کافی کامیاب پروجیکٹ ثابت ہوا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا طریقہ عمل عام سودی بینکوں سے کافی حد تک مختلف ہے گو کہ اس میں بھی قباحتیں ہیں مگر یہ بھی ملیشیاء سرکار کی اچھی کاوش ہے ۔

ان چند کامیاب اسلامی طریقہ تمویل ، جو کہ عام رائج بینکوں سے مختلف تھے ، کا  مختصرجائزہ  پیش کیا گیاآیئے اب دیکھتے ہیں کہ اسلامی جید بینکوں کا قیام کہاں سے شروع ہوا۔

1950ء کی دہائی سے اسلامی معیشت کاسفر شروع ہوتھا جس کے روح رواں شیخ محموداحمد ، انور اقبال، شیخ نجات اﷲ صدیقی اور عزیر امجدوغیرہ تھے۔ اس نظام کی بنیادیں شاہ فیصل نے سعودی عرب میں مستحکم کیں اور ناصر نے مصر میں ۔ سعودی فنڈ کی بنیاد پر اس پر تحقیقات پاکستان میں موجود آئی ایم  ایف اور  ورلڈبینک سے برآمد شدہ معیشت دانوں نے رکھی جس میں عباس میر اور محسن خان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 1971میں ناصر سماجی بینک (Nasir Social Bank)  کو پہلا شہری  اسلامی بینک گردانہ جاتاہے۔یہ بینک حکومتی  بینک تھا جس کا تمام نسب و نسق حکومت وقت کے ہاتھ میں تھا۔ اس بینک کی بنیاد اس مقصد کے تحت رکھی گئی کہ اس دور میں مصر میں موجود اخوان المسلمیں کے زور کو توڑا جائے اور اسکی سماجی و معاشی صف بندی کو لگام دی جائے ۔ناصر سماجی بینک (Nasir Social  جو کہ ابتدائی بینک ہے۔ اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس بینک کا فائدہ چھوٹے اور درمیانے کاروباری حضرات کو حاصل ہو اور اس میں چھوٹے کھاتے دار جو کہ مذہبی ہوں  اپنے فنڈ جمع کروائیں ۔ اس بینک نے یہ بھی کوشش کی کہ زکواة کے نظام کو بھی اس بینک کے ذریعہ منظم کیا جائے۔

ناصر سماجی بینک میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ علمائے کرام کی پزیرائی بھی حاصل کی جائے ۔اورعام عوام میں ان ادااروں کو معتبر بنایا جائے۔ اس اسلسے میں سب سے پہلے کاوش  1980 کی دھائی میں کی گئی جب  محمد الفیصل نے جب علمائے کرام اور فقہائے عزام  کی خدمات حاصل کی اسکے لئے اس نے شریعت بورڈ قائم کیا ۔ جس میں موجود  علمائے کرام اور فقہائے عزام  بینکوں کی اسلام کاری سے متعلق فتوی صادر فرماتے تھے۔ اس نے اس کام کے لیے ان علمائے کرام کو چنا جن کی کا کسی اسلامی سیاسی گروہ یا تحریک سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ تا کہ ایک طرف اس کے بینکوں کو عام مسلمانوں کی پزیرائی حاصل ہو دوسرے طرف حکومت سے اس کے تعلق اچھے قائم رہیں۔اس وقت سے لے کر اب تک جن چیدہ چیدہ علمائے کرام کو شریعہ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے اس میں پاکستان سے مفتی تقی عثمانی، یوسف القدوائی مصر سے، عبداﷲ بن مانی سعودی عرب سے اور دیگر شامل ہیں ۔

اسلامی بینکاری اور فقہائے کرام کا تعلق:

سلامی بینکاری کے نئے باب کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوا جب اس نے مسلمان سرمایہ داروں اور حکومت وقت کے ساتھ اپنا تعلق اسلا می گروہ کے سب سے قابل اعتماد افراد یعنی علمائے کرم اور فقہائے عظام سے جوڑا۔اس تعلق کی نمایا ںخصوصیات یہ ہیں ۔ (عبدالسلام،١٩٩٣)۔

١۔ اس تعلق میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ان کو اسلامی بینک میں بحیثیت مشیر کے رکھا جائے۔ یہ اس نظام میں صرف مشورہ دے سکتے ہیں اس پر عمل جامہ پہنانا سرمایہ داروں کا کا م ہوگا کہ وہ ان کے فتووں اور مشورں کو اس طرح مرتب کریں کہ اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام پر  نہ صرف  کوئی آنچ نہ آئے بلکہ اسکو استحکام اور دوام بھی حاصل ہو ۔اگر آپ اس سلسلہ میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالوں کا مطالع کریں ، جو کہ اسلامی ترقیاتی بینک(IDB) اور دیگر سرمایہ دارانہ اداروں نے کیے ہیں، تو اس میں کہیں بھی سرمایہ دارنہ نطام کی کوئی بات نہیںملے گی ۔ وہاں تو اس بات کا جائزہ ملے گاکہ ان تمویلی آلات نے کو کس طرح موجودہ بینکاری نظام کے فروغ میں کس طرح کا کردار ادا کیا۔کلیدی کردار  ادا نہ کرنے اور بحیثیت مشیر رہنے کے لیے ان کو بڑے پیمانے پر مراعات سے نوزا  جاتا ہے ۔ بڑی بھاری تنخوا ہیں ، فائف اسٹار ھوٹلوں (Five star hotals) میں قیام، ہوائی جہازوں نعض دفع نجی جیٹ میں سفر،حکومتی اہلکارہوں اور  بڑی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں،میڈیا پرپزیرائی اور شمولیت وغیرہ۔

٢۔ اسلامی بینکاری کے لیے جو مشیر چنے گئے اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ان کا کسی اسلامی سیاسی گروہ یا تحریک سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ اس سے جو فوائد  حا صل  ہوئے وہ یہ تھے کہ ان علمائے کرام کی شمولیت کے سبب حکومت وقت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا  اور عوام کا اعتبار بھی قائم رہے گا ۔ عام طور پر وہ علمائے کرام جن کا تعلق کسی بھی اسلامی انقلابی جماعت سے نہیں ہوتا وہ سکیولر ازم کو قبول کرکے اسلام کو   نظام تصور نہیں کرتے بلکہ اسکوایک ایسا آلا کار تصور کرتے ہیںجو کہ اس لبرل نظام میں عمل کرسکتا ہے۔

اسلامی بینکاری میں ان علمائے کرام کی شمولیت کے نتیجے میں جو سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ دارنہ نظام کو ہوتا ہے  وہ یہ کہ  دنیا پرستی کو جواز فرہم کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا طرز عمل اور اسلامی علمیت مستحکم ہوتی ہے جو صرف پرستی(Consumerisum) کو اسلامی جواز فراہم کرتی ہے۔سرمایہ دارنہ نظا م سے براہ راست شمولیت کے نتیجے میں علمائے کرام کا طرز معاشرت یکسر تبدیل ہوجاتا ہے قناعت ، فقر و فاقہ، اخروی کامیابی کے جزبات معدوم پڑ جاتے ہیں ۔ اس طرح اسلامی نقطہ نگاہ  معاشرے ، فرد اور ریاست کے بارے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔دنیا پرستی کو اسلامی جواز فرہم کیا جاتا ہے۔ فقہی مباحث اس طرح مرتب ہوتی ہیں کہ ان کے غلبہ دین سے سہو نظر کیا جاتا ہے اور جزیات پر تمام تر زور ہوتا ہے۔

علمائے کرام کی شمولیت کے نتیجے میں 1980ء کی دہائی اسلامی بنکاری کے لئے سودمند دھائی ثابت ہوئی اس کے بعد سے لے کر اب تک تقریباً 200 اسلامی بینک اور کئی اسلامی سرمایہ کار کمپنیاں اور انشورنس کمپنیاں قائم ہوچکی ہیں اسّی کی دہائی میں شاہ فیصل کے بیٹے محمدالفیصل کی زیرنگرانی اسلامی بنکاری کا بین القوامی سطح پر فروغ شروع ہوا ۔اگر ہم اسلامی بنکاری کا ملکیت کے لحاظ سے دیکھیں تو اسلامی بنکاری ادارے تیں طرح کے ہیں:

١۔ اسلامی تجارتی بینک جو نجی شعبہ میں کام کرتاہے

٢۔ اسلامی تجارتی بینک جو عوامی سطح پر کام کرتاہے۔

٣۔ بین الاقوامی اسلامی مالیاتی ادارے

ایران سوڈان میں بینک حکومتی سطح پر کام کرتے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک ملیشیاء اور مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے بینک نجی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک ٤٥ ممبر ممالک کا بین القوامی اسلامی مالیاتی ادارہ ہے ۔نجی شعبہ میں کام کرنے والے اسلامی بینکوں میں سے بعض کا تعلق ھولڈنگ کمپنیوں (With holding Compnies)سے ہے۔ جس میں دو دھولڈنگ کمپنیاں (With holding Compnies)زیادہ مشہور ہیں۔ ایک دارلمال الاسلامی (DMI) اس کا قیام بھی سعودی مال سے عمل میں آیا اور اس کا روح رواں محمدالفیصل نے بین القوامی سرمایہ دارنہ نظام کا حصہ رہنے کے لئے پہلے سربراہ سامیٰ الدودلیش کو ورلڈبینک کی ڈائریکٹرشپ سے استعفیٰ دلواکر دارالمال کا سربراہ بنادیا۔

دوسری البرکہ گروپ کے تحت رجسٹرڈ ہوا۔اس کے روح رواں شیخ صالح کمال ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ممالک میں اسلامی بنکاری اور اسرمایہ کار کمپنیوں کا جال بچھاہوا ہے۔ اور یہ بینک اب ناصرف اسلامی ممالک میں قائم ہیں بلکہ دیگر غیر مسلم علاقوں میں جہاں مسلمان بحیثیت ایک اقلیت کے مقیم ہیں وہاں بھی اسلامی طریقہ تمویل محدود پیمانے پر موجود ہے۔

وجو بات قابل دید ہے وہ یہ کہ اسلامی طریقہ تمویل جوکہ اسلامی معاشیات کے اصولوں پر قائم ہے اس نے اس متبادل کے ذریعہ مسلمانوں کی نجی اور انفرادی زندگیوں میں تبدیلی رونما نہ کی جیسا کہ ہم نے تاریخی طور پر دیکھا کہ سرمایہ داری ان اداروں کے ذریعہ دنیا پر اپنا تسلط جمارہی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری ایک نظام ہے جو کہ کسی دوسرے نظام میں نشوونما نہیں پاسکتا سرمایہ داری میں جو تضاد بظاہر ہم کو نظر آتے ہیں جن کا مطالعہ ہم نے کلاسیکل (Classical)، کنسزین(Keynesian) اور  نیو کلاسیکل (New Classical)ادوار میں کیا وہ دراصل اصولی  اختلاف نہیں تھا بلکہ وہ تو سرمایہ داری کے فروغ کے لیے فروعی اختلاف تھا۔  اسلامی معیشت دانوں نے ان سرمایہ دارانہ نظریات سے اغمازبرتا اس کو غیرجانبدار (Neutral) جان کر اس نظام میںناصرف شمولیت اختیار کی بلکہ ایک معذرت خوانہ رویہ اختیار کیا کہ کیوں  نہ ہم نے اپنے پچھلے ادوار میں اس سے رہنمائی حاصل نہ کی ۔بلکہ اس سے بڑھ کر کہنے لگے کہ اس بنکاری نظام کی ابتداء تو اسلام نے کی ہے جیسے اجارہ یا پٹہ داری کو اکثر اسلامی معیشت دان جدید لیزنگ (Leasing) کی بنیاد قرار دیتے ہیں کہ یہ لیزنگ کا سسٹم داراصل امغرب نے اسلام سے  حاصل کرلیا۔

  اسلامی کھاتہ دار بینکوں کے کام کرنے کا طریقہ:

سرمایہ دارنہ معیشت میں جدید بنکاری نظام میں کلیدی حیثیت کمرشل بینکوں کو حاصل ہے اور یہ ہی ترسیل زر کو قابو میں رکھنے کے اہم ادارہ ہے۔ کمرشل بینکوں کا اصل وظیفہ کھاتہ داروں کی جمع کو کم سود پر حاصل کرکے زیادہ سود پر اس کو قرض  پر دیناہے ۔کمرشل بینکوں کا مالی وسائل کو استعمال اس طرح کرتے ہیں کہ سودی لین دین میں اضافہ ہوسکے اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مالی وسائل کے استعمال کا سب سے اہم ذریعہ سودی کاروبار ہے۔ اسی تناظر کو مدے نظر رکھتے ہوئے اسلامی معیشت دان اس بات پر زور دیتے ہیں اسلامی بنکاری میں زر کی تجارت تو ہوگی کہ اس نظام میں مالی وسائل  جو بچتوں کی صورت میں اسلامی بینک میں آئیں گے ان کو منافع بخش کاروبار میں لگادیاجائے گا مگر یہ  کام بلاسودی بنیادوں پر کیاجائے گا۔ اسلامی بینک بھی ثالثی کا ہی عمل انجام دے گا جو کہ جدید کھاتے دار بینک انجام دیتے ہیں فرق بقول ان کے صرف اتنا ہے کہ اسلامی بینک کن بنیادوں پر مالی وسائل حاصل کرتے ہیں اور ان کو کن بنیادوں پر اپنے نفع کے لئے استعمال کرتے ہیں یعنی انفرادی طور پر ایسے طریقہ وضع کئے جائیں جو کہ شرعیت کے خلاف نہ ہوں ۔جدید اسلامی فقہائے کرام جو کہ اسلامی بینکاروں سے وابستہ ہیں وہ ان اسلامی تمویلی آلات کا استعمال کرتے وقت اس مفروضے پر قائم ہیں کہ یا تو اسلام کوئی نظام نہیں ہے 5یا اگر ہے تو پھر سرمایہ داری کوئی نظام نہیں ہے(نجات اﷲ  ،١٩٨٣)۔

اسلامی طریقہ تمویل میں جو طریقہ لین دین اور کاروبار کے ہم کو اپنی تاریخ سے ملتے ہیں وہ چند افراد یا دو آدمیوں کے درمیان تھے جبکہ ان طریقہ تمویل اور لین دین کو بنکاری نظام میں سمونے کی سعی کی گئی تو بہت سے اجتہادات کرنے پڑے۔ اس میں سب سے بڑا اجتہاد یہ کرنا پڑا کہ آیایہ ثالث جو کہ اصلاً ایک فریق نہیں ہے یہ اس کاروبار سے نفع حاصل کرسکتاہے اسلامی نظریاتی کونسل کی 1980 کی رپورٹ سے کوئی ایسا واضح اشارہ نہیں ملتا کہ بینکنگ کے کاروبار کو نجی صورت میں منافع محض کے لئے کیا جاسکتاہے کہ نہیں۔ جدید اسلامی معیشت دان جن میں نجات صدیقی، اوصاف احمد، پروفیسر خورشیداحمد اور جدید فقہائے کرام جن میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب شامل ہیں اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آئے ہیں کہ اس کاروبار کو نجی طور پر منافع محض کے اصولوں پر فروغ دینا چاہئے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایران اور سوڈان کے علاوہ دیگر عرب ممالک پاکستان ملیشیائ،انڈونیشیا، بنگلہ دیش میں نجی طور پر قائم اسلامی بینک جدید بنکاری نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ ان بینکوںکے قیام کے لئے جو ماڈل پیش کرتے ہیں اس کے لئے بھی اجتہادی فیصلہ کرتے ہیں اور اس عمل کو جس طرح جائز قرار دیتے ہیں اور اس کی مضمرات کا جس طرح دضع کرتے ہیں وہ اسلامی معیشت دانوں کا  ہی طرّہ امتیاز ہے۔آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی بینک کس طرح  اپنے فنڈز (Funds)کو حاصل کرتے ہیں اور یہ عمل جدید بنکاری نظام سے کس حد تک جدا ہے یا مماثل ہے۔

کمرشل بینک سے متعلق اسلامی معیشت دانوں کے نظریات:

کمرشل بینک کی زمہ داریاں:(Liabilities of Commercial Bank)

بینک کے قیام کے لئے بنیادی سرمایہ کی فراہمی:(Capital)

اسلامی بینک کی نجی طور پر بھی قیام کی شفارشات موجود ہیں اور سرکاری سطح پر بھی اسکے قیام کا عمل موجود ہے۔ سرکاری طور پر قائم کھاتے دار بینک کا ابتدائی سرمایہ تو حکومت خود اپنے اخراجات سے برداشت کرے گی ۔ حکومتی بینکوں کے قیام کا مقصد ملکی معیشت کوزری پالیسی (Monetary Policy)میں اسلا می بنیادوں پر مستحکم کرنا ہے۔ جبکہ وہ اسلامی بینک جو کہ نجی طور پر اپنا ابتدائی سرمایہ کسی کمپنی کی طرح شیئر کی صورت میں حاصل کرتے ہیں۔ ان شیئر کو خریدنے والے آپس میں مشارکت کے اصولوں پر شراکت کرتے ہیں ان کا متمع نظر زیادہ سے زیادہ  منافع کا حصول ہے۔اسلامی بینک سرمایہ کاری کے لیے  شیئرمارکیٹ میں رجسٹر یشن بھی کرواتے ہیں تاکہ  شیئر مارکیٹ کے تحت ان بینکوں کا سرمایہ فراہم ہو۔   بینک دیگر کمپنیوں کے برخلاف ایک دوسرا شریک بھی عمل میںلاتی ہیں جن کی تعداد، عرصہ عقد کا تعین کرنا بھی بہت مشکل ہے اور یہ شریک کھاتے دار ہوتے ہیں۔کھاتے دار اور بینک کے درمیان جس عقد کو اسلامی معیشت دان موضوع گردانتے ہیں وہ مضاربت کا عقدہے جس  کی تفصیل میں اسلامی معیشت دان کہتے ہیں ”اسلامی بینکوں کے فکسڈ ڈیپازٹس (Fixed Deposits)اور سیونگ اکاؤنٹس(Saving Accounts)میں جمع کردہ رقوم کا طریق کار روائتی بینکوں کے ان کھاتوں سے مختلف ہوگا۔ کیونکہ اسلامی بینکوں کا قیام مشارکہ (یعنی شرکت اور مضاربہ کا مجموعہ) کی بنیاد پر ہوگا اس میں بھی روایتی بینکوں کی طرح لوگ دو طریقے سے سرمایہ لگائیں گے کچھ لوگ تو ابتداء میں مشترک سرمائے سے کمپنی کی طرح بینک قائم کرنے کے لئے سرمایہ لگائیں گے،یہ بینک کے حصہ دار (shareholders) کہلائیں گے، ان کے درمیان آپس میں مشارکت کا عقد  ہوگا، کیونکہ انہوں نے اپنا سرمایہ اور عمل دونوں بینک میں لگادیئے۔  جبکہ کھاتے دار جو کہ مضاربت کے تحت کھاتے کھولیں گے ان کی حیثیت رب المال کی اور بینک )یعنی بینک کے اصل حصہ داروں )کی حیثیت ان کے مضارب کی ہوگی، اور یہ عقد شرکت اور مضاربت کا مجموعہ بن جائے گا، جسے جدید فقہائے کرام مشارکہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس بحث کو مدے نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نجی صورت میں قائم بینک پہلے تو ابتدائی سرمایہ کے لئے کمپنی کے طرز پر حصے (Shares) مارکیٹ میں فروخت کریں گے۔ اور جب بینک کا قیام عمل میں آجائے گا تو پھر بینک مضاربت یا قرض حسن کی صورت میں مذید راس المال جمع کرے گا تاکہ اس کو اسلامی تمویل کے اصولوں کے مطابق صحیح مصرف میں لگادیںاب سوالات جواسلامی معیشت دان اٹھاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان حصہ داروں کی کم از کم تعداد اور زیادہ تعداد کا تعین کیسے کیا جائے ؟اور ان میں باہمی نفع میں شرکت کس مناسب سے رکھی جائے؟اس میں اسلامی معیشت دانوں کا اختلاف ہے۔

کم از کم تعداد اور زیادہ تعداد کا تعین کیسے کیا جائے ؟تو اس میں مکاتب فکر میں اختلاف ہے۔ وہ مکاتب فکر جو کہ تعداد کو لامتناہی سمجھتے ہیںوہ دراصل سرمایہ دارانہ ملکیت کے قائل ہیں یہ وہ  معیشت دان ہیں جوکہ اسٹاک ایکسچینج(Stock exchange) کو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کم از کم تو دوہوں مگر زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ مگر دیگر معیشت دا ن جو اسٹاک مارکیٹ کی حرمت کے قائل نہیں ہیں اور ناہی سرمایہ دارانہ ملکیت کے قائل ہیں وہ  اس بات کے قائل ہیں کہ ملکیت تو شخصی ہوتی ہے  اس لیے شریک کی کوئی آخری حد مقرر ہونی  چاہئے اور یہ حد ہر ملک اور ہر زمانے میں مختلف ہوگی مگر اتنا ضرور خیال رکھا جائے کہ یہ حد بہت زیادہ نہ ہونے پائے۔

ان حصہ داروںکا فراہم کیا ہوا سرمایہ باہم مساوی بھی ہوسکتاہے اور غیر مساوی بھی اس کا تعین باہم رضامندی سے مشارکت کے شریعی اصولوں کو مدے نظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا۔ مشارکت کے شرعی اصولوں میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ حصہ کا تعین باہم رضامندی سے ہوگا۔ اس کا تعین لگائے گیے سرمائے کے تناسب سے بھی  ہو سکتا ہے اور یہ تناسب سرمایہ اور عمل کے باہم  تناسب سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔اسی اصول کے پیش نظر اسلامی معیشت دان یہ کہتے ہیں کہ بینک کے حصہ داروں میں نفع کی تقسیم صرف سرمائے کے تناسب سے نہ کی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ کون اسکو کتنا عمل ، مہارت صرف کرتا ہے۔شرکت کے اصولوں کے تحت نقصان کی صورت میں حصہ کے تناسب سے نقصان شراکت داروں کو برداشت کرنا پڑے گا۔

اسلامی معیشت دانوں کے ١٩٩٠ء سے پہلے کہ آرٹیکلس اٹھاکر دیکھیں تو اس مین نجی شعبہ میں بینک کے قیام کا بہت کم ذکر ملتاہے اور اس بحث پر بہت کم زور دیاجااہے کہ نجی طور پر بینک حصول منافع کے لئے کیوں کر کام کرسکتے ہیں جبکہ ١٩٩٠ء کے بعدکے مقالاجات میں اس بات کا صراحیت کے ساتھ ذکر ملتاہے ہے کہ یہ بینک نجی شعبہ میں کام کریں گے اور ان کے قیام کا طریقہ اور سرمایہ کی فراہمی کا طریقہ جدید بنکاری نظام سے چنداں مختلف نہیں ہوگا۔ بینک کے قیام کے لئے شراکت دار سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور ہر شراکت دار مارکیٹ سے اپنے حصہ کا شیئر خرید کر شراکت دار بن جاتاہے۔ مگر جب شراکت کی شرائط پر نظر ڈالی جائے تو اس شرط پر عمل نہیں ہوتا  کہ شراکت دار کو کاروبار کی نوعیت اور کاروبار کی ساخت کا علم ہو جو کہ موجودہ دور میں شیئر کی خرید وفروخت میں ممکن نہیں ہے۔

اگر ہم ان ممالک کا جائزہ لیں جہاں اسلامی حکومتیں قائم ہیں جیسے سوڈان، ایران وہاں پر بینک حکومتی سرپرستی پر حکومتی سرمائے کے بل بوتے پر قائم ہیں۔جسکا سبب یہ تصور ہے کہ بینک کوئی پیداواری یا اشیاء کی خرید وفروخت کا ادارہ نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک ثالثی کا کام کرتاہے تاکہ کاروباری افراد کو بلاسودی قرض حسن یا شراکت کے بل بوتے پر کاروبار کے لئے رأس المال مل جائے یہ خدمت بینک جب ہی پورے انہماک اور دیانت داری سے کرسکتاہے جب خود نفع محض کے اصول پر گامزنہ ہو۔ یہ جب ہی ممکن ہے جب یہ کام سرکاری سطح پر کیا جائے۔

اس ابتدائی سرمائے کی فراہمی کے لئے بینک کے پاس دو ذرائع کا ذکر ملتاہے ایک نجی طور پر شراکت کے اصول پر متعدد شرکاء سرمایہ فراہم کریں گے دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ بینک نجی طور پر قائم نہ ہو بلکہ حکومتی سرپرستی میں سرکاری خزانے سے اس کو قائم کیا جائے جیسے کہ پولیس، بلدیہ کے ادارے قائم کئے جاتے ہیں جن کا فرض خدمت کی انجام دہی ہوتی ہے۔ اور ملک میں کاروبار  کو فروغ دینا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ بینک اپنے دیگر وسائل یعنی کھاتہ داروں سے کن بنیادوں پر رقم وصول کرے گا۔

اسلامی بینک اپنی ذمہ داریوں کے لیے دوسری مد جہاں سے سرمایہ حاصل کرے گا وہ  اسکے کھاتے میں جمع رقوم ہیں۔بینک اور کھاتے داروں کے درمیان دو قسم کے عقد ہوتے ہیں۔

١۔  قرض حسن                                    ٢۔ مضاربت 

قرض حسن

اسلامی نقطہ نظر سے قرضوں پر سود لینا ممنوع ہے بلکہ کسی بھی قسم کا اضافہ مالی صورت میں لینا ناجائز اور حرام ہے۔ بلکہ قرض دینے والا قرض خواہ کو اتنی ہی رقم واپس کرے گا جتنی اس نے لی ہے ایسے قرض کو قرض حسن کہتے ہیں۔ قرض حسن عام طور پر کسی مالی دشواری پر قابو پانے کے لئے امانت کے عرض سے دیا جاتاہے۔بینک  جب بھی سرمائے کے حصول کے لیے قرض لے گا تو  قرض حسن ہی ہوگا۔اس لیے کھاتے دار جب بھی رقم بینک میں رکھوائیں گے وہ قرض حسن کھاتے ہی ہوں گے۔

مضاربت :

مضاربت در اصل سرمائے اور محنت کے درمیان تعاون کا ایک معاہدہ ہے جس میں ایک فریق سرمایہ لگاتاہے اور دوسرا فریق محنت اور انتظامی صلاحیت فراہم کرتاہے۔ اسلامی فقہہ میں چونکہ ان ذرائع تمویل کا استعمال محدود پیمانے پر چند افراد کے درمیان ہوتاہے۔ مضاربت کا استعمال بینکینگ میں جبکہ شرکاء کی تعداد لامحدود ہو دور جدید کا اجتہاد ہے مضاربت میں جو شراکت میں مال لگاتاہے اس کو رب المال کہتے ہیں اور کاروبار چلانے والے کو عامل یا مضارب کہتے ہیں۔ مضاربت کے اصول کے تحت رب المال اور مضارب دونوں نفع میں شریک ہوں گے اور نفع کا تناسب دونوں فریق باہم مشورہ سے کریں گے جب کہ خسارے کی صورت میں خسارہ رب المال برداشت کرے گا۔ جب کہ مضارب پر اس کا تاوان نہیں آئے گا۔

مضاربت کا استعمال بینک اور کھاتے داروں کے درمیان بہت مقبول ہے اسی لئے کھاتے دار اور بینک کے درمیان جو عقد اسلامی معیشت دان تجویذ کرتے ہیں وہ مضاربت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مضاربت میں کھاتے دار بحیثیت رب المال کاروباری عمال میں حصہ نہیں لیتے بلکہ نفع ونقصان کے حقدار ہوتے ہیں۔ بینک بحیثیت مضارب نقصان میں حصہ دار نہ ہوگا بلکہ اس کو اس کی خدمت کی عیوض کچھ نہیں ملے گا۔ اس طرح مضاربت کھاتوں میں جمع رقوم بینک کے لحاظ سے محفوظ ہوتیں کہ نقصان کی صورت میں بینک کو نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

اسلامی بینکاری  میںان دونوں آلات کو استعمال کرتے ہوئے درج ذیل کھاتے کھولتے  جاتے ہیں۔

جاری کھاتے:             (Current Account)

عام تجارتی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی جاری کھاتے (Current Accounts) کھولتے ہیں۔ ان کھاتوں میں وہ رقوم جمع کی جاتی ہیں۔ جن کو ”عندالطلب جمع” (Demand Deposits) کہا جاتاہے۔ یعنی بینک کو اطلاع دیئے بغیر کھاتہ دار اپنی ضرورت کے مطابق رقم نکال سکتاہے۔ بینک اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ وہ عندالطلب کھاتہ دار کو ادائیگی کرے گا جہاں تک جاری کھاتوں کا تعلق ہے۔ عام تجارتی بینکو ں اور اسلامی بینکوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ تاہم معاصر اسلامی بینکوں میں جاری کھاتے جس طرح کھولے جاتے ہیں اور کام کرتے ہیں اس کو مندرجہ زیل خصوصیات کے ذریعہ بیان کیا جاسکتاہے:

١۔         اسلامی بینکوں میں جاری کھاتے افراد یا کمپنیوں کے ذریعہ کھولے جاسکتے ہیں۔ کھاتے ملکی کرنسی، یا غیر ملکی کرنسی میں بھی کھولے جاسکتے ہیں اگر بینک غیر ملکی زر مبادلہ میں کام کرنے کے مجاز ہو۔

٢۔         اسلامی بینک اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ کھاتہ داروں کو ان کھاتوں  میں جمع رقوم عندالطلب نکالنے کا حق ہوگا۔ اس لئے کھاتہ داروں کو منافع کا کوئی حصہ یا کسی قسم کا دوسرا منافع ادا نہیں کیا جائے گا۔

٣۔         کھاتہ دار بینک کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پر ان رقوم کو عارضی مدت کے لئے استعمال کرسکتاہے۔ اس طرح کے اعمال سے جو فائدہ ہوگا وہ بینک کا حق ہوگا اور کھاتہ داروں کواس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جائے گا اسی طرح اگر نقصان ہوا تو بینک خود اس نقصان کو برداشت کرے گا۔

٤۔         ان کھاتوں میں رقم جمع کرنے اور نکالنے پر کسی قسم کی شرائط عائد نہیں کی جائیں گی۔

٥۔         کھاتہ داروں کو چیک جاری کرنے کا اختیار ہوگا۔

یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلامی بینک میں جاری کھاتوں کے سلسلے میں دو نقطہ ہائے نظر ابھر کا سامنے آئے ہیں، ان میں سے ایک نقطہ نظر یہ تو ہے کہ جاری کھاتوں میں جمع رقوم کو ”امانت” سمجھا جائے۔ اس نقطہ نظر سے اردنی اسلامی بینک (Jordan Islamic Bank) نے اپنایا ہے۔ چنانچہ اس بینک میں ”جاری کھاتوں” کو امانت کھاتے (Trust Account) کا نام دیا گیا ہے۔

دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ عند الطلب جمع کو ”قرض حسن” سمجھا جائے۔ یہ نقطہ نظر ایران میںکام کرنے والے اسلامی بینکوں نے اپنایا ہے چنانچہ ایران میں جاری کھاتے ”قرض حسن جاری کھاتے” کے نام سے موسوم کئے گئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق جاری کھاتوں میں جمع رقوم کھاتہ داروں کی جانب سے بینک کو دیا گیا بلاسودی قرض ہے۔ اس طرح بینک ان رقوم کو اپنی ذمہ داری پر اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرسکتاہے۔ کھاتہ داروں کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی اس کے استعمال کے لئے کھاتہ داروں کی کسی خاص اجازت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قرض حسن کی صورت میں قرض دار کو قرض خواہ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ مقروضہ رقم کو کس طرح استعمال کرے۔ اسے صرف اصل رقم واپس کرنے کی ذمہ داری لینی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس صورت میں یہ شرط پوری ہوجاتی ہے کیونکہ اسلامی بینک جاری کھاتوں میں جمع شدہ رقوم واپس کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

سوڈان اور دوسرے ممالک کے رسیدی بینکوں میں بھی عندالطلب جمع کو قرض کے طور پر ہی تسلیم کیا جاتاہے۔

بچت کھاتے:

عام تجارتی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بچت کھاتے (Saving Accounts) بھی کھولتے ہیں۔ لیکن ان کا طریقہ سودی بینکوں سے مختلف ہے۔ اسلامی بنکاری کے مختلف تجربوں میں بچت کھاتے کھولنے کے چار مختلف طریقے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

الف:      بچت جمع (Saving Deposite) کو الودائع (یاودیعت) کے اصول پر قبول کیا جائے۔ کھاتہ داروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ بینک کو ان رقوم کو اپنی ذمہ دار پر استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ اس کے ساتھ ہی بینک ان رقوم کی پوری ادائیگی کی گارنٹی دیتاہے۔ بینک اگر چاہے تو کھاتہ داروں کو رضاکارانہ طور پر اپنے منافع میں شریک کرسکتاہے۔ یہ طریقہ اسلامی بینک ملائشیا میں اپنایا گیاہے۔

ب:        بچت جمع کو سرمایہ کاری کی اجازت کے ساتھ قبول کیا جائے اور ایک خاص مدت کے دوران جس میں کھاتہ دار کی کم سے کم جمع رقم رہی ہو اس رقم اور مدت کے لئے منافع میں شرکت کی جائے جس کا تناسب پہلے سے طے کرلیاگیاہو۔

ج:         بچت جمع کو کھاتہ داروں کی جانب سے بینک کو دیاگیا قرض حسن تصور کیا جائے اور بینک اپنی صوابدید پر انہیں مالی یا غیر مالی سہولتوں یا منافع سے بہرہ مند کرے۔

د:          بچت جمع کو ایک مشترکہ فنڈ میں ڈال دیا جائے جس کو سرمایہ کاری کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ عام طور پر کھاتہ داروں کو اس کھاتے سے بغیر اطلاع رقوم نکالنے کا اختیار ہوتاہے لیکن جس مدت کے لئے انہوں نے رقم نکالی ہو، وہ منافع میں شرکت کے حقدار نہیں ہوتے۔

اسلامی بینکوں میں بچت کھاتے کھولنے کے مذکورہ بالا چاروں طریقے رائج ہیں۔ مثلاً بحرین اسلامی بینک میں ان کھاتوں کو ”سرمایہ کاری کی اجازت کے ساتھ بچت کھاتے” (Saveing Accounts with Authorization to Invest) کہا جاتاہے۔ کھاتہ دار بینک میں اپنی رقوم جمع کرتے وقت بینک کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق ان کی سرمایہ کاری کرے۔ منافع میں شرکت اس کم سے کم رقم کی بنیاد پر کی جائے گی جو مستقل ایک ماہ تک بینک کی تحویل میں رہے۔

ایران کے اسلامی بینک بچت کھاتوں کو ”قرض حسن کھاتوں” میں شامل کرتے ہیں اور اس میں جمع ٍشدہ رقوم کو ”قرض حسن جمع” قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک بچت کھاتوں کو چلانے کا سوال ہے ان میں جمع کرنے اور رقوم نکالنے کا طریقہ تقریباً وہی رکھاگیا ہے جو بنکاری کا روایتی طریقہ ہے۔ حالانکہ نظریاتی طور پر ”قرض حسن جمع” میں رقوم کسی منافع کی حق دار نہیں ہوتیں لیکن ایران میں تجارتی بینکوں نے جمع میں افزائش کے لئے مختلف طریقے اپنائے ہیں تاکہ عوام الناس کو بینکوں کی جانب راغب کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ کھاتہ داروں کونقد یا جنس میں کوئی انعام نہ دیا جائے جو پہلے سے مقرر ہوتاہے ہم ان کو بعض کمیشن اور فیس کی ادائیگی سے مستثنیٰ کیا جاسکتاہے یا چھوٹ دی جاسکتی ہے مثلاً ڈرافٹ بنوانے کی فیس۔ مزید براں مستقل کھاتہ داروں کو بنکاری کی سہولیات فراہم کرانے میں ترجیح دی جاسکتی ہے۔

اردنی اسلامی بینک نے بچت کھاتوں کے لئے ایک دوسرا ہی راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ اسلامی بینک بچت کھاتوں کو ایک مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ میں شامل کرتاہے جو مشترکہ سرمایہ کاری کھاتہ کہلاتاہے۔ اس کی وضاحت سرمایہ کاری کھاتوں (Investment Accounts) کے ضمن میں کی جائے گی۔

            سرمایہ کاری کھاتے:

اسلامی بینکوں کو سرمایہ کاری (Investment) کے لئے جو رقوم موصول ہوتی ہیں ان کے لئے علیحدہ سرمایہ کاری کھاتہ کھولا جاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عوام کے پاس جو آمدنی خرچ ہونے سے بچ جاتی ہے اور جس کی ان کو مستقبل قریب میں ضرورت ہونے کی توقع نہیں، اس کو وہ بینک کے پاس جمع کردیتے ہیں تاکہ اصل رقم محفوظ رہے اور کچھ آمدنی کی صورت بھی رہے۔ سودی نظام بنکاری میں طویل مدتی کھاتے (Term Deposits) اسی مقصد سے چلائے جاتے ہیں۔ اسلامی بینک کاری میں سرمایہ کاری کھاتے، سودی نظام کے طویل مدتی کھاتوں کا بدل ہیں۔ ان کھاتوں کو نفع ونقصان میں شراکت کھاتہ (Account Profit an d Loss Sharing) یا حصہ داری کھاتہ (Participatory Account) بھی کہا جاتاہے۔

ان دونوں طرح کے کھاتوں میں کئی اہم فرق ہیں اول اور سب سے اہم فرق تو یہی ہے کہ طویل مدتی کھاتے، تجارتی بینکوں میں سود کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ جبکہ سرمایہ کاری کھاتے نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔ کھاتہ داروں کو ان کی جمع پر پہلے سے ایک مقرر شدہ شرح سود دینے کے بجائے اسلامی بینک اپنے سرمایہ کار کھاتہ داروں کو صرف وہ تناسب بتائے گا جس میں وہ ان کے ساتھ نفع میں شرکت کرے گا ان میں سے ہر کھاتہ دار کو فی الحقیقت کتنا نفع ملے گا یہ سب اس پر منحصر ہوگا کہ بینک کے اپنے تجارتی اور سرمایہ کاری اعمال کا نتیجہ کیا نکلتاہے۔ دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ طویل مدتی کھاتوں میں صرف ان کی مدت کی بنیاد پر فرق کیا جاتاہے جب کہ سرمایہ کاری کھاتوں میں مدت اور مقاصد دونوں کی بنیاد پر فرق کیا جاسکتاہے۔ کیونکہ سرمایہ کاری کھاتوں میں بینک کو اس بات کی بھی ہدایت دینا ممکن ہے کہ اس کو دی جانے والی رقم کسی مخصوص پروجیکٹ یا کسی مخصوص تجارت میں ہی لگائی جائے۔

سرمایہ کاری کھاتوں کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

الف:      سرمایہ کاری کھاتے افراد، کمپنیوں یااداروں کی جانب سے کھولے جاسکتے ہیں یہ ملکی کرنسی یا غیر ملکی کرنسی میں بھی کھولے جاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ بینک کو غیر ملکی زرمبادلہ میں اعمال انجام دینے کی اجازت حاصل ہو۔

ب:        کھاتہ داروں کو کوئی سود نہیں دیا جاتا اس کی جگہ وہ نفع نقصان میں شرکت کرتے ہیں۔ کھاتہ داروں کو اس منافع میں سے ایک حصہ دیا جاتاہے جو فی الحقیقت بینک کو اپنے تجارتی اور سرمایہ کاری اعمال سے ہو، اس کے لئے وہ شرح جس کے مطابق منافع تقسیم ہوگا پہلے مقرر شدہ ہوتی ہے۔ نفع کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے گی کہ جمع رقم کتنی ہے اور وہ کتنی مدت کے لئے بینک کی تحویل میں رہی ہے۔ منافع معلوم کرنے کے لئے جمع شدہ رقم کو مدت سے ضرب دے دیا جاتاہے پھر کل نفع کو تمام کھاتہ داروں میں اس حاصل ضرب کی مناسبت سے تقسیم کیا جاتاہے۔

ج:         عام طور کھاتہ داروں کو اس قسم کے کھاتہ سے رقم نکالنے کا اختیار نہیں ہوتا غیر معمولی حالت میں کھاتہ دار بینک کو ایک خاص مدت کا نوٹس (عموماً ہفتہ یا دو ہفتہ) دے کر رقم نکال سکتے ہیں۔ لیکن اس حالت میں ان کو نکالی گئی رقم کا منافع نہیں دیا جائے گا۔

د:          عام طور پر بینک سرمایہ کاری کھاتہ کھولنے اور چلانے کے لئے کم از کم رقم کا تعین کر دیتے ہیں۔

ھ:         زیادہ تر اسلامی بینک سرمایہ کاری کھاتہ داروں کو سرمایہ کاری سر  ٹیفکیٹ (Investment Certifivates) بھی جاری کرتے ہیں۔ جن میں جمع شدہ رقم اور نفع میں شرکت کے بارے میں شرائط مذکور ہوتی ہیں۔

اپنی مخصوص ضروریات کے پیش نظر مختلف اسلامی بینک اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ سرمایہ کاری جمع کی مختلف اسکیمیں وضع کی جاسکیں تاکہ مختلف سرمایہ کاروں (Investors) کی ضروریات اور ترجیحات کا لحاظ کیا جاسکے۔ ان میں سے بعض اسکیموں کا مختصر تعارف اگلے صفحات میں پیش کیا جائے گا لیکن یہ تصریح ضروری ہے کہ ان میں سے بیشتراسکیمیں ، بعض خاص اسلامی  بینکوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ کسی خاص اسلامی بینک میں یہ تمام اسکیمیں موجودنہ ہوں۔

مشترکہ سرمایہ کاری کھاتے:

عام طور پر اسلامی بینکوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ طویل مدتی جمع کے متبادل کے طور پر وہ ایک سرمایہ کاری فنڈ (Investment Fund) قائم کرتے ہیں جس کے مالی وسائل، بینک کے سرمایہ کاری اعمال (Investment Operations) میں کام آتے ہیں۔ اس فنڈ میں مختلف میعادوں کے سرمایہ کاری کھاتے جمع کروائے جاتے ہیں۔ مالی وسائل کسی خاص سرمایہ کاری پروگرام سے جڑ ے نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کا استعمال بینک کے مختلف النوع سرمایہ کاری اعمال میں کیا جاتاہے۔ سال کے آخر میں سرمایہ کاری کے اعمال سے ہونے والی کل آمدنی کا حساب لگایا جاتاہے اور اخراجات وغیرہ نکال کر خالص منافع کھاتہ داروں میں ان کی رقم اور مدت کے اعتبار سے تقسیم کیا جاتاہے۔ ”عامل” کی حیثیت سے بینک کے حصہ کی منافع کی رقم خالص منافع میں سے پہلے منہا کرلی جاتی ہے۔

اس کا ایک دوسرا طریقہ مشترکہ سرمایہ کاری کھاتہ کا اجراء ہے۔ اردنی اسلامی بینک نے اس کھاتے کی تعریف اس طرح کی ہے ”اس کھاتے میں ان لوگوں کی نقد رقوم وصول کی جائے گی جو بینک کے بین سطحی اور مسلسل جاری سرمایہ کاری کے اعمال میں شرکت کرنا چاہتے ہوں۔ کھاتے میں جمع رقوم کو پہلے سے طے شدہ شرائط کے مطابق فی الحقیقت حاصل شدہ منافع کا ایک حصہ دیا جائے گا۔مزید براں، اردنی اسلامی بینک پر لاگو قانون کی شق ١٣ (الف) کے مطابق سرمایہ کاری کھاتوں میں جمع ہونے والی رقوم کو بینک کے کل مالی وسائل کا جز تصور کیاجاتاہے تاکہ ان کو سرمایہ کاری کے اعمال میں استعمال کیا جاسکے۔ ان کھاتوں کو مشترکہ سرمایہ کاری کھاتے کے نام سے موسوم کیا گیاہے۔ پھر ان مشترکہ سرمایہ کاری کھاتوں کو تین قسموں میں بانٹاگیا ہے بچت کھاتے، اطلاعی کھاتے (Notice Account) اور خاص مدتی کھاتے (Acount Fixed Term) یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مشترکہ سرمایہ کاری کھاتوں میں جمع رقوم کی سرمایہ کاری وے ہونے والی آمدنی کا حساب کتاب بینک کے دوسرے اعمال سے ہونے والی آمدنی کے حساب کتاب سے علیحدہ رکھا جاتاہے۔

محدود مدتی سرمایہ کاری کھاتے(Limited Period Investment Account)

ان کھاتوں کا تجربہ کویت فنانس ہاؤس (بیت التمویل الکویتی) اور بحرین بینک کے ذریعہ کیا جارہاہے۔ ان کھاتوں میں جمع رقوم ایک مخصوص اور محدود مدت کے لئے قبول کی جاتی ہیں۔ مدت کا تعین کھاتہ دار اور بینک باہمی رضامندی سے ہوتاہے۔ مدت کے اختتام پر معاہدہ ختم ہوجاتاہے لیکن منافع کی تقسیم مالی سال کے آخر میں کی جاتی ہے۔

غیر محدود مدتی سرمایہ کاری کھاتے:

یہ کھاتے محدود مدت سرمایہ کاری کھاتوں  کے مقابلے میں یہ خصوصیت رکھتے ہیںکہ ان میںمدت کا تعین نہیں کیا جاتا۔ کھاتوں میں جمع رقم کی سرمایہ کاری کے لئے اس وقت تک مسلسل تجدید ہوتی رہتی ہے جب تک کہ تین ماہ کے نوٹس کے ذریعہ ان کو منسوخ نہ کردیاجائے۔ اس قسم کے کھاتوں میں جمع رقوم میں نہ تو اضافہ کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان میں سے رقم نکالی جاسکتی ہے لیکن کھاتہ داروں کو ایک سے زیادہ کھاتے کھولنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مالی سال کے ختم ہونے پر منافع کا حساب کتاب اور تقسیم عمل میں آتاہے۔

مخصوص سرمایہ کاری کھاتے:

چند اسلامی بینکوں نے سرمایہ کاری کھاتوںکی بعض دوسری اسکیمیں وضع کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں جن میں مخصوص سرمایہ کاری کھاتے (Specified Incestment Account) بھی آتے ہیں۔ ان میں کھاتہ دار  بینک کو ایک مخصوص رقم کسی خاص تجارت یا کسی خاص مشروع میں سرمایہ کاری کے لئے دیتے ہیں۔ اس صورت میں صرف اس مشروع سے حاصل شدہ منافع طے شدہ شرائط اور شرح کے مطابق بینک اور کھاتے دار کے درمیان تقسیم ہوگا اور اس کا بینک کے دوسرے اعمال کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

اس صورت میں بینک کھاتہ داروں کے وکیل کی حیثیت سے کام کرتاہے اور اپنی خدمات کے لئے منافع کا ایک حصہ وصول کرتاہے اس قسم کے سرمایہ کاری کھاتے اردنی بینک میں کھولے گئے ہیں۔

دیگر ذمہ داریاں:

محفوظات اور دیگر کھاتوں سے متعلق  اسلامی بینک کا مرکزی بینک سے تعلیق تو ہم تفصیل سے ہم اسلامی مرکزی بینک میں دیکیھیں گے کہ اسلامی بینک مرکزی بینک میں کس بنیادوںمحفوضا ت رکھیں گے اوراس کے علاوہ تمسکات کی خریدو فروخت کیا طریقہ کارہوگا۔

دیگر  بینکوں سے تعلقات کیسے ہوں گے اسلامی بینک کن بنیادوں پر آپس میں تعلقات استوار کریں گے۔ جیسا کی جدید بینکاری کے باب میں دیکھا تھا کہ بینک اپنی فوری اور روزمرہ کی ضروریات کے لیے اپس میں سودی قرضوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اسلامی بینکوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ وہ اگر قرض لیں تو وہ صرف قرض حسن ہوگا۔ اور اگردیگر صورت میں شراکت ہو۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دن یا اس سے کم عرصے میں شراکت کا کیا طریقہ ہوگا اس پر کوئی نحث میری نظر سے نہیں گزری۔

اسلامی بینک کے اثاثے(Assets) اور مالی وسائل کے استعمال کا طریقہ:

کمرشل بینک چار قسم کے اثاثے قائم کرتاہے ایک نقد اثاثے (Cash Assets) یا محفوظات (Reserves) ہوتے ہیں اور دوسرے تمسکات (Securities) ہوتے ہیں اور تیسرا اور اہم جز قرضوں کی فراہمی (Loans) کا ہوتاہے اور چوتھا جز آپس میں کمرشل بینکوں کے درمیان معاہدوں یا محفوظات کی خرید وفروخت ہوتی ہے جیسا کہ جدول 2-1میں دیا گیا ہے۔

اس ضمن میں اسلامی بینک  کے مالی وسائل کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے سودی بنکاری میں دیکھا کہ مالی وسائل کے استعمال کا واحد ذریعہ سودی قرض دیتاہے۔ جب کہ اسلامی بینک حرمت ربا کے باعث اس طریقہ کو استعمال نہیں کر سکتا اس لئے اسلامی بینکوں کو مالیاتی رسائی (Financing) کے لئے جو طریقہ اسلامی معیشت دانوں نے وضع کئے ہیں وہ سود سے پاک اور اسلامی تمویل کے اصولوں سے اخذ کئے گئے ہیں اور بڑے واضح طور پر ایک ایسا خاکہ مرتب کیا ہے جس پر عمل کرکے سودی لین دین سے نجات مل سکتی ہے۔ اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ (١٩٨١) ایک کلیدی حیثیت کی حامل رپورٹ ہے۔

اسلامی معیشت دانوں نے جو ذریعہ تمویل وضع کئے ہیں اس میں دو  تو شراکت کے ضمن میں ہیں ، مضاربت اور مشارکت ، ایک قرض کے ضمن میں ہے ، قرض حسن ،اور باقی ذریعہ تمویل ہیں جوکہ زیادہ تر بچتے اور کرایوں کے معاہدوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ اول ذکر نفع ونقصان (Profit & Loos) میںشراکت  کے معاہدوں کو زیادہ تر اسلامی معیشت دانوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ قابل اعتماد اور سود کی آمیزش سے پاک متبادل کے طور پر قبول کیا ہے جب کہ آخر ذکر معاہدوں کو کراہیت کے ساتھ قبول کیا ہے۔

شراکت کے معاہدہ:

                                    مضاربت اور مشارکت

 قرض کے معاہدہ :                         قرض حسن

آخر قابل ذکر بیچنے اور کرایوں کے قابل ذکرمعاہدہ یہ ہیں:

١۔ مرابحہ                       ٢۔ بیع مؤجل                    ٣۔ بیع سلم                       ٤۔ ایجارہ            ٥۔ استنائ

(١) قرض حسن اور سروس چارجز

اسلامی نقطہ نظر سے قرضوں پر سود لینا ممنوع ہے بلکہ کسی بھی قسم کا اضافہ مالی صورت میں لینا ناجائز اور حرام ہے۔ قرض دینے والا قرض خواہ کو اتنی ہی رقم واپس کرے گا جتنی اس نے لی ہے ایسے قرض کو قرض حسن کہتے ہیں۔ قرض حسن عام طور پر کسی مالی دشواری پر قابو پانے کے لئے اعانت کے عرض سے دیا جاتاہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جیسا کہ ہم اپنے پہلے ماڈل میں دیکھ رہے ہیں کہ بینک کا بنیادی مقصد اپنے حصہ داروں اور کھاتے داروں کے لئے مناسب منافع کا حصول ہے اس صورتحال میں تین مشکلات کی نشاندہی اسلامی معیشت دان اور اسلامی نظریاتی رپورٹ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ جب شریعت قرض پر کسی بھی اضافے کو قبول نہیں کرتے تو بینک اپنے اخراجات کیسے نکالے گا دوسریہ کہ اس طریقہ کار میں مالیاتی اداروں کو کوئی منافع نہیں ملے گا تو ان اداروں کا فروغ نجی صورت میں کیسے ممکن ہوگا۔ اس کے علاوہ کھاتے داروں کو بھی کوئی منافع نہیں ملے گا تو پھر کون بینک میں رقم رکھوائے گا۔ اس کے علاوہ تیسری مشکل کی نشاندہی اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں واضح طور پر ہے کہ یہ بات اسلامی تعلمات کے منافی بھی ہے کہ کھاتے دار جن کا تعلق غریبوں، بیواؤں، یتیموں سے ہو ان کو اپنے بچتوں پر کوئی منافع نہ ملے مگر سرمایہ دار کو سستے داموں سرمایہ فراہم ہو اور اس طرح امیر آدمی طاقتور اور غریب کمزور تر ہوجائے گا۔”

پہلی مشکل کا حل قرض حسن کی صورت میں کچھ قرض تو دیتے ہیں اور ان قرضوں حق خدمت (Service charges) وصول کرتے ہیں۔ حق خدمت کے بارے میں اسلامی ترقیاتی بینک (Islamic Development Bank) نے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی قائم کردہ اسلامی فقہ اکادمی سے درج ذیل فتویٰ وصول کیا۔

کسی اسلامی بینک کے لئے قرضوں پر آنے والے انتظامی اخرجات پورے کرنے کے لئے حق خدمت لینا جائز ہے لیکن اس صراحیت کے ساتھ کہ حق خدمت اخراجات پر ممنی ہو جو واقعی کئے گئے ہیں۔ اگر حق خدمت واقعی اخراجات سے زیادہ وصول کیا جاتاہے تو یہ ربا کی تعریف میں آئے گا اور اصلاً حرام ہوگا۔ اس لئے حق خدمت کا حساب لگانے میں بہت احتیاط سے کام لیا جانا چاہئے۔ فتویٰ کے مطابق حق خدمت مندرجہ ذیل طریقے سے نکالا جاسکتاہے:

اس حق خدمت کی وصولی واقعی طور پر تو آخر میں ہی نکالی جاسکتی ہے کیونکہ واقعی اخراجات سال کے دوران معلوم نہیں ہوسکتے۔ اس صورت میں یہ حل تجویز کیا گیا ہے کہ گذشتہ سال کے انتظامی اخراجات کی بنیاد پر حق خدمت کا تخمینہ لگایا جائے اور معاہدہ قرض میں یہ شق شامل کی جائے کہ سال گزرنے کے بعد حق خدمت دوبارہ واقعی اخراجات کی بنیاد پر معلوم کیا جائے گا اگر تخمینہ زیادہ ہوا تو بینک زائد رقم لوٹا دے گا اور اگر کم ہوا تو قرض دار سے فرق وصول کیا جائے گا۔

قرض حسن پر کیا جانے والا دوسر اعتراض یہ ہے کہ اس حد میں کون رقم جمع کروائے گا؟ اس کا شافی جواب خود اسلامی معیشت دان اپنے ”تجزیات” میں دیتے ہیں کہ جدید بنکاری نظام میں بھی دیگر کھاتوں کے ساتھ جاری کھاتے بھی ہوتے ہیں جو قرض حسن کھاتوں کی طرح کوئی منافع یا سود نہیں دیتے اور اس میں لوگ کمپنیاں اپنے کھاتے جمع کرواتی ہیں۔ چونکہ بینک کا ایک مقصد صرف نفع کمانا نہیں ہوتا بلکہ افراد کی جمع کی حفاظت بھی ہوتاہے۔ چیک کے ذریعہ محفوظ ترسیل بھی بینک کے ذریعہ ممکن ہے۔ جب کہ تیسرے ابہام کا جواب جو اسلامی معیشت دان دیتے ہیں وہ یہ کہ بینک اس کھاتے کو اس طرح استعمال کرتاہے جیسے فیصل اسلامی بینک (مصر) اپنے کھاتہ داروں کو جنہوں نے بینک میں جاری اور سرمایہ کاری کھاتے کھول رکھے ہیں غیر سودی قرض لینے کی سہولت دیتاہے۔ اس کے علاوہ یہ بینک بعض ضرورت مندوں جیسے طالبعلموں کو بھی قرض حسن دیتاہے۔ دوسری طرف اردنی اسلامی بینک معاشی طور پر کمزور لوگوں کو پیداواری مقاصد کے لئے قرض حسن دیتاہے۔ ایران میں تجارتی بینکوں کے لئے لازم کردیاگیاہے کہ وہ اپنے وسائل کا ایک حصہ قرض حسن کے لئے مختص کردیں تاکہ چھوٹے پیمانے کے پیدا کاروں، کاراندازوں، کاشتکاروں، نیز ضرورت مند صافین کو قرض حسن دیا جاسکے۔ اس طرح قرض حسن سے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد ہوگی رہا سوال ان غریبوں کا جوکہ بینک میں اپنی رقوم رکھوانا چاہتے ہیں تو ان کو شراکت کے تحت مضاربہ کھاتوں میں رقم رکھوانی پڑے گی جاری کھاتوں میں قرض حسن کو عام طور پر اسلامی معیشت دان محدود پیمانے پر استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔

قرض حسن چونکہ ایسا قرضہ ہے جس پر سود نہیں لیاجاتاہے۔ بلکہ اس پر کوئی اضافی رقم حاصل ہی نہیں کی جاتی چاہے اس کے استعمال کے نتیجہ میں کاروباری فریق کو پیش فائدہ ہوگا۔ قرض حسن کو بحیثیت مالی وسائل کے استعمال کو محدود پیمانہ پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیاہے۔

اس پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں کہ حالانکہ اس کے استعمال کے ذریعہ مکمل طور پر شریعت کی پاسداری آسانی سے ممکن ہے مگر چونکہ اسلامی بینک کا جو خاکہ مرتب ہے اس میں بینک منافع کے حصول پر کاروبار کرتاہے اس لئے قرض حسن کا استعمال مخصوص حالات میں ہی ضروری ہے۔ 1

مضاربت :

مضاربت کا استعمال بینک اور کاروباری فریق کے درمیان بہت زیادہ قابل اعتماد ذریعہ تمویل تصور نہیں کیاجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بینک مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاروباری فریق کو دے گا تو سرمایہ غیر محفوظ ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ ہے کہ چونکہ کاروباری فریق بحیثیت مضارب نقصان کا ذمہ دار نہ ہوگا تو پھر و ہ  اتنی تندہی سے سرمایہ کا استعمال نہ کرے گا یا پھر گھپلہ بازی سے نقصان ظاہر کرکے بینک کو ناصرف نفع سے محروم کردے گا بلکہ نقصان بھی بینک کے کھاتے میں ڈالے گا۔ اسی کی ظاہری وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ چونکہ اکثر اسلامی ممالک میں قوانین عدلیہ اور معاشرہ غیر اسلامی بنیادوں پر کام کررہاہے اس لئے وہ رب المال کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے اسی لئے جن چند اسلامی بینکوں نے مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اعمال کی تعداد یا سرمایہ کاری کی رقم کچھ زیادہ قابل لحاظ نہیں ہے۔

مضاربت کے استعمال کا ایک طریقہ اردنی اسلامی بینک نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ یہ بینک مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرتاہے اس بینک کا قانون دو قسم کے مضاربت کی نشاندہی کرتاہے ایک انفرادی مضاربت اور دوسرا مشترک مضاربت انفرادی مضاربت میں اردنی بینک کسی ایک فرد کمپنی کو مضارب بناتاہے اور خود رب المال بن کر نفع میں شریک ہوجاتاہے۔ جبکہ مشترک مضاربت سرمایہ کار اور بینک کے درمیان تسلسل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ ایک مخصوص فنڈ میں رکھتے ہیں جن کا استعمال بینک اپنے سرمایہ کاری کے اعمال میں کرتاہے سرمایہ کار کو حاصل شدہ منافع کا ایک حصہ دیا جاتاہے۔ خواہ وہ اسکیمیں جن میں ان کا سرمایہ لگا ہو مکمل ہوچکی ہوں یا نہ ہوئی ہوں۔دوسرا آخرذکر  طریقہ چونکہ مضاربت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا اس لئے اس کا استعمال بھی صحیح نہیں ہے۔

ایران میں مضاربت کا طریقہ کافی درست نظر آتاہے کہ بینک مضاربت کے تحت خود تو رب المال ہوتاہے اور کاروباری فریق مضارب کی حیثیت کسی بھی پروجیکٹ میں قلیل شراکت دار ہوتاہے۔ بینک بحیثیت رب المال کے پروجیکٹ کی تمام مالی ضروریات پوری کرتاہے اور کارانداز پروجیکٹ کا انتظام وانصرام سنبھالتاہے۔ اور منافع میں دونوں فریق پہلے طے شدہ نسبت سے حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایران کے مالی حکام نے بینکوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ امداد باہمی اداروں کو اپنے مضاربت کے اعمال میں فوقیت دیں۔

نجات اﷲصدیقی (١٩٨٣) اس کھاتے کی بابت بہت تفصیل سے لکھتے ہیں اور اوپر دئے گئے اس خطرہ کو کہ کیونکہ مضاربت کے تحت کی گئی سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جاسکتاہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ بینک کو مضاربت کے تحت سرمایہ فراہم کرنے سے پہلے معاہدہ کرلینا چاہئے ہے کہ بینک مرکزی بینک کے زیراہتمام اس بات کی پوری جانچ پڑتال کرے گا جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ”کاروبار کی تفصیلات میں عدم مداخلت کا طریقہ اختیار کرنے کے باوجود بینک اس امر کی نگرانی کرسکے گا کہ کاروباری فریق بینک سے لئے ہوئے سرمایہ کا استعمال میں ایسی بے احتیاطی یا سؤ تدبیر سے کام نہ لے جو آگے چل کر خسارہ پر منتج ہو۔ اسے کاروبار کے حسابات جانچنے اور کاروبار کی فیصلوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ البتہ اس پر راز چھپانے اور کاروبار کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوگی۔ معمولات کی صفائی کے لئے ضروری سمجھا جائے کہ نگرانی سے متعلق تفصیلات کو معاہدہ کی شرائط میں شامل کیا جاسکتاہے۔ بے احتیاطی اور سؤ تدبیر کی ان صورتوں صراحت بھی معاہدہ میں کی جاسکتی ہے جن میں بینک کو معاہدہ فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ مناسب ہوگا کہ معاہدہ کی جو دفعات تمام بینکوں کے لئے اہم ہوں مثلاً کاروبار کے حسابات کی جانچ، ان کی نگرانی مرکزی بینک کی جانب سے اس کے مقرر کردہ افسروں کے ذریعہ ہو۔ سؤ تدبیر یا بے احتیاطی کی وہ صورتیں بھی از روئے قانون متعین ہونی چاہئیں جن میں بینک کو معاہدہ فسخ کرنے کا اختیار دیاجائے گا اگر معاہدہ کسی متعین مدت کے لئے کیا گیا ہو اور مدت پوری ہونے سے پہلے ہی بینک کاروباری فریق کے سؤ تدبیر یا بے احتیاطی کی بنا پر فسخ کرنا چاہے تو اسے ازروئے ضابطہ اس امر کا مکلف بنانا چاہئے کہ متعلقہ افسروں یا کسی غیر جانب دار ٹربیونل کو اس بات سے مطمئن کرے کہ کاروباری فریق سؤتدبیر بے احتیاطی کا مرتکب ہواہے۔ یہ افسر ٹریبونل کاروباری فریق کے عذدات سننے کے بعد کوئی فیصلہ دے جس کی تعمیل دونوں فریقوں کے لئے ضروری ہو۔ قانونی تحفظات کے ذریعہ اس بات کا اہتمام کیا جائے گا۔بینکوں کو کاروباری فریقوں سے ان کا دیا ہوا سرمایہ وقت مقررہ پر حساب کے مطابق مع نفع یا نقصان واپس مل جاسکے، بینک کاروباری فریقوں کو سرمایہ دیتے وقت ان سے ضمانت لینے کا طریقہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ ضمانت میں کاروباری اداروں کے اثاثے، غیر منقولہ املاک اور بینکوں اور اونچی ساکھ کے کاروباری اداروں کے تحریری کفالت نامے قبول کئے جاسکیں گے۔

آگے چل کر مزید تفصیلات میں اس بابت لکھتے ہیں کہ کاروباری فریق شرکت کے اس معاہدہ کے بعد دیگر ذرائع سے قرض، شراکت کرسکتاہے۔ ڈاکٹرصاحب اس بات کے حامی ہیں کہ وہ قصیر المیعات (Short Term) قرضہ ملیں مگر طویل المفیات (Long Term) قرضہ لینے کی اجازت نہ ہوگی۔ کاروباری فریق مضاربت کے اصولوں پر دوسرے اصحاب سرمایہ سے سرمایہ حاصل کرسکتاہے اپنا ذاتی سرمایہ بھی لگا سکتاہے کاروبار کی مجموعی سرمایہ کے حدود میں رہتے ہوئے ادھار مال خریدنے اور فروخت کرنے کی اجازت ہوگی۔ کاروبار کی تفصیلات میں کاروباری فریق کو آزاد چھوڑنا چاہئے مگر کاروبار کی نوعیت اصولاً طے کرلینی چاہئے ہیں یہ تو وہ صورتیں یا تحفظات تھے جو غیر اسلامی معاشرہ میں بینکوں اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کے لئے رکھنے پڑیں گے۔ ان ہی تحفظات کی پیچیدگیوں کے پیش نظر اکثر معیشت دان مضاربت کو عملی طورپر قابل قدر ذریعہ تمویل نہیں سمجھتے۔

اس ذمن میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیںکہ نفع کی تقسیم میں چونکہ کاروباری فریق بینک کے مضاربت سرمائے کے ساتھ دیگر شراکت سرمائے، طویل المیعاد قرض بھی شامل کرسکتاہے۔ چونکہ کاروباری فریق کو کاروبار کے شروع میں اور کاروبار کی وسعت کے لئے درمیان میں بھی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں نفع کی تقسیم مختلف مثالوں سے وضع کردی گئی ہیں۔

بینک اور کاروباری فریق کے درمیان نفع کی تقسیم:

اب ہم بینک اور کاروباری فریق کے درمیان نفع کی تقسیم کا اصول واضح کرنے کے لئے مختلف مثالیں دیں گے۔ مختلف صورتیں ممکن ہیں، جن میں بعض درج ذیل ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ کاروباری فریق صرف بینک سے حاصل کردہ سرمایہ سے کاروبار کررہاہو اس کاروبار میں کوئی اور سرمایہ نہ لگایا گیاہو۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کاروباری فریق نے بینک سے حاصل کردہ سرمایہ کے علاوہ اسی کاروبار میں اپنا ذاتی سرمایہ بھی لگا رکھاہو۔

تیسری صورت یہ ہے کہ کاروباری فریق  نے بینک سے حاصل کردہ سرمایہ کے علاوہ اس کاروبار میں اپنی ذمہ داری پر قرض لے کر مزید سرمایہ لگایا ہو۔

چوتھی یہ ہے کہ کاروباری فریق نے بینک سے حاصل کردہ سرمایہ کے علاوہ کسی اور صاحب سرمایہ سے مضاربت کے اصول پر مزید سرمایہ حاصل کرکے اسی کاروبار میں لگارکھا ہو۔

پانچویں صورت یہ ہے کہ کاروباری فریق نے جس کاروبار میں بینک سے مضاربت کے اصول پر سرمایہ لے کر لگایا ہو وہ کاروبارکسی اور کاروباری فریق کے ساتھ شرکت میں کررہاہو اور اس کاروبار میں بینک کے فراہم کردہ سرمایہ کے علاوہ اس کے شریک کا سرمایہ بھی لگاہوا ہو۔

آخری صورت یہ ہے کہ مذکورہ بالا مختلف صورتیں ایک ساتھ پائی جائیں۔ یعنی جس کاروبار میں بینک سے حاصل کردہ سرمایہ لگایا جارہاہو اس میں کاروباری فریق کا ذاتی سرمایہ، اس کے شریک کاروبار کا سرمایہ اور کسی دوسرے صاحبِ سرمایہ سے مضاربت کے اصول پر حاصل کیا ہوا سرمایہ بھی لگایا گیا ہو۔

ذیل میں ان تمام صورتوں میں نفع کی تقسیم اور نقصان کی ذمہ داری مختصراً واضح کی جائے گی۔ واضح رہے کہ ان تمام صورتوں میں بینک سے حاصل کردہ سرمایہ مضاربت کے اصول پر حاصل کیا گیا ہے نہ کہ مشارکت کے اصول پر۔ تمام صورتوں میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ بینک سے رقم اس شرط پر حاصل کئے گئے ہیں کہ اس سرمایہ سے حاصل ہونے والے نفع کا نصف بینک کو ملے گا اور نصف کاروباری فریق کو۔

١۔         پہلی صورت میں اگر کاروبارمیں دس ہزار روپیہ کا نفع ہوتاہے تو اس سے پانچ ہزار کاروباری فریق کے ملے گا اور باقی پانچ ہزار مع ایک لاکھ اصل سرمایہ کے بینک کو واپس مل جائے گا۔ اگر اس کاروبار کے نتیجے میں دس ہزار کا نقصان ہوتا ہے اور سرمایہ گھٹ کر نوے ہزار رہ جاتاہے تو بینک کو صرف نوے ہزار واپس ملے گا یعنی دس ہزار روپے کا پورا نقصان بینک کو برداشت کرنا ہوگا۔ کاروباری فریق کو نہ کچھ ملے گا، نہ اس سے کچھ لیا جائے گا۔ اگر بینک نے نفع کی تقسیم کے لئے کوئی اور نسبت طے کی ہو، مثلاً بینک حصہ ٤٠ فیصد اور کاروباری فریق کا حصہ ٦٠ فیصد یا اس کے برعکس، تو نفع کی تقسیم طے شدہ نسبت کے مطابق ہوگی۔ مگر نقصان کی صورت میں سارا نقصان بینک برداشت کرے گا۔ مضاربت میں نقصان ہمیشہ صاحب سرمایہ کو برداشت کرنا پڑتاہے۔ اس اصول پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بینک اور کاروباری فریق کے درمیان معاہدہ مضاربت میں نفع کی تقسیم کے لئے کیا نسبتیں طے پائی ہیں۔

٢۔دوسری صورت میںکاروباری فریق بینک سے حاصل کردہ ایک لاکھ کے علاوہ اپنے پاس سے بھی ایک لاکھ کا سرمایہ لگاتاہے اور دو لاکھ کے سرمایہ سے کاروبارکرتاہے۔ فرض کیجئے کہ اس کاروبار میں بیس ہزار کا نفع ہوتاہے۔ اس نفع کو پہلے مجموعی سرمایہ پر تقسیم کیاجائے گا، پھر بینک کے سرمایہ پر آنے والے نفع میں سے نصف بینک کو دیا جائے گا، باقی نفع کاروباری فریق کو ملے گا۔ چنانچہ پندرہ ہزار کاروباری فریق کا حصہ نفع ہوگا۔ اور پانچ ہزار بینک کا حصہ نفع ہوگا۔ بینک کو اس کا دیا ہوا سرمایہ واپس مل جائے گا اور کاروباری فریق اپنا لگایا ہوا سرمایہ واپس پائے گا۔ کاروباری فریق کو جو پندرہ ہزار نفع ملا ہے اس میں سے دس ہزار اس کے اپنے سرمایہ کا نفع ہے اور پانچ ہزار بینک سے حاصل کئے ہوئے سرمایہ پر آنے والنے نفع میں سے اس کا حصہ ہے جو اس سرمایہ کے ذریعے کامیابی کے ساتھ کاروبار کے صلے میں اسے ملا ہے۔

اس کاروبار میں اگر بیس ہزار کا نقصان ہو تو دس ہزار کا نقصان بینک برداشت کرے گا اور دس ہزار کا نقصان کاروباری فریق برداشت کرے گا۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا جاچکا ہے نقصان سرمایہ میں کمی کا نام ہے اور اسے اصحاب سرمایہ اپنے سرمایہ کی مقدار کی نسبت سے برداشت کرتے ہیں۔

٣۔تیسری صورت میں کاروباری فریق بینک سے حاصل کردہ ایک لاکھ کے علاوہ ذاتی ذمہ داری پر قرض لے کر ایک لاکھ کا مزید سرمایہ کاروبار میں لگاتاہے۔ کاروبار کے نقطہ نظر سے اس سرمایہ کی حیثیت اس کے ذاتی سرمایہ کی ہوگی اور نفع ونقصان مذکورہ بالا  دوسری صورت کے مطابق تقسیم پائے گا۔ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان، قرض کی واپسی کی ذمہ دار کاروباری فریق ہوگا۔ اگر کاروبار کے نتیجے میں دو لاکھ کا سرمایہ بڑھ کر دو لاکھ بیس ہزار ہوجائے۔ یعنی بیس ہزار کا نفع ہو، تو ایک لاکھ پانچ ہزار بینک کو ملیں گے اور ایک لاکھ قرض واپس کردیتے کے بعد پندرہ ہزار کاروباری فریق کا نفع شمار ہوگا۔ اگر کاروبار میں خسارہ ہو اور دو لاکھ کا سرمایہ گھٹ کر ایک لاکھ اسی ہزار رہ جائے تو بینک کو نوے ہزار واپس ملیں گے اور باقی نوے ہزار میں دس ہزار اپنے پاس سے ملا کر کاروباری فریق کو اپنا لیا ہوا قرض ادا کرنا ہوگا۔ قرض کی ادائیگی کا ذمہ دار کاروباری فریق ہے، بینک اس کی اس ذمہ داری میں شریک نہیں۔

٤۔چوتھی صورت میں بینک سے حاصل کئے ہوئے ایک لاکھ اور کاروباری فریق کے ایک لاکھ کے علاوہ کسی دوسرے صاحب سرمایہ سے ایک لاکھ روپیہ مضاربت کے اصول پر حاصل کئے گئے ہیں اور کاروبار تین لاکھ کے سرمایہ سے کیا جارہاہے۔ فرض کیجئے کہ اس صاحب سرمایہ سے بھی یہی طے پایا ہے کہ اس کے سرمایہ پر آنے والے نفع میں نصف کاروباری فریق کو ملے گا اور نصف صاحب سرمایہ کو۔ اگر اس کاروبار میں تیس ہزار کا نفع ہوتاہے تو اس میں سے بیس ہزار کاروباری فریق کو ملیں گے، پانچ ہزار بینک کو اور پانچ ہزار صاحب سرمایہ کو۔ بینک، کاروباری فریق اور صاحب سرمایہ کو اپنے اصل سرمائے بھی واپس مل جائیں گے۔ تقسیم کا اصول اس صورت میں بھی یہی ہے کہ پہلے مجموعی نفع کو مجموعی سرمایہ پر تقسیم کیا جائے گا۔ پھر بینک اور دوسرے صاحب سرمایہ کے سرمایوں پر آنے والنے نفع میں سے کاروباری فریق کا حصہ طے شدہ شرط کے مطابق نکالا جائے گا۔ اگر مضاربت کے معاہدے میں نفع کی مساوی تقسیم کی بجائے کوئی دوسری نسبت طے پائی ہو تو اس کے مطابق حصہ نکالا جائے گا۔

اس کاروبار میں اگر تیس ہزار کا نقصان ہو تو یہ نقصان تینوں سرمایوں پر ان کی مقدروں کی نسبت سے تقسیم پائے گا۔ بینک کاروبار فریق اور دوسرے صاحب سرمایہ ہر ایک کو اپنے سرمایوں میں دس ہزار کا نقصان ہوگا اور ہر ایک کو صرف نوے ہزار واپس ملیں گے۔ بینک اور دوسرے صاحبِ سرمایہ کے نقصان کا کوئی حصہ کاروباری فریق کو نہیں برداشت کرنا ہوگا۔

٥۔پانچویں صورت یہ ہے کہ کاروباری فریق بینک سے مضاربت کے اصول پر ایک لاکھ روپے حاصل کرے اور بینک کی اجازت  سے، اس سرمایہ کے ذریعے ایک دوسرے کاروباری فریق کے ساتھ شریک کا معاہدہ کرے۔ دوسرا کاروباری فریق بھی ایک لاکھ کا سرمایہ لگاتاہے اور کاروبار کے نفع میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔ بینک اور کاروباری فریق کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ کاروباری فریق کو جو نفع ہوگا اس کا نصف بینک کو ملے گا اور نصف کاروباری فریق کو۔ اس کاروبار میں اگر بیس ہزار کا نفع ہوتاہے تو اس میں سے دس ہزار دوسرے کاروباری فریق کو ملیں گے جس نے شرکت کے اصول پر ایک لاکھ کا سرمایہ فراہم کیا ہے اور پانچ ہزار کاروباری فریق کو ملیں گے جس نے بینک کے سرمایہ کے ذریعے شرکت میں کاروباری جدوجہد انجام دی ہے۔

اس کاروبار میں اگر بیس ہزار کا نقصان ہوتا تو دس ہزار کا خسارہ بینک کو برداشت کرنا ہوتااور دس ہزار دوسرے کارباری فریق کو جس نے شرکت کے اصول پر سرمایہ فراہم کیا تھا۔ پہلے کاروباری فریق کو، جس نے سرمایہ نہیں لگایا ہے، نقصان نہیں برداشت کرنا پڑتا۔ البتہ وہ اپنی کاروباری جدوجہد کا کوئی صلہ بھی نہ پاتا۔

مذکورہ بالا صورت میں یہ بالکل جائز ہوتاہے کہ پہلے کاروباری فریق اور اس کے شریک کے درمیان سرمایہ کی مساوات کے باوجود، یہ طے پاتا کہ نفع میں سے پہلے کاروباری فریق کو ایک تہائی ملے گا اور اس کے شریک کو دوتہائی ہر صورت میں بینک کو اس نفع میں سے طے شدہ نسبت کے مطابق حصہ ملتاہے جو کاروباری فریق کے مجموعی نفع میں سے پچاس فیصد دوسرے کاروباری شریک نسبت کے مطابق حصہ ملتا جو کاروباری فریق کو اپنے شریک سے از روئے معاہدہ ملتا۔ یہ بھی درست ہوتاہے کہ معاہدہ س شرط پر کیا جاتاکہ کاروباری فریق کو اپنے شریک سے از روئے معاہدہ ملتا۔ یہ بھی درست ہوتاہے کہ معاہدہ اس شرط پر کیا جاتاکہ کاروبار کے مجموعی نفع میں سے پچاس فیصد دوسرے کاروباری شریک کو پچیس فیصد بینک کو اور پچیس فیصد بینک کو اور پچیس فیصد بینک سے مضاربت پر سرمایہ حاصل کرنے والے فریق کو ملے گا۔ یہ فیصد حصے س سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں جو اس مثال میں مذکور ہیں۔

٦۔آخری صورت کی مختلف مثالیں ممکن ہیں کیونکہ یہ صورت پہلی چند صورتیں کو باہم ملانے سے بنتی ہے۔ نفع کی تقسیم کا اصول سمجھنے کے لئے ذیل کی ایک مثال کافی ہوگی۔

کاروباری فریق نے ایک لاکھ کا سرمایہ خود لگایا ہے اور ایک لاکھ کا سرمایہ اس کے شریک کاروبار عمر نے لگایا ہے۔ مشترکہ کاروبار کی جانب سے مضاربت کے اصول پر ایک لاکھ روپے بینک سے حاصل کئے گئے ہیں اور ایک لاکھ روپے ایک دوسرے صاحب سرمایہ زید سے حاصل کئے گئے ہیں۔ بینک اور زید سے یہ طے پایا ہے کہ ان کے فراہم کردہ سرمایوں پر آنے نفع کا نصف انہیں ملے گا اور نصف کاروبار کرنے والوں کو۔ کاروباری فریق اور عمر کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ وہ مشترکہ کاروبار کے مجموعی منافع میں برابر کے شریک ہوں گے۔ یہ مشترکہ کاروبار چار لاکھ کے مجموعی سرمایہ سے کیا جاتاہے۔ اگر کاروبار میں چالیس ہزار کا نفع ہوتاہے تو بینک کو پانچ ہزار، زید کو پانچ ہزار، عمر کو پندرہ ہزار اور کاروباری فریق کو پندرہ ہزار ملیں گے۔ نفع کی تقسیم کا اصول یہ ہے کہ پہلے کل نفع کو کل سرمایہ پر تقسیم کیا گیا۔ پر ایک لاکھ پر دس ہزار کا نفع ہوا۔ معاہدہ مضاربت کے مطابق زید اوربینک کو اس نفع کا نصف یعنی پانچ ہزار فی کس ملا، باقی تیس ہزار مشترکہ کاروبار کے مجموعی منافع ہیں جو حسب معاہدہ عمر اور اس کے شریک کاروبار کے درمیان مساوی طورپر تقسیم پائے۔اس کاروبار میں اگر چالیس ہزار کا خسارہ ہوتا تو یہ خسارہ بینک، زید، عمر اور کاروباری فریق کو برداشت کرنا ہوتا کیونکہ ان کے سرمائے برابر ہیں۔

بینک کے نقطہ نظر سے ان تمام صورتوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ اگر کاروبار میں نقصان ہو تو بینک کو اپنے فراہم کردہ سرمایہ کے حصے میں آنے والے نقصان کو پورا کا پورا برداشت کرنا ہوگا۔ اگر کاروبارمیں نفع ہو توبینک کو اپنے سرمایہ کے حصے میں آنے والے نفع میں سے طے شدہ نسبت کے مطابق کاروباری فریق کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ مذکورہ بالا مثالیں ہم نے صرف یہ واضح کرنے کے لئے دی ہیں کہ اس اصل پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ جس کاروباری فریق کو بینک نے مضاربت کے اصول پر سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کاروبار کی نوعیت اور وسعت کیا ہے۔ یعنی اس میں دوسرے سرمائے بھی لگے ہوئے ہیں یا نہیں۔

مذکورہ بالا صورتوں میں کاروباری فریق کی طرف سے لئے ہوئے قصیر المیعاد قرضوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیاہے۔ نفع اور نقصان کا حساب لگانے سے پہلے یہ قرضے ادا کردیئے جائیں گے اور نفع اور نقصان کے حساب میں ان قرضوں کو کاروبار کے سرمایہ میں نہیں شامل کیا جائے گا۔ نفع یا نقصان کا فیصد صرف اصل سرمایہ اور طویل المیعاد قرض کی بنیاد پر معلوم کیا جائے گا جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں۔ تھوڑی مدت کے لئے، لئے جانے قرضوں کی حیثیت روز مرہ کے ادھار لین دین کی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادھار لین دین سے کاروبار کو وسعت حاصل ہوتی ہے اور نفع کا امکان بڑھتاہے۔ لیکن یہ ادھار لین دین اس اصل سرمایہ کی بنیاد پر اور اسی کے بھروسے پر کیا جاتاہے جو کاروبار کا اصل سہارا ہوتاہے۔ نفع ونقصان کا حساب اسی اصل سرمایہ کی بنیاد پر کیا جاتاہے۔ یہی حال تھوڑی مدت کے لئے ، لئے جانے والے (عموماً چھوٹی مقدار کے) قرضوں کاہے۔ ان کی بدولت کا روبار کو وسعت حاصل ہوتی ہے اور نفع کمانے کے مواقع بڑھتے ہیں۔ لیکن نفع ونقصان کا حساب کرتے وقت ان کو ”سرمایہ” میں نہیں شامل کیا جائے گا۔

بینک کی جانب سے اپنے سرمایہ کے ذریعے دوسرے سرمایہ کاروباری افراد اور اداروں کے ساتھ شرکت کی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ اس کاروبار میں بینک اور اس کے شریک کے سرمایوں کے علاوہ مضاربت پر حاصل کیا ہوا سرمایہ، شرکت کے اصول پر حاصل کیا ہوا سرمایہ، یا طویل المیعاد قرض سرمایہ شامل ہو۔ ان تمام صورتوں میں نفع کی تقسیم کا اصول مختلف مثالوں کے ذریعے واضح کیا جاسکتاہے۔ لیکن مذکورہ بالاآخر صورت پر غور کرنے سے بھی یہ اصول آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتاہے۔ اصول یہ ہے کہ جو کاروبار شرکت عنان کے اصول پر کیا جارہاہو اور اس میں مضاربت اور قرض سرمایہ بھی تمام شرکاء کی رضا مندی سے حاصل کرکے لگایا گیا ہو اس کے مجموعی منافع میں سے پہلے مضاربت اور قرض سرمایہ بھی تمام شرکاء کی رضامندی سے حاصل کرکے لگایا گیا ہو اس کے مجموعی منافع میں سے پہلے مضاربت پر سرمایہ فراہم کرنے والوں کو ان کا حصہ نفع ادا کیا جائے گا۔ پھر باقی نفع شرکاء کاروبار میں طے شدہ نسبتوں کے مطابق تقسیم پائے گا۔ نقصان کی صورت میں وہ قرض جو مشترکہ کاروبار کی جانب سے لیا گیا تھا پورے کا پورا ادا کیا جائے گا۔ مضاربت کے سرمایوں کو صرف اسی قدر کمی کے ساتھ واپس کیا جائے گا جو مجموعی سرمایہ کو کل سرمایہ شرکت، مضاربت اور قرض کی بنیادوں پر حاصل کردہ سرمایہ پر تقسیم کرنے سے مضاربت کے سرمایہ کے حصے میں آتاہو، باقی خسارہ مشترکہ کاروبار کا خسارہ ہوگا جسے شرکاء اپنے فراہم کردہ سرمایوں کی نسبت سے برداشت کریں گے۔ ہماری تجویز کے مطابق بینک کسی ایسے کاروبار میں شرکت پر سرمایہ نہیں لگائے گا جس میں طویل المیعاد قرض سرمایہ بھی لگایاجارہاہو۔ اس لئے شرکت کے سرمایہ کے علاوہ صرف مضاربت پر حاصل کیا ہوا سرمایہ لگایا جاسکے گا جس کے نفع اور نقصان کی تقسیم کا اصول مذکورہ بالاآخری صورت میں واضح کیا جاچکاہے۔ شرکت کی جانب سے لئے ہوئے قصیر المیعاد قرضوں کا حکم دہی ہے جو اوپر مضاربت کی صورت میں واضح کردیا گیاہے۔

مشارکت :

مشارکت کا بنکاری میں استعمال سے پہلے اس کی تعریف اور اقسام کو دیکھتے ہیں کہ ہمارے قدیم فقہائے کرام نے اس کی کیا تعریفیں کیا ہیں اور کیا اقسام بتائے ہیں اور ہمارے جدید فقہائے کرام اور اسلامی معیشت دانوں نے اس کو اس طرح جدید بنکاری میں استعمال کیا ہے۔

مشارکت کی تعریف:

”مشارکت ایک ایسا ذریعہ تمویل ہے جس میں شراکت کرنے والے ناصرف سرمایہ لگاتے ہیں بلکہ وہ کاروبار میں عملی طور پر شریک بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ پہلے سے طے شدہ تناسب سے نفع کے حصہ دار بھی ہوتے ہیں اور سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت بھی کرتے ہیں۔”

جدید اسلامی بنکاری میں مضاربت اور مشارکت میں فرق میں ڈاکٹر اوصاف احمد لکھتے ہیںکہ مضاربت اور مشارکت میں فرق یہ ہے کہ بینک مشارکت میں سو فیصد سے کم تمویل فراہم کرتاہے۔ اس طریقہ تمویل میں ایک یا ایک سے زائد افراد کسی مشروع کے لئے سرمایہ حاصل کرنے کے عرض سے اسلامی بینک کے پاس آتے ہیں بینک دوسرے کاروباری افراد کے ساتھ مل کر پروجیکٹ کے لئے درکار پورے سرمائے کا بندوبست کرتاہے۔ بینک اور دوسرے تمام شرکاء کو پروجیکٹ کے لئے انتظام وانصرام میں شامل ہونے کا حق ہوتاہے لیکن اگر کوئی شریک چاہے تو اپنے اس حق سے دستبردار ہوسکتاہے۔ نفع ایسے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا جو سب کی رضا مندی سے پہلے سے طے شدہ ہو۔ لیکن نقصان میں سب اسی تناسب سے شریک ہوں گے جو ان کے لگائے سرمائے کے درمیان ہوا(اوصاف ١٩٩٦) ۔

مشارکت اپنی حیثیت میں جدید بنکاری میں رائج جوائنٹ ونچر (Joint Venture) سے بہت قریب ہے۔ اس لئے یہ اسلامی بنکاری نظام میں کافی مقبول ہے اسلامی بنکاری نظام میں شراکت کسی دو اقسام کافی مقبول ہیں۔

١۔         مستقل مشارکت                            ٢۔         مشارکت متناقصہ

١۔         مستقل مشارکت:

اس طریقہ میں اسلامی بینک مختلف کمپنیوں کے حصص میں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں اور اپنے سرمائے کے تناسب میں نفع میں سے حصہ لیتے ہیں اس طرح کی شراکت میں معاہدہ جب تک جاری رہتاہے۔ جب تک شرکاء چاہیں۔

٢۔         مشارکت متناقصہ:

اس طرح کی شراکت میں شریک غالب کا حصہ بتدریج کم ہوتاجاتاہے اور بالاخر صفر ہوجاتاہے جبکہ دوسر شریک پروجیکٹ کا مالک بن جاتاہے۔عملی طور پر اردنی اسلامی بینک نے مشارکت متناقصہ کو تجارتی اور رہائشی عمارتوں کی تعمیر میں سرمایہ فراہم کرنے کے لئے کافی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ان منصوبوں کو اس بنیاد پر سرمایہ فراہم کیا جاتاہے۔ بینک کو شراکت دار کی حیثیت سے خالص منافع (Net Profit) کا ایک حصہ دیاجاتاہے اور اس کے ساتھ رأس المال کی ادائیگی کے لئے دوسرا حصہ دیاجاتاہے۔ جب بینک کی دی گئی رقم پوری ہوجاتی ہے تو فریق ثانی پروجیکٹ کا مکمل مالک بن جاتاہے اور بینک کا کوئی دعویٰ باقی نہیں رہتا۔

مشارکت متناقصہ اسلامی تمویل میں تجارتی اور رہائشی عمارتوں کی تعمیر کے لئے کافی قابل عمل شراکت ہے۔ اردنی اسلامی بینک نے مشارکت متناقصہ کو اس طرح استعمال کرتاہے کہ بینک اس بنیاد پر سرمایہ فراہم کرتاہے کہ بینک بحیثیت شراکت دار کے خالص منافع (Net Profit) کا ایک حصہ لیتاہے اور اس کے ساتھ رأس المال کی ادائیگی کے لئے اس کو  دوسرا حصہ دیا جاتاہے۔ اس طرح جب بینک کی دی ہوئی رقم پوری ہوجاتی ہے تو فریق ثانی پروجیکٹ کا مکمل مالک بن جاتاہے اور بینک کا کوئی دعویٰ اس پروجیکٹ پر باقی نہیں رہتا۔مشارکت اور مضاربت کے فرق کو اگر بینکاری نظام میں دیکھیں تو عملی طور پر اس کو بھی نفع/نقصان کھاتے (PLS Account) میں شامل کیا جاتاہے۔ اس میں اور مضاربت میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں نقصان کی صورت میں تینوں فریقوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور یہ کہ بینک کے حصہ دار یا کھاتہ دار بھی کاروبار میں عملی طور پر شریک ہوں ناممکن ہے اور نہ اس کیا جارہاہے(اوصاف ١٩٩٦) ۔

جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ بینک میں اسلامی تمویل میں شراکت کے تحت مضاربت زیادہ مقبول ہے اور شراکت میں چونکہ یہ شرط کہ کھاتہ دار بھی کاروبار میں شریک ہوں بالکل ناممکن ہے اس لئے اس ابہام کو دفع کرنے کے لئے مضاربت کو استعمال کیا جاتاہے۔ یا اس کے علاوہ ایک اور شراکت کی قسم جو کہ جدید معیشت دانوں کا اجتہاد ہے وہ مشارکہ ہے۔ مشارکہ مضاربت اور مشارکت کے باہم جمع ہونے کو کہتے ہیں جیسا کہ بینک کے حصہ دار باہم مشارکت کرتے ہیں جبکہ بینک کے کھاتہ دار مضاربت کے اصول پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اب دونوں کے سرمائے مل کر مشارکہ بن گیا۔ اس لئے بینک میں عام طور پر نہ مضاربت پائی جاتی ہے نہ مشارکت بلکہ اس کی بیچ کی چیز مشارکہ پائی جاتی ہے۔ اسی لئے اسلامی معیشت دان یہ اس کمی کو کہ کھاتہ دار کاروبار میں شریک نہ ہوں تو وہ مضاربت کھاتے میں رقم جمع کروائیں اور پبلک چاہے تو مضاربت کی بنیاد پر یا مشارکت کی بنیاد پر کاروباری فریق سے شراکت کا معاہدہ کرسکتی ہے۔

اب تک ہم نے شراکت اور قرض حسن کے طریقوں کو بینک کے لئے ذریعہ تمویل کے طور دیکھا کہ موجودہ دور میں اسلامی بنکاری ان سے کس طرح  استفادہ اٹھا رہی ہے۔

اب ہم دوسرے طریقہ تمویل کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ زیادہ تر بیچنے اور کرایوں کے معاہدوں میں استعمال ہوتاہے ان میں قابل ذکر طریقہ کار یہ ہیں:

١۔ مرابحہ                                   ٢۔ بیع مؤجل                    ٣۔ بیع سلم                       ٤۔ ایجارہ یا ایجار (Leasing)         ٥۔ استنائ

(مرابحہ یاSale for Mrkup) 

بیع کی تمام شکلوں کی طرح مرابحہ بھی دو افراد کے درمیان اشیاء کی خرید وفروخت کے لئے وضع کیا گیاتھا۔ اسلامی بنکاری نے اس طریقہ کو اپنے یہاں متبادل اسلامی طریقہ تمویل کے طور پر رائج کیا۔ شراکت کے امور میں واقع پیچیدگیوں سے مبرأ یہ نظام آسانی سے بنکاری نظام میں بڑی تبدیلی کے بغیر رائج ہوجاتاہے اس لئے ایک اندازہ کے مطابق اسلامی بینکوں کے مالیاتی اعمال ٨٠ سے ٩٠ فیصد تک مدابحہ مر مشتمل ہیں۔ مرابحہ کے جو اصول فقہہ کرام وضع کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

٭          جب بیع کا معاملہ ہو مذکورہ شے بیچنے والے کی ملکیت میں ہو۔

٭          شے بیچنے والا اس شے کو کتنے داموں میں خریدتاہے اس سے لینے والے کو آگاہ کرے۔

٭          اور اس سے بھی آگاہ کرے کہ وہ اس پر کتنا منافع لے گا۔

٭          اگر پہلے خریدار نے اشیاء کی خریداری کے بعد اس پر کچھ اور مصارف کئے ہوں۔ مثلاً مدت پر، نقل وحمل پر یا کسی اور مصرف میں تو اس کو بھی قیمت میں لگانا چاہتاہو تو وہ الگ سے اس کی صراحت کرے اور یہ بتائے کہ اصل قیمت اتنی تھی اورفلاں فلاں مد میں خرچ ہوئی اور اب اس کی مجموعی رقم پر وہ اتنا نفع طلب کرتاہے۔

٭          نفع کی شرح یا فارمولا پہلے سے طے اور متعین ہونا ضروری ہے۔

مرابحہ جو کہ اسلامی بنکاری میں سودی لین دین کے مقابلہ میں کافی مقبول ذریعہ تمویل ہے۔ جبکہ اسلامی تاریخ میں یہ زیادہ مقبول ذریعہ تمویل کبھی بھی نہیں رہا۔

اس کی وجہ یہ کہ مرابحہ کا استعمال سودی طریقہ سے کافی مماثلث رکھتاہے اور اس کی اوپر دی گئی شرائط پر عمل کرنا بنکاری نظام میں بہت مشکل ہوتاہے اس لئے خود اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں صراحیت سے ذکر ہے کہ ایسے ذریعہ تمویل زیادہ تر سود کو پچھلے دروازہ سے داخل ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ اور حیلے اور بہانے سے سود کی گنجائش پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں خاص کر کہ جب معاشرہ بھی غیر اسلامی ہو۔

مرابحہ کا استعمال بنکاری نظام میں کس طرح ہوتاہے تو اس کا طریقہ  کچھ یوںہے کہ اگر کوئی بیوپاری یا صنعت کار جو بینک کا گاہک ہو وہ کوئی شے مثلاً مشینری، خام مال وغیرہ خریدنا چاہتاہے۔ گاہک بینک کے پاس جاتاہے اور مشینری کی خریداری کے لئے پیسہ مانگتاہے۔ بینک پیسہ دینے کے بجائے مذکورہ شے کی صفات بازار میں موجودہ قیمت اور فراہم کاروں (Suppliers) کے بارے میں معلومات جمع کرتاہے۔ یہ کام بینک خود بھی کرسکتاہے اور اپنے کسی ایجنٹ سے بھی کرواسکتاہے۔ یہ تمام معلومات بینک گاہک کو فراہم کرنے کے ساتھ بینک درکار شے کی قیمت بمعہ منافع کے گاہک کو بتادیتاہے۔ اگر گاہک تمام شرائط سے متفق ہوجاتاہے تو گاہک بینک سے مرابحہ اعمال مکمل کرنے کی ایک درخواست کرے گا۔ بعض حالات میں معلومات اکھٹی کرنے کی ذمہ داری خود گاہک کو سونپی جاسکتی ہے اس صورت میں بینک کو اختیار ہوتاہے کہ وہ معلومات کو جوں کا توں قبول کرلے یا اپنے ذرائع سے ان کی تصدیق کرائے۔ معاہدہ ہونے کے بعد بینک مذکورہ شے کو بازار سے خریدے گا اور اس کی نقد ادائیگی کرنے کے بعد اس کی ملکیت اپنے ذمہ لے لے گا۔ اگر مذکورہ شے کی رجسٹریشن ضروری ہے (جیسے کار ومکان وغیرہ) تو رجسٹریشن بینک کے نام پر ہوگا۔

بینک کے نام مذکورہ شے کی ملکیت منتقل ہونے کے بعد گاہک اور بینک کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوں گے کہ شے مذکورہ کی خریداری قیمت یعنی قیمت  منافع سب واضح طور پر درج ہوںگے۔ یہ بیع قمیت کے التوا (Deffered of Payment)    کی بنیاد پر ہوگی۔ یہ ادائیگی یکمشت بھی ہوسکتی ہے اور بالا قساط بھی۔ قسطوں کی صورت میں ہر قسط کی داائیگی کی مدت یا تاریخ بھی طے کی جائے گی۔ یہاں یہ بات مدے نظر رہنی چاہئے ہے کہ وقت مقررہ پر عدم ادائیگی کی صورت میں بینک گاہک سے زیادہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ ورنہ وہ سود ہوجائے گا۔

مرابحہ کی خصوصیت یہ ہے کہ شراکت کی طرح کی پیچیدگیاں نہیں ہے دوسرا اس میں رقم قدرے محفوظ ہے اور منافع متعین ہے۔ اس لئے جب بینک کھاتے دار مرابحہ کھاتوں میں رقم جمع کروائیں گے تو ان کو اس پر ملنے والے منافع سے بینک فوری طور پر آگاہ کرسکتاہے۔ اب چاہے کاروباری فریق کو  نقصان ہویا فائدہ بینک کو وہ قیمت التواء پر مذکورہ رقم بمعہ نفع کے واپس کرنے کا مجاز ہوگا۔

مرابحہ کا استعمال

اسلامی مالیاتی اداروں میں مرابحہ مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتاہے مثلاً پیداوار افازائش پروگرام (Support Production Programme) قلیل مدت تمویل (Short term Financing) یا معاہدہ خرید وفروخت (Sale & Purchase Contrect)وغیرہ

مرابحہ کا استعمال جن زمروں میں کیا جارہاہے اس میں قابل ذکر زمرے یہ ہیں صارفین کی اشیاء کی خریداری کے لئے مثلاًکار، ریفریجریٹر، ائیرکنڈیشن، مکان یا دیگر قیمتی سامان مرابحہ کا استعمال زیادہ تر کم سرمایہ والی اشیاء اور قلیل مدت کے لئے استعمال کیا جاتاہے آراضی اور عمارتوں کی خریداری کے لئے مرابحہ کا طریقہ اسی طرح ہے مگر فرق صرت اتنا ہے کہ معاہدہ کی لاگت میں اضافہ ہوسکتاہے۔ کیونکہ آراضی اور عمارتوں کا دوبارہ رجسٹریشن کرانے میںکافی خرچہ آجاتاہے۔ مرابحہ کا استعمال ان اشیاء پر بھی ہوتاہے جن پر رہن رکھا جاتاہے اور ان پر بھی ہوتاہے جن پر رہن نہیں رکھا جاتا۔ اردنی اسلامی بینک ان چیزوں کی خریداری کے لئے بھی سرمایہ فراہم کرتاہے جن کو رہن نہیں رکھا جاسکتاہے۔ جیسے گھریلو اشیاء اور دیگر چھوٹی موٹی اشیاء صرف فرق اتنا ہے کہ رہن کی جگہ ایک ایک وعدہ نوٹ (Permissory Note ) دیا جاتاہے جس کو مرابحہ کی شرط کے مطابق لکھا جاتاہے اس کے علاوہ مرابحہ کا استعمال بڑے پیمانے پر یردان قرض (Letter of credet) جاری کرنے کے لئے بھی کیا جارہاہے۔ اس کا طریقہ کار وہی ہے جو کہ آج کل سودی بنکاری نظام میں رائج ہے فرق اتنا ہے کہ گاہک اور بینک میں معاہدہ ہوجاتاہے یعنی وعدہ خریداری کے معاہدہ پر دستخط ہوجاتے ہیں اور غیر ملکی برآمدکنندہ کو پروانہ قرض کی نقول ملنے کے بعد برآمد کیاجانے والا مال بینک کے حوالے کردیتاہے۔ بینک اشیاء کا قبضہ لینے کے بعد گاہک (درآمدکنندہ) کے ساتھ بیع المرابحہ کا معاہدہ کرتاہے۔

اجارہ / اجارہ (Product Leasing)

اجارہ، پٹہ دار اور لیزنگ کے ناموں سے بھی مشہور ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اجارہ اسلام ذریعہ تمویل ہے جبکہ پٹہ داری اورلیزنگ غیر اسلامی اور سودی ذریعہ تمویل ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے تمویلی لیزنگ (Financial Leashing) بالکل ناجائز اور سودی ہے مگر (Product Leasing) چند شرائط کے ساتھ جائز ہیں اور اسی کو اجارہ کہتے ہیں۔ بیع مرابحہ اور اجارہ میں کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ موجر (Lessor) جو کہ کسی شے کو کرائے پر دے رہاہو اول اس کا مالک ہو دوم دوران استعمال اس کے نقصان کا ذمہ دار بھی ہو۔ سوم مستاجر (lesses) مذکورہ شے کرائے کی مدت ختم ہونے کے بعد خریدنے کا لازم ”مجاز” نہ ہو۔

اس کے علاوہ اجارہ لیزنگ کی طرح ایک معاہدہ یا لین دین کا طریقہ ہے جس میں کسی چیز کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہوئے اس کا استعمال اور حق انتفاع دوسرے کو ایک مقررہ مدت کے لئے فروخت کردیا جائے۔

اجارہ کا استعمال بھی مرابحہ کی طرح اسلامی بنکاری نظام میں استعمال کیا جارہاہے۔ اس کی وجہ بھی وہ ہی ہے جو مرابحہ کے لئے ہے بلکہ جتنے میں معاہدہ بیع ہیں اس میں یہ بات صادق آتی ہے کہ برخلاف نفع ونقصان میں شراکت کے اجارہ میں انتظامی مشکلات و دیگر پیچیدگیاں کم ہے اسی لئے اس کا استعمال بینکنگ نظام میں زیادہ کیا جارہاہے۔ اجارہ سے متعلق کچھ اسلامی معیشت دانوں کا خیال کہ اجارہ اور لیزنگ کے اداروں سے بینکنگ اور بلخصوص کارپوریٹ فائنائس کے مقاصد کی تکمیل بنیادی طورپر مسلمان فقہائے کرام کی ایجاد ہے ۔ ڈاکٹر غازی صاحب مزید کہتے ہیں مغرب میں یہ تصور ماضی قریب میں آیا ہے انگلستان میں آج سے پچاس سال قبل لیزنگ کا بطور ایک ادارہ سرمایہ کاری کوئی قابل ذکر تصور نہیں تھا وہاں یہ رواج ١٩٦٠ء کے عشرہ سے شروع ہوا اور بہت جلد اس نے کاروباری حلقہ میں مقبولیت حاصل کرلی۔ اس اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ ١٩٧٩ میں کا دوہزار ملین پونڈ کی لیزنگ ہورہی تھی جو کل سرمایہ کاری کا دس فیصد تھا۔

 غازی (١٩٩٧) دیگر اسلامی معیشت دانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلامی تمویلی نظام کو سرمایہ دارنہ نظام تمویل سے مماثل ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ(١٩٨١) میں لیزنگ کے دو طریقہ بیان کئے گئے ہیں ایک فائنائس لیزنگ (Finance Lease) اور دوسرا  آپریٹنگ لیز (Operating lease) کامل ادائیگی اجارہ (Finance lease) میں متاجر (Lessee) یا پٹہ پر رہنے والا موجر (Lessor) یا پٹہ دارکو اس کی ضرورت کا اثاثہ خرید کر کرایہ پر دینے کا معاہدہ کرتاہے۔ اس معاہدہ کے تحت ملکیت تو موجر کی اتنی ہے مگر اس پر قبضہ مساجر کاہوتاہے اور وہی اسے استعمال کرتاہے پٹہ دار پابندی سے اس اثاثے کا کرایہ ادا کرتارہتاہے اور وہی اس اثاثے کی دیکھ بھال، مرمت، خدمت اور بیچنے کا ذمہ دار ہوتاہے۔ کرایہ اس انداز سے مقرر ہوتاہے کہ موجر اصل مدت میں ہی اثاثے کی قیمت مع کچھ نفع کے وصول کرلیتاہے پٹہ دار کو یہ اختیار بھی ہوتاہے کہ وہ اثاثے کو ثانوی مدت کے لئے پٹہ پر لے اس ثانوی مدت میں کرایہ برائے نام رہ جاتاہے۔ عموماً پٹہ کی کل مدت پانچ سال سے پندرہ سال تک ہوتی ہے اس لئے کہ اثاثے عموماً اتنے ہی عرصہ تک کار آمد ہوتے ہیں۔ استعمالی پٹہ داری (Operating Lease) میں اثاثے کو مختصر مدت کے لئے کرایہ پر چلایا جاتاہے کرایہ سے ساری لاگت وصول نہیں ہوتی اسی لئے اسے غیر ادائیگی پٹہ داری بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ بعد میں کسی وقت یا تو سامان بیچ دیا جاتاہے یا پھر یکے بعد دیگرے اور افراد کو کرایہ پر دیا جاتارہتاہے اور اس طرح اس کی باقی لاگت نکال لی جاتی ہے۔

جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل رپورٹ  (١٩٨١)میں دیاگیا ہے کہ اجارہ میںبھی خطرہ ہے کہ وہ سود کو پچھلے دروازہ سے لانے کا سبب بنتی ہے۔ اجارہ کا استعمال بینک میں سہل تو ہے کہ اس میں بینک کاروباری فریق اور کھاتہ دار کو نقصان کا اندیشہ نہیں ہے اور منافع بھی سود کی طرح واضح ہے۔

بیع مؤجل:

بیع مؤجل بھی ایک کلاسیکی تکنیک ہے۔ اس کو عربی میں بیع بالثمن الاجل بھی کہتے ہیں یعنی ایسا سودا جس میں قیمت کی ادائیگی تاخیر سے کی جائے۔ اسلامی فقہ کی رو سے ایسی بیع جائز قرار دی جاتی ہے جس میں شے کی ادائیگی تو فوری طورپر کی جائے لیکن قیمت کی ادائیگی کو ایک مقررہ مدت تک ملتوی کردیا جائے۔ فقہا کی رائے میں ایسی صورت میں زیادہ قیمت وصول کی جاسکتی ہے۔

کچھ اسلامی بینکوں میں سرمایہ فراہم کرنے کے لئے بیع مؤجل کا استعمال کیاجارہاہے۔ ان میں سے بینک اسلام ملائشیا قابل ذکرہے۔ ذکر یا مان کے بیان کے مطابق بینک اسلام ملائشیا میں بیع مؤجل کا استعمال مندرجہ ذیل طریقے سے ہوتاہے۔

”پہلے تو بینک گاہک کی ضروریات، مدت اور ادائیگی کے طریقے کا تعین کرتاہے۔ پھر بینک گاہک کو درکار چیز خریدتاہے اور اس کے ہاتھ طے شدہ قیمت پر فروخت کرتاہے۔ قیمت میںلاگت اور بینک کا منافع دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بینک کا منافع، مدت اور چیز کی نوعیت کے لحاظ سے متعین کیا جاتاہے۔”

پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی بیع مؤجل کو سودی قرضوں کا ایک متبادل تسلیم کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کونسل نے خبردار کیا ہے کہ اس طریقہ کار کو احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہئے ورنہ پچھلے دروازوں سے سود کے در آنے کا اندیشہ ہوسکتاہے۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان میں تجارتی بینک کثرت سے بیع مؤجل کا استعمال کرتے ہیں۔

براہ راست سرمایہ کاری (Direct Invectment)

عام تجارتی بینکوں کے برخلاف، اسلامی بینک اپنے مالی وسائل کی براہ راست سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ اس صورت میں اسلامی بینک، مالیاتی ثالثی کے ایک ادارہ کے بجائے ایک سرمایہ کار کمپنی کی حیثیت سے کام کرتاہے۔ عام تجارتی بینکوں کے مقابلہ میں، اسلامی بینک براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعہ سماجی فلاح وبہبود کے کام میں زیادہ سرگرمی دکھاسکتے ہیں۔ اسلامی بینکوں کویہ موقع حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے منصوبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کرسکیں۔ وہ وسائل کو اس طرح کام میں لاسکتے ہیں جس کو وہ زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔

براہ رست سرمایہ کاری کے کئی طریقے ہیں۔ زیادہ تر اسلامی بینکوں کے ذیلی کمپنیاں قائم کی ہیں۔ نظریاتی طور پر کسی بھی قسم کی کمپنی قائم کی جاسکتی ہے لیکن اب تک اسلامی بینکوں نے سرمایہ کاری، بیمہ، تجارتی اور تعمیراتی کمپنیاں قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔

براہ راست سرمایہ کاری کا ایک دوسرا طریقہ دوسری قائم شدہ کمپنیوں کے حصص اور سرمایہ میں شرکت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بینک کسی پروجیکٹ کو اپناسکتے ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔

ایران میں اسلامی نظام بنکاری کے تحت تجارتی بینکوں کو معیشت کے کسی بھی زمرے میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ غیر سودی بینک کاری قانون ١٩٨٣ء کی شق نمبر٨ کے ذریعہ بینکو کو پیداوار اور ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کو کہا گیاہے۔ بشرطیکہ ان میں نقصان ہونے کی امید نہ ہو۔ یہ منصوبے ریاست کے سالانہ بجٹ کا ایک حصہ ہوں گے۔ اسی شق کے ذریعہ بینکوں کو سامان تعیش اور غیر ضروری اشیاء صرف کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے سے منع کیا گیاہے، اس کے ساتھ ہی براہ راست سرمایہ کاری پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں مثلاً ایرانی بینکوں کو نجی زمرہ کار کے ساتھ کسی منصوبہ میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

یہ تو تھا اسلامی معیشت دانوں کے وہ وضع کئے ہوئے طریقہ کار جس کے تحت وہ سودی دین کے بجائے بلاسودی قرض اور سرمایہ کاری کس طرح کرتے ہیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ محفوظات بینکوں کا آپس میں لین دین اور تمسکات (Securities) کی بابت اسلامی معیشت دان کیا فرماتے ہیں۔

محفوظات (Reserve Deposits)

اسلامی بینک اپنی ذمہ داریوں کا کچھ حصہ تو ہم نے دیکھا کہ بلاسودی قرضوں یا اسلامی تمویل کے وضع کردہ اصولوں کے تحت کاروباری فریق کو فراہم کرتاہے۔ مگر آیا بینک کچھ محفوظات بھی رکھاتاہے تاکہ اپنی روزمرہ کی لین دین کو پورا کرسکے اور اپنی اضافی ضرورت کے لئے مرکزی بینک میں بھی کچھ رقم محفوظ کرتاہے کہ نہیں۔

ان محفوظات کے حوالے سے جو واضح تصویر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں ملتی ہے اس کے تحت محفوظات کا تعلق ہے وہ ایسے ہی رکھے جائیں گے جیسا کہ سودی بنکاری نظام میں رائج ہیں کتنے فیصد محفوظات رکھیں جائیں گے اور ان کا تعین کون کرے گا اس کے بارے میں میری نظر سے کوئی واضح مواد نہیں گزرا۔ یہ کون طے کرے گا آیا مرکزی بینک یا کمرشل بینک خود جیسا کہ آجکل کمرشل بینک خود مختار ہوگئے ہیں کہ وہ اپنی صورتحال دیکھ کر اپنے محفوظات کا خود تعین کریں اسلامی بینک میں کمرشل بینک آیا خودمختار ہوگا یا مرکزی بینک کے زیر اثر رہ کر اپنے محفوظات رکھے گا اس کا بھی کوئی خاکہ اسلامی بینکاری  میں موجود نہیں ہے۔ ہاں مرکزی بینک کمرشل بینک کو  جو رقم فراہم کرے گا تاکہ وہ اپنی ناگہانی آفت سے نبردآزما ہوں اس پر بینک ریٹ Bank rate   یا سود  وصول نہیں کرے گا بلکہ رپورٹ کے مطابق بینک اور مرکزی بینک کے درمیان نفع ونقصان (PLS) کی بنیاد پر شراکت ہوگی۔ اس کی مزید تفصیل ہم مرکزی بینک کے حصہ میں دیکھیں گے۔

بینکوں کے مابین تعلقات:

کمرشل بینک عام پر آپس میں کچھ محفوظات رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت ایک بینک دوسرے ببنک سے  سود پر مالی امداد حاصل کرلیتے ہیں ۔ جسکو جدید بینک کی اصطلاح میں کال لون( call loan)کہتے ہیں ۔اس سے حاصل ہونے والا سود کال ریٹ (Call Rate)کہلاتا ہے۔سود کے حرمت کے باعث اسلامی نظریا تی کونسل کی رپورٹ کے مطابق یہ لین دین شراکتی بنیاد پر نفع ونقصان کے ہوگی اور یہ شراکت اور مدت کے  حساب سے  روز مرّکے حساب (Daily Produets of the amount) سے طے ہوں گے۔

مرکزی بینک سے تعلق:

مرکزی بینک سے تعلق کی تفصیل تو مرکزی بینک کے باب میں آئی مگر مختصر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میںاس سلسلہ میںلکھاہے کہ مرکزی بینک کمرشل بینک کو جو بھی مالیاتی خدمات پیش کرے گا اوہ سود کی جگہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہوگی۔

سکیورٹیز/ تمسکات (Securities)

تمسکات کی بابت بھی تفصیل تو ہم مرکزی بینک کے حصہ میں دیکھیں گے اس سلسلہ میں کمرشل بینک کے حصہ میں صرف اسلامی معیشت دان اتنا کہتے ہیں کہ تمسکات بلاسودی ہوں گی اور یہ بھی نفع ونقصان کی بنیاد پر ہوں گی۔

یہ تو تھا اسلامی کمرشل بینک کا مکمل جائزہ اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کھاتہ دار بینکوں کے علاوہ دیگر غیر کھاتہ دار بینک کس طرح اسلامی معیشت میں کام کریں گے۔

غیر کھاتہ دار بینک اور مالیاتی ادارے (Non Depositary Financial Institutions)

غیر کھاتہ دار مالیاتی ادارے تین نہج کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کسی خاص شعبہ میں اعانت کرتے ہیں جیسے صنعت، زراعت وغیرہ دوسرے انشورنس کمپنیاں ہوتی ہیں اور تیسرے وہ مالیاتی ادارہوتے ہیں جو تعمیرات میںمعاون ثابت ہوتے ہیں۔

غیر کھاتہ دار مالیاتی ادارے جو مخصوص شعبہ میں معاونت کرتے ہیں۔ ان میں دو شعبہ قابل ذکر ہیں۔ ایک صنعت اور دوسرا زراعت: چونکہ یہ ادارے حکومتی سرپرستی میں قائم ہوتے ہیں اس لئے ان اداروں کا مقصد اس شعبہ کی پیداوار بڑھانا ہوتاہے۔ اور چونکہ ان اداروں میں عموماً جو شیئر ہوتاہے اس میں کچھ حصہ ملکی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کا ہوتاہے اور کچھ حصہ بین القوامی مالیاتی اداروں کا۔

اگر ان مالیاتی اداروں کی بیلنس شیٹ پر نظر ڈالی جائے تو ذمہ داریوں (Liablities) میں الف)           ڈیسچرر Debantures جو وہ جاری کرتے ہیں۔

ب)        ملکی کرنسی میں حاصل کردہ طویل مدت قرضہ۔

ج)         غیر ملکی کرنسی میں حاصل کردہ قرضہ۔

د)          بینکوں سے قرضہ اور

ح)         مرکزی بینک سے قرضہ۔

جبکہ اثاثے Assets  اس امور پر مشتمل ہوتے ہیں:

الف)      دیسچرز (Debantures) کی خریداری

ب)        ملکی اور غیر ملکی کرنسی میں جاری کردہ قرضہ۔

ج)         دیگر بینکوں میں رکھے گئے محفوظات (Deposits)

یعنی ان اداروں کا اصل کام غیر ملکی اور ملکی مالیاتی اداروں سے سود پر قرضہ لے کر اس مخصوص شعبہ میں سود پر دے دیا جائے زیادہ تر یہ ادارے حکومتی معاونت پر چلتے ہیں ان کا مقصد محض منافع کا حصول نہیں ہوتا۔

اسلامی معیشت دان ان اداروں کی اہمیت کے قائل ہیں اس لئے ان کی حقیقت کو تبدیل کئے بغیر اس کو بلاسودی مالیاتی ادارے بنانا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں جو تجاویزات وہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں:

دینیچرز (Debentures) کی خرید وفروخت کا معاملہ ہے اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ سود کی جگہ جس آلہ کو رکھتی ہے وہ Participation term Certificates (PTC)  ہیں یا شراکت ہے۔یہ مالیاتی ادارے جو قرضہ جاری کرتے ہیں وہ نفع نقصان (PLS) شراکت، اجارہ، بیع مؤجل کی بنیاد پر ہوں گے۔ اب ان اداروں کے جو محفوظات کمرشل بینک میں جمع ہوتے ہیں جس کا زیادہ حصہ ٹائم ڈپوزٹ (Time Deposit) کی صورت میں اور کم حصہ جاری کھاتی کی صورت میں ہوتاہے جب کمرشل بینکوں سے سود کا خاتمہ ہوگا تو یہ ان محفوظات کو نفع ونقصان میں شراکت (PLS) کی بنیاد پر دیا جائے گا۔حکومتی قرضوں / امداد میں سود کی جگہ نفع نقصان میں شراکت اور PLS   کی خریداری کی جائے گی۔مرکزی بینک سے لئے گئے قرضوں میں بھی نفع ونقصان میں شراکت کو ہی اپنایا جائے گا۔

بیرونی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کے لئے رپورٹ میں کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے بس ان قرضوں کی جگہ متبادل بلاسودی قرضوں کو تلاش کیا جائے گا چونکہ یہ بہت مشکل عمل ہے کہ یہ ادارے بلاسودی قرضے فراہم کریں۔

انشورنس کمپنیاں (Insurance Companies)

انشورنس کا کاروبار بھی دیگر ذر کے بازار کے کاروبار کی طرح سود سے منسلک ہے مگر یہ کاروبار اس کے علاوہ دوسری خباثت یعنی قمار (Gabling) سے بھی آراستہ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ نے سود سے پاک انشورنس کے کاروبار کا تو متبادل پیش کیا ہے مگرقمار (Gabling) سے نجات کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا بلکہ اس سے سہو نظر ہی کیا غیر سود کے متبادل انشورنس کے دونوں طریقوں یعنی زندگی کا بیمہ (Life Insurance) اور عام بیمہ (General Incurance) کے بابت اسلامی معیشت دان اور رپورٹ درج ذیل متبادل پیش کرتی ہے۔

٭          انشورنس کا کاروبار کارپوریشن کے طریقہ کار پر وضع کیا جائے۔

٭          انشورنس کمپنی کو پریمیم کی مد میں جو رقم ملے اس کو نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر نفع بخش کاروبار میں لگایا جائے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع ارکان میں تقسیم کردیا جائے۔ اور یہ تقسیم سالانہ بھی ہوسکتی ہے اور انشورنس کے اختتام پر بھی ہوسکتی ہے۔ بقایا بچا ہوا نفع کو اس مقصد کے لئے رکھ لیا جاتاہے کہ وہ ہرجانہ (Claim) کے طور پر دیا جاسکے۔

٭          پرمیم کی عدم ادائیگی کی صورت میں شریک کو اپنے اصل سے محروم نہیں ہونا پڑے گا بلکہ اس کو یہ رقم انشورنس کے ختم ہونے کے وقت ملے گی۔

بہت سے فقہائے کرام تبادلی بیمہ(Mutual Insurance) کی حرمت کے قائل ہیں اس میں شریعی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔اس کا طریقہ کار یہ وضع کرتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے خطرات ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں وہ آپس میں مل کر ایک فنڈ قائم کرلیتے ہیںاور یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو کوئی حادثہ پہش آیا تو اس فنڈ میں سے اس کے نقصان کی تلافہ کی جائے گی۔ اس فنڈ میں صرف ممبر ان کی رقم ہوتی ہے۔اور نقصان کی تلافی بھی صرف ممبران کی حد تک ہوتی ہے۔ سال کے بعد حساب لیا جاتا ہے۔ اگر ادا کیے گئے معاوضات فنڈ کی رقم سے بڑھ جائیں تو اسی حساب سے ممبران سے مزید رقم وصول کرلی جاری ہے اور اگر فنڈ میں رقم بچ جائے تو ممبران کو واپس کردی جاتی ہے یا ان کی طرف سے آئندہ سال کے لئے فنڈ میں حصہ کے طور پر رکھ دی جاتی ہے۔7

آج کے دور میں جدید فقہائے کرام اور معیشت دان انشورنس کے کاروبار کے لئے جو متبادل استعمال کرتے ہیں اس کو تکافل (Takaful) سے تعبیر کرتے ہیں۔ تکافل کے معنی آپس میں صلح رحمی سے تعبیر کرتے ہیں۔ تکافل کے معنی آپس میں صلح رحمی کے جزبہ سے مسلمانوں کے درمیان تعلق جس کے زریعہ ان کو نفع پہنچے اور وہ نقصان سے بچ سکیں۔

تکافل اور انشورنس:

صدیقی(٢٠٠٢)اسلامی انشورنس (تکافل) کو قمار (Gambling)سے پاک قرا ر دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں قمار بازی در اصل ایک کھیل ہے جو کہ کسی فائدہ کے لئے کھیلا جاتاہے اور اس کھیل میں چانس (Chance) کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ مگر ان کا خیال ہے کہ وہ چانس جو آپ روزمرہ کی زندگی میں لیتے ہیں خاص کر کاروباری حضرات جن کو بڑے حادثہ کا خدشہ ہوتاہے وہ بھی کاروبار میں چانس لیتے ہیں مگر یہ چانس ان کے نزدیک اس قمار بازی کے چانس سے جدا ہے جو کہ وہ گھڑ دوڑ، تاش بازی اور پاسہ پھیکنے کے کھیل میں لیتے ہیں۔

آج کا دور سے متعلق جدید اسلامی معیشت دان مغربی فلسفیوں اور معیشت دانوں کے اس تصور کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ دنیا آج کل ایک اکائی کی صورت ایک قصبہ کی صورت اختیار کرگئی ہے اس دور جدید میں انشورنس کے بغیر کاروبار کیا زندگی بھی ناگزیر ہے۔

کاروبار اور عام زندگی میں خطرہ (Risk) اور غیر متوقع (Uncertainity) صورتحال کو کم کرنے کے نتیجہ میںہی کاروبار کو فروغ اور زندگی کو قدرے محفوظ بنایا جاسکتا ہے اس کو جدید دور میں انشورنس کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے۔ اور جب سے اسلامی تمویلی اداروں کو فروغ ملا ہے۔ اس وقت سے اسلامی انشورنس کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اسلامی معیشت دان اس بات پر مصر ہیں کہ اسلامی تمویلی آلات کی موجودگی میں کاروبار کو مکمل اسلامی بنانے کے لئے اسلامی انشورنس ناگزیر ہے۔ وہ قرآن اور حدیث النبی  ۖ کے حوالے سے اسلامی انشورنس میں پائے جانے والے چانس کو جائز ثابت کرتے ہیں۔ اور تکافل کے ذریعہ اس کو جائز اور ضروری تصور کرتے ہیں۔

انشورنس جس میں پریمیم (Premium) کی ادائیگی تو ضروری ہے مگر اس سے حاصل ہونے والی رقم اس واقعہ / حادثہ سے منسلک ہے جو کہ غیر متوقع بھی ہے اور اس کے بہت کم  ہونے کے چانسز (Chances) بھی ہیں۔

تکافل کے نظریہ کے تحت بہت سارے افراد یا گروہ کسی بھی واقعہ حادثہ کی صورت میں اپنے بھائی کی مدد کرتے ہیں اس طرح کاروبار میں پایا جانے والا نقصان بہت سارے لوگوں میں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے سبب کسی ایک پر نقصان کے اثرات کم پڑتے ہیں۔ اس کا طریقہ کا ر تجارتی بیمہ سے مماثل ہے،  اس طرح کہ تکافل کمپنیاں قائم کی جاتی ہیں ان کمپنیوں میں ہر بیمہ دار کمپنی کا شیئر ہولڈر بھی ہوتاہے۔ کمپنی اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگا کر اس سے نفع اپنے  شیئر ہولڈز  میںاس کو تقسیم بھی کرتی ہے اور کمپنی ہی کے ایک ریزو فنْد سے بیمہ داروں کے نقصان کی تلافی بھی کی جاتی ہے۔   آگے چل کر ہم یہ بات اٹھائیں گے کہ سرمایہ درانہ معاشرہ میں جہاں منافع محض اصل کاروبار کا منمع نظر ہو وہاں تکافل کے لئے جزبات کہاں سے لائے جائیں گے۔ جب کہ خود تکافل(انشورنس) کمپنی بھی اسی مقصد کے تحت کاروبار کررہی ہوں۔

اشیا ء صرف کی مالیات     (Consumer Financing):

مکانوں کی مالیات مکانوں کی تعمیر یا تعمیر شدہ مکانوں کے لئے فراہم کی جاتی ہے۔ جو کہ جدید مالیاتی نظام میں سودی قرضہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ نے سود کے متبادل کے طور پر جو طریقہ وضع کیا ہے اس کی رو سے جو رقم مکانوں کی خریداری یا تعمیر کے لئے دی جائے گی وہ باہم مالکانہ حقوق (Joint Ownership) کی بنیاد پر کرایہ کی مد میں دی جائے گی۔ کہ ناصرف خریدار اس اصل کو واپس کرے گا بلکہ اس بلڈنگ کو جو کرایہ باہم طے کیا جائے گا وہ بھی ماہانہ دیا جائے گا مگر یہ کرایہ  تین سال بعد دوبارہ متعین کیا جائے گا اور اسی سے اصل بھی منہا ہوتاجائے گا۔مکانوں کی مالیات میں مجودہ دور میں اجارہ کو بطور متبادل استعمال کیا جارہا ہے۔اجا رہ میں کریہ اور اصل دونوں کو دیے گئے عرصہ میں اداکرنا ہوگا۔کرائے کی شرح متعین کرنے کے لیے مارکیٹ شرح سود کو ہی پیمانہ لیا جاتا ہے۔ مکا نوں مالیات کو آج کے دور میں صارف کی تمویل کا حصہ ہے اور یہ عام کمرشل بینک بھی اسکی مد میں قر ضہ دے سکتا ہے۔مکا نات کی مالیات ہو یا دیگر صرف کی جانے والی اشیاء کی مالیات ہو اس میں اجارہ کو  بطور آلہ  زیادہ تر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ اشیاء صرف چاہے جامد ہوں یا متحرک ان کو نا گہا نی آفات سے بچانے کے لیے انشونرنس کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔اس انشورنس کا متبادل تکا فل رکھا گیا ہے مگر ابھی تک یہ متبادل کامیابی سے تمام جگہ قابل عمل نہیں ہوا ہے ۔ پاکستان  میں  اسلامی  بینکوںمیں اب تک انشورنس کو ہی گاڑیوں کی تمویل میں استعمال کیا جارہا ہے ۔

    مرکزی بینک :

مرکزی بینک اور زری پالیسی کے بارے میں اسلامی معیشت دانوں نے بہت کم لکھا ہے۔ سب سے زیادہ تفصیل جو مجھے ملی ہے وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ اور ڈاکٹر نجات اﷲ صدیقی کی غیر سودی بینک کاری میں ملی ہے۔اس میں بھی نوٹوں کے اجراء اور اسکی تشکیل پر کوئی بھی سیر حاصل بحث نہیں پائی جاتی۔

 اعمال و وظائف:

عام طور پر اسلامی معیشت دان خیال کرتے ہیں کہ غیر سودی نظام معیشت میں بھی مرکزی بینک وہی معروف وظائف ادا کرے گا جو جدید نظام بینک کاری میں ادا کرتاہے۔ وہ کرنسی نوٹ جاری کرے گا حکومت کا بینک ہوگا جس میں حکومت کھاتے کھولے گی۔ بیرونی ممالک سے مالی لین دین اسی بینک کے زریعہ انجام پائے گا اور یہی بینک دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات سے پیدا ہونے والے مالی امور ومعاملات کا نگران ہوگا۔ مرکزی بینک تمام دوسرے بینکوں کے لئے اسی طرح ایک بینک کا کام کرے گا۔ جس طرح ایک عام بینک کاروباری افراد اور اداروں اور عوام کے لئے کرتاہے۔ اس بینک میں تمام بینکوں کے کھاتے کھلیں گے اور اس سے دوسرے بینکوں کو بوقت ضرورت قرض ملے سکے گا  (صدیقی  ١٩٨٣)۔

اسلامی مرکزی بینک کی خدمات : (Functions of Islamic Central Bank)

جیسا کہ اوپر دیکھا کہ اسلامی بینک اسلامی معیشت دانوں کی نظر میں تقریباً وہی خدمات ادا کرتے ہیں بس فرق یہ ہے کہ مرکزی بینک تین لین دین غیر سودی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔ اب ایک نظر اسلامی مرکزی بینک کی ذمہ داریوں اور اثاثوں کی طرف دیکھتے ہیں۔

ذمہ داریاں : (Liablities)

اگر ہم اسلامی مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ (balance sheet)کو دیکھیں تو اس میںکافی حد تک سودی مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ سے مماثلت پائی جاتی ہے۔

اسلامی مرکزی بینک کی بیلنس شیٹ:

 ذمہ داریاں

اثاثے

کرنسی کا اجرائ

دیگر بینکوں میں موجود

کرنسی

دیگر بینکوں کے محفوظات

(شراکت اور قرض حسن کی بنیاد پر)

گولڈن بلین Gold bullion

زر مبادلہ

حکومتی تمسکات

بینکوں کے ساتھ شراکت اور

قرض حسن

جیسا کہ اسلامی مرکزی بینک کی سلیس شیٹ سے واضح ہے کہ اسلامی مرکزی بینک نوٹوں کا اجراء سونے کے ذخائر، زر مبادلہ اور حکومتی تمسکات کی بنیاد پر کرتاہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق نوٹوں کے اجراء کی پشت پر کم از کم 1200ملین روپے کی مد کا سونا اور زرمبادلہ ہو اور بقایا رقم حکومتی تمسکات کا حصہ ہو۔ مگر اسلامی بنکاری میں ان سونے  کے (Bullion) پر کوئی سود نہیں ہوگا مگر اس کے متبادل کیا ہوگا اس کا ذکر نہیں ملتا۔ حکومتی تمسکات تو نفع ونقصان شراکت کی بنیاد پر ہوں گے۔ ہاں زرمبادلہ کی وہ محفوظات جو زر مبادلہ اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے ہوں یا غیر ملکی تمسکات جو کہ سود کی بنیاد پر ہوتے ہیں ان کے بارے میں رپورٹ یہ کہتی ہے کہ اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے جب تک کہ متبادل صورت سامنے نہ آئے۔

طلائی دینار کو زر مبادلہ کے طور پر رکھنے کی تجویز سونے کے دینا رکی ملیشیائی تحریک نے رکھی ہے ۔ اس میں تجویز کیا گیا ہے کہ ادائیگیوں کا تصفیہ ہر تین ماہ میں ایک بار برآمدات اور درآمدات کے وقت کے تبادلہ کے نرخ سے طلائی دینار سے کریں گے۔ سونے سے ناصرف ادائیگی کی جائے بلکہ سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کو بطور کرنسی کے استعمال کرنے کی تجویز ہے۔ اس تحریک کا دعوہ ہے کہ سونے کے سکے ہی اصل اسلامی کرنسی ہے حکمی زری نظام(Fiat monetary system ) کے ساتھ کسری محفوظ بینکاری نظام  (fractional reserve bankingsystem)  کی وجہ سے سود  کرنسی سے کبھی جدا نہیںکیا جاسکتا ۔ جب تک کاغذی نوٹوں کا اجراء ہوتا رہے گا معیشت کبھی بھی اسلامی نہیں ہوگی۔ س کی تفصیل متبادل نظام کے مرکزی تمویلی ادارے میں آئے گی۔(Kameel 2002)۔

مرکزی بینک کی خدمات (Functions of Central Bank)مرکزی بینک کی ایک خدمت یعنی کرنسی کا اجراء تو ہم نے دیکھا اب دیگر خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔

            حکومتی بینک:

حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مرکزی بینک سے قلیل مدتی قرضہ لیتی ہے اس کے علاوہ درمیانی مدتی اور طویل مدتی قرضے بھی حاصل کرتی ہے۔ کونسل کی  رائے میں مرکزی بینک حکومت کو تمام قرضہ بلاسودی بنیادوں پر فراہم کرے گا۔ چونکہ حکومتی اخراجات میں کوئی منافع کی توقع نہیں ہوتی اس لئے  ان قرضوں پر کوئی سود نہیں لیاجائے گا۔ حکومتی آمدنی سے زائد اخراجات چونکہ سودی کے ختم ہونے کی وجہ سے مارکیٹ سے نہ ہی سود اور نہ ہی نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر لئے جاسکتے ہیں۔

اس لئے اسلامی مرکزی بینک حکومتی اخراجات اور آمدنی میں موجود خلاء کو پر کرنے کے لئے بلاسودی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ قرضہ فراہم کرے گا۔

ٹریژری بل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ایڈھوک ٹریژری بل (ad hog Treasury Bill) یہ بل مرکزی حکومت مرکزی بینک کو جاری کرتی ہے تاکہ اپنی کچھ خاص مالی ضروریات پوری کرسکتے  یہ بل بھی بلاسودی بنیاد پر جاری کئے جائیں گے۔ اس کے برخلاف وہ بل جو ٹیپ (Tap) کی بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں جس کو کمرشل بینک خریدتے ہیں تاکہ اس سے قلیل مدتی میں منافع حاصل کرسکیں چونکہ اس پر بلاسودی منافع کا حصول ممکن ہیں ہے اس لئے اس بل کی بلاسودی نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے حکومت کو اس کی جگہ مرکزی بیک سے قلیل مدتی بلاسودی قرضہ حاصل کرنا چاہئے۔

رپورٹ نے تجویز کیا ہے کہ چاہے حکومت فوری ضرورت کے قلیل مدتی قرضہ لے یا طویل مدتی قرضہ یہ تمام قرضہ مرکزی بینک بلاسودی بنیادوں پر فراہم کرے گا۔

اس کے علاوہ مرکزی بینک حکومت کے لئے زری پالیسی بھی وضع کرے گا تاکہ زر کو قابو میں رکھ کر مخصوص حکومتی اھداف حاصل کئے جاسکیں۔ اس کی تفصیل ہم زری پالیسی میں تفصیل سے دیکھیں گے۔

بینکوں کا بینک (Banker’s Bank)

بینکوں اور مرکزی بینک میں اہم تعلق ہے اس کو اسلامی بینک کس طرح طے کرے گا اس احوال ہم ڈاکٹر نجات اﷲ صدیقی کے خیالات سے اخز کرتے ہیں

 بنیادی ضابطے:

١۔ہر بینک کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اپنے قرض اور مضاربت کھاتوں میں جمع کل سرمایہ کا ایک متعین فی صد حصہ نقد کی صورت میں محفوظ رکھے۔ نقد محفوظ اور کھاتوں کی میزان کے مابین نسبت کو نسبت نقد محفوظ (Reserve Ratio) کا نام دیاگیا ہے۔ تجویز یہ ہے کہ یہ نسبت دس فی صد ہو۔ البتہ سہولت کار کی خاطر چھوٹے بینکوں، بالخصوص ان بینکوں کو جو ایسے مقامات پر ہوں جہاں مرکزی بینک کی کوئی شاخ نہ ہو، اس ضابطہ سے مستثنیٰ کیا جاسکتاہے۔ وہ اس امر کے پابند ہوں گے کہ مرکزی بینک کے حصہ کا ریزرد اس کے کھاتہ میں اپنے پاس ہی محفوظ رکھیں۔ یہ طریقہ موجودہ نظام میں بھی رائج ہے۔ اس نقد محفوظ کا ایک حصہ مرکزی بینک کے پاس جمع کیا جانا چاہئے اور دوسرا حصہ بینکوں کی تحویل میں ہونا چاہئے۔  تجویز یہ ہے کہ ہر بینک اپنے ریزرو کا اوسطاً، نصف حصہ مرکزی بینک میں جمع رکھے۔اس ضابطہ کا منشاء یہ نہیں کہ ہر ان بینک کا نقد محفوظ اس کے کھاتوں کی میزان کا دس فیصد ہو۔ یہ بات کافی ہوگی کہ ہر ہفتے اس کے نقد محفوظ کا روزانہ اوسط اس کے کھاتوں کی میزان کے روزانہ اوسط کا دس فیصد ہو۔ اسی طرح یہ بات کافی ہوگی کہ مرکزی بینک میں اس بینک کے کھاتہ میں جمع رقم کا روزانہ اوسط ہر ہفتہ اس کے نقد محفوظ کے مذکورہ بالا اوسط کا نصف ہو۔

اوپر یہ بتاچکے ہیں کہ ہر بینک مرکزی بینک میں اپنا کھاتہ کھولے گا۔ بینک کے ریزرد کا نصف اس کے اسی کھاتہ میں جمع ہوگا۔ بینک اس لازمی ریزرو کے ماسوا اپنے کھاتہ میں فاضل رقم رکھنے کے لئے پوری طرح آزاد ہوگا۔ یہ فاضل رقم وہ کسی وقت بھی واپس طلب کر سکے گا یا چیک کے زریعے کسی دوسرے بینک یا ادارے کو منتقل کرسکے گا۔البتہ اپنے لازمی ریزرو کو وہ اسی شرط کے تحت استعمال کرسکے گا کہ ہفتہ بھر کا روزانہ اوسط ضابطہ کے مطابق ہو، اس سے کم نہ ہوجائے۔ کسی بینک کو اس کا لازمی ریزرد اسی صورت مین واپس کیا جاسکے گا جب وہ اپنا کاروبار ختم کرکے اپنی مالی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ان کی واپسی چاہے۔

اس ضابطے کے مطابق بینکوں کی اپنی نقد تحویل میں ان کے کھاتوں کی میزان کا صرف پانچ فیصد نقد کی صورت میں موجود ہونا کافی سمجھا جائے گا۔ ہم یہ فرض کررہے ہیں کہ عام حالات میں اتنا نقد بینک میں روزمرہ جمع کئے جانے والے نقد کے ساتھ مل کر قرض اور مضاربت کھاتہ سے نقد کی صورت میں واپس طلب کی جانے والی رقموں کو ادا کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ عملاً زیادہ تر رقمیں قرض کھاتہ سے نکالی جائیں گی مضاربت کھاتہ سے عام دنوں یا ہفتوں میںنسبتہً بہت رقوم نکالی جائیں گی اور بینک کو اس کی پیشگی اطلاع ملے گی۔ اس اطلاع کے بعد وہ حسب ضرورت نیا نقد حاصل کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرسکے گا۔ مضاربت کھاتہ سے زیادہ رقمیں سہ ماہی کے اختتام پر، یعنی ان تاریخوں پر نکالی جائیں گی جو مضاربت کھاتہ کے حساب کے لئے مقرر کی گئی ہوں۔ لیکن ان تاریخوں پر مضاربت کھاتہ میں نئی رقوم بھی جمع کی جائیں گی۔ نیز بعض کاروباری فریقوں سے سرمایہ بھی واپس ملے گا۔

٢۔ہر بینک کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اپنے قرض کھاتہ میں جمع کل سرمایہ کا ایک متعین فی صد حصہ قرض کے طور پر دینے کے لئے آمادہ رہے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ یہ متعین نسبت پچاس فی صد ہو۔ اس نسبت کے لئے ہم آئندہ نسبت قرض (Lending Ration) کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ضروری نہیں کہ ہر وقت بینک نے عملاً اپنے قرض کھاتہ کے نصف کے بعد قرض دے رکھاہو، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ اگر بینک چاہے تو وہ اس سے زیادہ قرض دے سکتاہے۔ البتہ چونکہ ان قرضوں سے بینک کو کوئی نفع نہ ہوگا لہٰذا قرین قیاس یہی ہے کہ کوئی بینک اس سے زیادہ قرض دینے پر آمادہ نہ ہوگا جتنا اس اسے مقررہ نسبت قرض کے مطابق دینا چاہئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قرض کی طلب کم ہونے کے سبب بینک دئے ہوئے قرضے اس مقدار سے کم ہوں جو نسبت قرض کے مطابق ہونی چاہئے۔ ان قرضوں کی عارضی نوعیت اور ان کے بالمقابل ضمانت نیز ان کی واپسی سے متعلق قواعد وضوابط کے پیش نظریہ بات بعد از قیاس نہیں کہ ان کے غیر سودی ہونے کے باوجود بعض حالات میں ان کی طلب کم ہواور کاروباری طبقہ مضاربت کے اصول پر حاصل کئے ہوئے سرمایہ سے زیادہ سے زیادہ کام لینا چاہئے۔اس ضابطہ کی تکمیل کے لئے بھی ہر ہفتے قرض کھاتہ اور دیئے ہوئے قرضوں کی مقداروں کے روزانہ اوسط پر نگاہ رکھی جائے گی۔ ہر روز کے حسابات کا علیحدہ علیحدہ اس ضابطہ کے مطابق ہونا ضروری نہیں سمجھا جائے گا۔

٣۔         جب عام بینکوں کو عوام کے مطالبات نقد کی تکمیل کے لئے اینی نقد تحویل کے علاوہ مزید نقد سرمایہ کی ضرورت ہو تو وہ اپنے دیئے ہوئے قرضوں یا بھنائی ہوئی ہنڈیوں کی سندیں پیش کرکے مرکزی بینک سے قرض حاصل کرسکیں گے۔ یہ قرض عارضی ہوگا اور اس کی مقدار بینک کے دیئے ہوئے قرض کی ایک متعین فی صد سے زائد نہ ہوگی۔ اس فیصد یعنی مرکزی بینک سے مل سکنے والے قرض اور بینک کے دیئے ہوئے قرضوں کی میزان (جس میں بھنائی ہوئی ہنڈیاں بھی شامل ہیں) کے مابین نسبت کو ہم آئندہ نسبت استقراض (Borowing Ratio) کا نام دیں گے۔ تجویز یہ ہے کہ یہ نسبت ٢٥ فیصد ہو۔

ضابطہ استقراض کے تحت مرکزی بینک سے قرض اسی صورت میں مل سکے گا جب بینکوں کو مزید نقد کی ضرورت عوام کی طلب نقد میں اضافہ کے سبب پڑی ہو نہ کہ مرکزی بینک کے کسی اقدام بالخصوص نسبت نقد محفوظ میں اضافہ کے سبب۔ یہ قرض ابتداً ایک چھوٹی مدت مثلاً ایک ہفتہ دو ہفتہ یا تین ہفتہ کے لئے دیا جائے گا۔ البتہ اگر عوام کی جانب سے نقد کے مطالبات میںکمی ہوتی نظر نہ آئے تو مرکزی بینک ان قرضوں کی تجدید کردیا کرے گا۔ منشاء یہ ہے کہ  مرکزی بینک سے حاصل کئے ہوئے اس نقد کو بینک اپنے کاروبار میں توسیع کے لئے نہ استعمال کریں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ صورت حال عارضی ہوتی ہے۔ اگر عوام کی طلب نقد میں مستقل اضافہ ہوتا نظر آئے تو اس صورت حال کا علاج مرکزی بینک نظام بینک کاری کو مستقل طور پر مزید نقد عطا کرکے کرے گا جس کے لئے وہ حصص کی خریداری کا اقدام کرے گا ۔

٤۔         مرکزی بینک کو اختیار ہوگا کہ وہ دیئے جانے والے قرضوں یا بھنائی جانے والی تجارت ہنڈیوں کی مختلف قسموں کے بالمقابل استقراض کی نسبتیں مختلف رکھے۔ مثلاً یہ کہ زراعت سے متعلق کاروبار کرنے والوں کو جو قرضے دیئے گئے ہوں ان کے بالمقابل چالیس فیصد قرض دینے کا وعدہ کرے اور کسی مخصوص صنعت سے متعلق قرضوں کے بالمقابل صرف دس فیصد قرض دینے کا اعلان کرے۔ رونی کی تجارت سے متعلق ہنڈیوں کے بالمقابل استقراض کی نسبت بیس فیصد رکھے، وغیرہ جیسا کہ آئندہ واضح کیا جائے گا۔ اسی ضابطہ کو مرکزی بینک معیشت سرمایہ کاری کی راہوں پر اثر اندار ہونے اور کاروبار کے مخصوص دائروں میں کریڈٹ کی فراہمی کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کرے گا۔

٥۔         مرکزی بینک تجارتی حصص کی خرید وفروخت کا مجاز ہوگا۔

آئندہ  یہ واضح کیا جائے گا کہ ان ضوابط اور ان میں ترمیمات کو مرکزی بینک کس طرح عام بینکوں کے کاروبار اور زر کی رسد کو قابو رکھنے کے لئے استعمال کریگا۔ نسبت نقد محفوظ میں موزوں تبدیلیاں عمل میں لاکروہ عام بینکوں کی تخلیق زر کی قوت کو قابو میں رکھے گا اور ان کی نقدیت پر اثر انداز ہو کر زر کی مجموعی رسد میں حسب مرضی توسیع یا تخفیف عمل میں لاسکے گا۔ نسبت استقراض میں تبدیلی کے زریعے مرکزی بینک عوام کی بدلتی ہوئی طلب نقد کے مطابق عام بینکوں کی ضروریات نقد کی تکمیل کے زریعے یہ ممکن بنادے گا کہ وہ ہر حالت میں اپنے کھاتہ داروں کے مطالبات نقد پورے کرسکیں غیر معمولی حالات میں اس تبدیلی کو توسیع زر کے عمل کو روکنے یا رسدزر میں تخفیف عمل میں لانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔ مختلف قسم کی ہنڈیوں اور کاروبار کے مختلف دائروں کے لئے دیئے ہوئے قرضوں کے بالمقابل استقراض کی مختلف نسبتیں وضع کرنے کا مقصد مخصوص صنعتوں کے لئے قرض کی رسد میں اضافہ یا کمی کرنا ہوگا۔ اس طریقے کو مضاربت پر سرمایہ فراہم کرنے کے سلسلے میں اہم ترین اور نسبتہً کم اہم صنعتوں کی نشان دہی کے پہلو بہ پہلو معیشت میں سرمایہ کاری کو مطلوبہ راہوں کی طرف لے جانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔ مرکزی بینک تجارتی حصص کی خرید وفروخت کو بینکوں کو نیا نقد دینے یا ان سے نقد واپس لینے کا زریعہ بنائے گا تاکہ غیر معمولی حالات میں زر کی رسد میں توسیع یا تخفیف عمل میںلانے کا کام موثر طریقے پر انجام پاسکے۔ نیز ایک ترقی پذیر معیشت میں زر کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر زر کی رسد میں مسلسل اضافہ کے لئے بینکوں کی نقد تحویل میں مسلسل اضافہ کا اہتمام کیا جاسکے۔ نسبت قرض میں تبدیلیوں کا منشاء کاروبار کے لئے طویل المیعاد اور قصر المیعاد سرمایوں کے درمیان توازن برقرار رکھناہے۔ ذیل میں ان باتوں کو تفصیل کے ساتھ مثالوں کے ذریعے واضح کیا جائے گا۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اوپر ہم نے نقد محفوظ، قرض اور استقراض کی جو نسبتیں تجویز کی ہیں ان کی حیثیت صرف مثالوں کی ہے۔ یہ نسبت اس سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔ موزوں نسبتوں کی دریافت غیر سودی نظام بینک کاری کے قیام اور اس کے عملی تجربے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ ہماری تجویز کردہ نسبتوں کو بطور مثال سامنے رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا ضوابط کو ان کی بنیاد پر آسان کے ساتھ سمجھا جاسکتاہے۔

قبل اس کے کہ ہم زر کی رسد میں توسیع یا تخفیف عمل میں لانے کے لئے ریزرد استقراض اور حصص کی خرید وفروخت کے آلات کے استعمال اور ان کی اثر انگیزی پر غور کریں۔ اس حقیقت کا ذکر ضروری معلوم ہوتاہے کہ عملاً زر کی رسد میں توسیع کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا موثر ہونا اتنا یقینی نہیں ہوتاہ جتنا تخفیف کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا موثر ہونا۔ یہ بات جس طرح موجودہ سودی نظام میں پائی جاتی ہے اسی طرح غیر سودی نظام میں بھی پائی جائے گی کیونکہ اس کا انحصار سود پر نہیں بلکہ دوسریاسباب وعوامل پر ہے۔ مرکزی بینک کے توسیعی اقدامات بینکوں کے لئے نئے زربینک کی تخلیق کو ممکن بنادیتے ہیں مگر اس امکان کے عمل کا جامہ پہننے کے لئے ضروری ہے کہ کاروباری طبقے کی جانب سے نئے سرمایہ کی طلب بھی موجود ہو۔ اگر طلب کمزور ہے تو توسیعی اقدامات محدود پیمانہ پر ہی کامیاب ہوسکیں گے۔ اس کے برعکس تخفیفی اقدامات بینک کو کاروباری طبقہ سے سرمایہ واپس لینے پر مجبور کرکے زر کی مجموعی رسد میں کمی کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بینک زیادہ عرصہ ان اقدامات کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ افراط زر (Inflation) کو روکنے کے لئے زر کی رسد میں کمی زیادہ آسان ہے یہ نسبت تفریط زر (Deflation) کو دور کرنے کے لئے زر کی رسد میں اضافہ کے  مزید برآن ان دونوں مقاصد کے حصول میں زر سے متعلق اقدامات (Monetary Measures) ایک حد ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان اقدامات کے ساتھ مالیات عامہ سے متعلق اقدامات (Fiscal Measures) کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

زر بینک کی تخلیق یا منسوخی یعنی کریڈٹ میں توسیع یا تخفیف کا انحصار اس بات پر ہے کہ بینکوںکی نقد تحویل میں اضافہ یا کمی عمل میں لائی جائے۔ چونکہ بینک اپنے کھاتوں اور اپنی نقد تحویل کے درمیان ایک خاص تناسب برقرار رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں لہٰذا جب ان کو نیا نقد ملتاہے تو وہ اس تناسب کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کرتے ہیںکہ ان کے کھاتوں کی مقدار میں اضافہ ہوجاتاہے۔ جب ان کی نقد تحویل مطلوبہ تناسب سے کم ہوجاتی ہے تو وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں کھاتوں کی میزان اتنی کم ہوجاتی ہے کہ نقد تحویل اور کھاتوں کی

نئی میزان کے درمیان مطلوبہ تناسب قائم ہوجاتاہے۔ اس نکتہ کی وضاحت گزشتہ باب میں تفصیل کے ساتھ کی جاچکی ہے۔ یہاںصرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر مرکزی بینک یہ چاہتاہو کہ عام بینکوں کے کھاتوں میں اضافہ ہوتو اسے ایسے اقدامات کرنے ہون گے کہ بینکوں کے پاس مطلوبہ تناسب سے زیادہ نقد ظاہر ہو۔ اس کے برعکس اگر وہ کھاتوں میں کمی چاہتاہو تو اسے ایسا قدم اٹھانا ہوگا کہ بینکوں کو مطلوبہ تناسب برقرار رکھنے کے لئے مزید نقد کی ضرورت محسوس ہو۔ ریزرد، استقراض اور حصص سے متعلق ان اقدامات کا مطالعہ ذیل میں کیا جائے گا۔2

(نسبت نقد محفوظ Reserve Raito: وہ نسبت جو ہر بینک نقد کی صورت میں رکھتاہے اس کو نسبت نقد محفوظ کہتے ہیں۔

نسبت استقراض  Biriowing Ratio : وہ نسبت جو ہر بینک مرکزی بینک میں رکھتاہے۔)

 زری پالیسی:

زری پالیسی کے عوامل تقریباً وہ ہی ہیں جوکہ سودی معیشت میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ بس ان کے طریقہ کار میں کچھ فرق ضرور ہے جو کہ آلہ کار زری پالیسی کے استعمال کئے جائے ہیں۔ وہ یہ ہیں:

الف)      نسبت نقد محفوظ میں تبدیلی (Reserve Ration)

ب)        نسبت اسقراض میں تبدیلی (Borrowing Ratio)

ج)         کھلی منڈیوں میں Open market operation

د)          نسبت قرض میں تبدیلی وغیرہ۔

نسبت نقد محفوظ میں تبدیلی:            (Minimum Cash Reserve Requirments)

اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں سرسری طور پر صرف یہ واضح کردیا گیاہے کہ اس نسبت میں تبدیلی غیر سودی نظام میں بھی ایک اہم آلہ ہے اور دونوں عندالطب کھاتوں یا قرض حسن کھاتوں اور شراکت کھاتوں میں نسبت نقد محفوظات کو تبدیل کرنے کے نتیجہ میں بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت میں تبدیلی واقع ہوگی جس کے لئے ترسیل زر میں بھی تبدیلی ہوگی۔ ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب نے جدول کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ نسبت نقد محفوظ میں اضافہ کے نتیجے میں زر کی رسد میںکمی واقع ہوگی۔ اور بینک کے قرض میں تحفیف واقع ہوگی اس کے برخلاف اگر نسبت نقد محفوظ میں کمی کی جائے تو پبلک کو نسبتہً زیادہ سرمایہ کے کاروباری استعمال کا موقع ملتاہے اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ زر کی رسد میں اضافہ ہوجائے گا اس بحث کا یہ نتیجہ نکلتاہے کہ غیر سودی نظام بینک کاری میں مرکزی پبلک کریزٹ میں تو توسیع یا تحفیف عمل میں لانے کے لئے نسبت نقد محفوظ کی تبدیلی کا طریقہ اختیار کرسکے گا۔ یہ ایک موثر آلہ جسے استعمال کرکے مرکزی بینک زر کی مجموعی رسد کو قابو میں رکھ سکے گا۔اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ایک بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر کوئی بینک دی گئی نسبت کو جو کہ  5  سے  10  فیصد تک تجویذ کی گئی ہے اگر پورا نہ کرسکے تو اس پر سود کی جگہ جرمانہ یومیہ کے حساب اور رقم کے اعتبار سے عائد کرنا ہوگا۔

نسبت اسقراض میں تبدیلی:

 (Changes in Borrowing Ratio or Liquidity Ratio Requirment)

نسبت استقراض : (Borrowing Ratio)

یہ وہ نسبت ہے جس کے تحت ہر بینک اپنی کچھ ذمہ داریوں کا حصہ مرکزی بینک کے پاس رکھواتاہے تاکہ بوقت ضرورت بینکوں میںنقد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے مرکزی بینک ان بینکوں کو رقوم فراہم کرسکے۔  عام طور پر سودی معیشت میں بھی نسبت استقراض کے تحت ذمہ داریوں کا حصہ مرکزی بینک میں اوپر دئے گئے مقصد کے لئے رکھا جاتاہے. اس طرح سے کھاتہ دار بینک اپنے نقد نحفوظات سے عہدہ براہ ہو کر پر جوش انداز میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ مرکزی بینک اس طرح ناصرف دیگر بینکوں کی نقدی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ عوام کو اضطرابی کیفیات یا اضطرابی حالات  سے بھی دور رکھتا ہے ۔ اس لئے ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب پر زورانداز میں اس پالیسی کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زر کوقابو  میں رکھنے کی یہ ایک اہم پالیسی ہے ۔ 7

ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب کہتے ہیںکہ اس نسبت کی تبدیلی سے صرف کھاتے داروں کو اعتماد رہے گا کہ ان کو زرنقد کی صورت میں ضرورت کے وقت حاصل ہوجائے گا مگر اس نسبت کی تبدیلی کے نتیجہ ترسیل زر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

صدیقی (١٩٨٣)اس کے لئے لکھتے ہیں ”اس نسبت کی تبدیلی کی وجہ سے پوری معیشت کے نقطہ نظر سے صرف یہ تبدیلی عمل میں آئے گی کہ اب تک جو زر رجسٹروں میں اندرجات کی صورت میں تھا اس کا ایک حصہ کرنسی نوٹ کی صورت اختیار کرلے گا۔ صورت کی اس تبدیلی کے علاوہ زر کی مجموعی رسد میں مقدار کے اعتبار سے کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ بینکوں کو مرکزی بینک سے جو نیا نقد ملے گا وہ عوام کو منتقل ہوجائے گا اور ان کے کھاتوں میں اسی قدر کمی واقع ہوجائے گی۔ بظاہر بینکوں کے کھاتوں میں کمی سے زر کی رسد کم ہوگی لیکن یہ کمی حقیقی کمی نہیں ہے کیونکہ کھاتوں میں کمی کے بقدر زر نقد کی صورت میں عوام کے درمیان گردش کررہا ہوگا۔”

صدیقی (١٩٨٣) مزید لکھتے ہیں کہ یہ قرض کا استعمال صرف عوام کی طلب نقد پورا کرنے کے لئے دیا جائے ناکہ یہ قرض کاروباری طبقہ کو مزید سرمایہ فراہم کرنے کے لئے دیا جائے۔ یہ اہتمام بینکوں کے حسابات کی مناسب نگرانی کے زریعہ بآسانی ممکن ہے اس اسقراض میں اضافے کی وجہ سے افراط زر پیدا نہ ہوگا کیونکہ بقول ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی افراط زر جب پیدا ہوتا ہے جب کہ نقد میں اضافہ کریڈٹ میں توسیع کا زریعہ ہے۔ اس طرح وہ مرکزی بینک کے نوٹوں کے اجراء کو کسی منفی رجحان کا سبب نہیں سمجھتے اور عوام کو یہ اجازت دیتے یہں کہ رجحان سب نہیں سمجھتے اور عوام کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس نظام میں جتنے چاہیں زر کا حصہ کرنسی نوٹوں کی صورت میںرکھیں۔

یہ قرضے عارضی ہوں گے جن کو عوام کے طلب نقد کے معمول پر آنے کے بعد واپس کردیا جائے گا۔ واپس کردیا جائے گا۔ اسی طرح نقد استقراض میں اضافہ بھی عارضی ہوگا کہ جب بحرانی کیفیت ختم ہوگی تو یہ نسبت معمول پر آجائے گی۔ اس طرح مرکزی بینک اس آلہ کو بینکوں کی تقدبت بحال رکھنے اور ان پر عوام کا اعتماد قائم رکھنے کے لئے موثر طور پر استعمال کرسکیں گے۔

غیر معمولی حالات میں نسبت استقراض میں کمی کو زر کی رسد میں توسیع کے عمل کو روکنے یا اس میں تخفیف عمل میں لانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ اگر عوام نقد میں اضافہ کے ساتھ معیشت میں افراط زر کا رجحان بھی ظاہر ہو تو ایسا کرنا مناسب ہوگا۔ فرض کیجئے کہ عام بینکوں کو اس ضابطہ کے تحت جتنا قرض مل سکتاتھا اتنا انہوں نے لے رکھا ہے مگر عوام کی طلب نقد ابھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں اگر مرکزی بینک نسبت استقراض میں اضافہ سے انکار کردے یا اس میں کچھ کمی کردے تو عام بینکوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ مزید نقد حاصل کرنے کے لئے حصص فروخت کریں اور کاروباری فریقوں سے سرمایہ واپس لیں۔ جیسا کہ اوپر واضح کیا جاچکاہے اس اقدام کے نتیجے میں زر کی رسد میں تخفیف عمل میں آنا ناگزیر ہے۔ نہ صرف یہ کہ کاروباری طبقہ سے سرمایہ واپس لینا بینکوں کے لئے نقد حاصل کرنے کا زریعہ ثابت ہوگا بلکہ ان کے قرض کھاتہ کی مقدار میں کمی اس قرض کی مقدار کمی کا باعث بنے گی جو ان کو مرکزی بینک سے مل سکتاہے اس طرح مرکزی بینک نسبت نقد محفوظ میں تبدیلی کے بغیر زر کی رسد میں تخفیف عمل میں لاسکے گا۔ البتہ تخفیف کا یہ آلہ صرف ان حالات میں موثر ہوگا جب عوام کی طلب نقد میں اضافہ کے سبب بینکوں کی نقدیت پر دباؤ پڑرہاہو۔

اب سوال جو اسلامی معیشت دانوں کے لئے ہے کہ اس استقراض کو عصری سودی بینکاری میں سود (Discount rate) کے تحت دیا جاتاہے۔ تو پھر بلاسودی نظام میں اس کو کس طرح باہم مہیا کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ تو ان قرضوں کا بلاسودی بنیاد پر فراہم کرنے کی حامی ہے کہ  .ان قرضوں کو شراکت کی بنیاد پر نہیں دیا جاسکتا چونکہ یہ قرض کے لیے ہیں نہ کہ کاروبار کے لیے۔

اسلامی معیشت دان جن کا اب تک میں نے مطالعہ کیا ہے کہ اس بات کے حامی ہیں کہ دونوں تناسبوں یعنی وجود نقد محفوظ اور استقراض کو مرکزی بینک کے تابع رکھا جائے تاکہ موجودہ سودی بینکاری کی طرح آزاد اور بینکوں کی مرضی پر نہ چھوڑا جائے ورنہ جب مرکزی بینک کا قرض بلا سودی ہوگا تو ہر بینک کی خواہش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لئے کم حصہ محفوظات میں رکھ کر زیادہ سے زیادہ رقم شراکت میں دی جائے اور نقد کی کمی کو مرکزی بینک سے زیادہ سے زیادہ قرضہ لے کر پورا کیا جائے۔ اس طرح بلاسودی نظام بغیر مرکزی بینک کی مضبوط گرفت کے چل نہیں سکتا۔

صدیقی (١٩٨٣) نسیت استقراض کا ترجیحی استعمال کو بھی واضح کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ مخصوص ترجیحی سیکٹرز میں استقراض کو باہم پہنچایا جاسکتاہے۔ ان کے خیال میں اگر مرکزی بینک استقراض کی نسبت کو اس شعبہ میں زیادہ کردیا جائے تو اس شعبہ میں زیادہ قرض دیا جائے گا اور اگر کم کردے تو بینک اس کاروبار کے لئے قرض دینے سے گریز کریں گے۔ اس ان کے خیال میں مرکزی بینک ہر صنعت کے لئے مختلف نسبت استقراض رکھے تاکہ بعض صنعتوں کو قرض کی رسد زیادہ ہو اور بعض کو کم۔

اس کے علاوہ جو دیگر دو آلات زری پالیسی ڈاکٹر صاحب نے واضح کئے ہیں اس میں سے ایک تو تجارتی حصص کی خرید وفروخت کے سلسلے میں ہے جبکہ دوسرا قرض کی نسبت میں تبدیلی کی بابت ہے۔ چونکہ آپ کے بقول نسبت استقراض میں تبدیلی زر کی رسد میں تبدیلی کا زریعہ نہیں بنے گی اس لئے ایسے آلات کی بھی ضرورت ہے جو زر کی رسد میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں اور یہ کام درج بالا دو آلات باخوبی کرسکتے ہیں۔

تجارتی حصص کی خرید وفروخت

مذکورہ بالا ضابطہ استقراض کے تحت بینکوں کو نئے نقد کی فراہمی کا انحصار بینکوں کی جانب سے نقد کے مطالبہ پر ہے۔ مرکزی بینک انہیں اسی وقت قرض دے گا جب ان کی جانب سے قرض طلب کیا جائے۔ مزید برآں، جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں۔ اس ضابطہ کے تحت نقد کی فراہمی یا فراہم کردہ نقد کی واپسی زر کی مجموعی رسد میں تبدیلیوں کا سبب، عام حالات میں نہ بن سکے گی۔ مرکزی بینک کی زر کی بابت پالیسی کو موثر اور مکمل بنانے کے لئے ایک ایسے آلہ کی بھی ضرورت ہے۔ جس کو استعمال کرکے وہ نظام بینک کاری کو حسب مرضی نقد فراہم کرسکے، یا ان سے نقد واپس لے سکے اور اس کے ان اقدامات کا زر کی رسد پر بھی پورا اثر مرتب ہو۔ سود پر مبنی نظام میں مرکزی بینک یہ مقصد تھوڑی مدت کے سودی تمسکات کی خرید وفروخت سے حاصل کرتاہے۔ یہ تمسکات سرکاری خزانہ کی جانب سے تھوڑی مدت کے لئے قرض لینے کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔ غیر سودی معیشت میںان سودی تمسکات کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اس نظام میں یہی مقصد حکومت کے جاری کردہ تجارتی حصص کی خرید وفروخت سے حاصل کیا جائے۔  یہاں صرف یہ واضح کریں گے کہ حکومت کے جاری کردہ حصص کی خرید وفروخت کو مرکزی بینک اپنا آلہ کار کس طرح بناسکتاہے۔

حکومت قومی دائرہ کے کاروبار ی اداروں کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کے لئے شرکت کے اصول پر مبنی جو تجارتی حصص جاری کے گی انکی بھاری مقداریں عام بینکوں، دوسرے مالی اداروں، اور عام افراد کی ملکیت میں ہوں گی۔ اگر مرکزی بینک ان حصص کو خریدنے کا فیصلہ کرے تو وہ بازار کے نرخ پر، یا اس سے کچھ زیادہ دام پیش کرکے ان حصص کے مالکوں کو ان کی فروخت پر آمادہ کر سکے گا۔ حصص فروخت کرنے والوں کو مرکزی بینک سے ان حصص کی قیمت نقد کی صورت میں ملے گی۔ عوام کی اس عادت کی بنا پر کہ وہ اپنے سرمائے زیادہ تر بینکوں میں جمع رکھتے ہیں یہ نقد بالآخر بینکوں کے پاس پہنچ جائے گا۔ بینکوں کی تحویل میں فاضل نقد ظاہر ہونے اور اس نقد کا کاروباری استعمال عمل میں آنے پر زر کی رسد کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگر کاروباری طبقہ میں سرمایہ کی طلب موجود ہے تو پوری معیشت میں زر کی رسد اس سرمایہ سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے جو مرکزی بینک نے حصص کی قیمت کے طور پر حصص فروخت کرنے والوں کو دیا تھا۔ حصص کی خریداری زر کی رسد میں توسیع عمل میں لانے والا آلہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بینکوں کو نیا نقد ملتاہے۔

اگر مرکزی بینک نے کچھ حصص براہ راست حکومت سے خریدے ہوں تو بھی بالآخر یہی نتیجہ ظاہر ہوگا کیونکہ حکومت اس سرمایہ کو قومی دائرہ کے کاروباری اداروں میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال کرے گی جس سے اجرتوں، تنخواہوں اور کرایوں کی صورت میں آمدنیوں میں اضافہ ہوگا، جو بینکوں میں جمع کی جائیں گی۔

مرکزی بینک ہر وقت ان حصص کی ایک معتدبہ مقدار اپنے پاس رکھے گا تاکہ جب وہ زر کی رسد میں تخفیف کرنا چاہے تو ان حصص کی فروخت کو بینکوں سے نقد واپس لینے کا زریعہ بنا سکے۔ مرکزی بینک بازار کے نرخ پر یا اس سے کچھ دام پر حصص فروخت کرنے میں ہمیشہ کامیاب ہوسکتاہے کیونکہ بینک دوسرے مالی ادارے اور عام اصحاب سرمایہ ان حصص کے زریعہ نفع حاصل کرنے کے لئے انہیں مناسب داموں پر خریدنے پر آمادہ ہوں گے۔ جو بینک یا اصحاب سرمایہ حصص خریدیں گے انہیں مرکزی بینک کو نقد دام ادا کرنا ہوگا جس سے بینکوں کی نقد تحویل میں کمی ہوگی۔ اگر خریدار بینک ہے تو اس کمی کی وجہ ظاہر ہے۔ اور اگر خریدار کوئی ادارہ یا فرد ہے تو وہ دام ادا کرنے کے لئے بینک کے کھاتہ میں جمع سرمایہ نکالے گا، یا اسے چیک کے زریعہ مرکزی بینک کی طرف منتقل کرے گا۔ بینکوں کی نقد تحویل میں کمی سے زر کی رسد میں تخفیف کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگر اس عمل کے آغاز میں بینکوں کے پاس فاضل نقد نہیں تھا تو پوری معیشت میں زر کی رسد میں اس سرمایہ کی کئی گنا کمی واقع ہوجائے گی جو حصص کی قیمت کے طور پر مرکزی بینک کو ادا کیا گیا ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے حصص کی فروخت زر کی رسد میں تخفیف کا آلہ ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بینکوں کی نقد تحویل میں کمی واقع ہوتی ہے۔

 حکومت کے جاری کردہ حصص کے بازار نرخ کا انحصار اس سے حاصل ہونے والی شرح نفع کے بارے میں توقعات یا اندیشوں پر ہوگا۔ اگر چہ ان اندازوں کی تبدیلی کے ساتھ نرخ کا کم وبیش ہوتے رہنا کسی حد تک ناگزیر ہے لیکن اجتماعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ بے بنیاد اندیشوں یا بے بنیاد توقعات کی بنا پر اور سٹہ بازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ سے ان نرخوں کو محفوظ رکھا جائے۔ مرکزی بینک یہ مقصد بھی ان حصص کی خریداری یا فروخت کا بروقت اقدام کرکے حاصل کرسکتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے زیر نگرانی چلائے جانے والے کاروباری اداروں کی کارکردگی اور ان کے نفع نقصان کے ایسے اندازوں سے جو حتی الامکان واقعی حسابات پر مبنی ہوں مرکزی بینک کو برابر آگاہ کرتی رہے۔ مرکزی بینک ان حسابات کی روشنی میں حکومتی حصص کے بازار نرخ پر نگاہ رکھے گا۔ جب اسے ان حصص کے دام اس حد سے زیادہ نیچے گرتے نظر آئیں گے جس حد تک ان کو صحیح اندازے کے مطابق گرنا چاہئے تو وہ ان حصص کی بازار نرخ پر خریداری کا اقدام کرے گا۔ حصص کی طلب میں اضافہ اس کے نرخ کو گرنے سے بچالے گا۔ اسی طرح جب مرکزی بینک کو حصص کے دام حد اعتدال سے زیادہ بڑھتے نظر آئیں گے تو وہ بازار نرخ پر حصص فروخت کرکے حصص کے طلبگاروں کی طلب پوری کردے گا۔ رسد میں اس اضافہ سے دام بڑھنے کا رجحان ختم ہوجائے گا۔ حصص کی خریداری اور فروخت کے زریعے مرکزی بینک حصص میں سرمایہ لگانے کو سرمایہ کے نفع اور استعمال کا نسبتہ محفوظ طریقہ سمجھ سکیں۔ اور حکومت کے لئے نفع میں شرکت کے اصول پر عوام سے سرمایہ حاصل کرنا آسان ہوجائے۔

معاشی ترقی اور کاروبار کی توسیع کے ساتھ ملک میں زر کی رسد میں مسلسل اضافہ ہوتے رہنا ناگزیر ہے۔ زر کی رسد میں مسلسل اضافہ کے لئے ضروری ہے کہ عام بینکوں کو مناسب رفتار سے نیا نقد فراہم کیا جاتارہے۔ ہمارے مجوزہ نظام میں عام بینکوں کو نیا نقد ملنے کا زریعہ مرکزی بینک کی جانب سے حکومتی حصص کی فروخت کی رفتار سے زیادہ رکھ کر مرکزی بینک عام بینکوں کی نقد تحویل میں اضافہ کرتے رہنے کا مقصد حاصل کرسکتاہے۔ چونکہ قومی دائرہ کا کاروبار وسعت پذیر ہوگا اور حکومت کی جانب سے نئے حصص جاری کئے جاتے رہیں گے۔ لہٰذا عرصہ طویل میں ان حصص کی رسد میں بھی مسلسل اضافہ متوقع ہے۔

اوپر کی بحث کی خرید وفروخت کے تین مقاصد سامنے آئے ہیں۔ عرصہ طویل میں زر کی رسد میں اضافہ کے لئے بینکوں کو نیا نقد فراہم کرتے رہنا، حکومتی حصص کے نرخوں کو غیر معمولی اتار چڑھاؤ سے بچا کر ان میںیک گونہ استقرار پیدا کرنا، زر کی رسد میں حسب مرضی توسیع یا تخفیف عمل میں لانے کے لئے بینکوں کو نیا نقد دینا یا ان سے نقد واپس لینا۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں مقاصد کا ہر حالت میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ رہنا ضروری نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مقصد کے لئے حصص کی خریداری مناسب ہو مگر دوسرے مقصد کا تقاضا یہ ہو کہ حصص فروخت کئے جائیں۔ ایسی صورت میں تضاد کا حل یہ ہوگا کہ مرکزی بینک حصص کی خریداری یا فروخت کے ساتھ نسبت نقد محفوظ کی تبدیلی کا اقدام یا نسبت استقراض میں تبدیلی کا اقدام بھی اس طرح کرے کہ دونوں یا تینوں مقاصد بیک وقت حاصل کئے جاسکیں۔ اگر ضرورت ہو تو وہ اس تضاد کو دور کے لئے کوئی دوسرا راست اقدام بھی کرسکتاہے۔ ذیل میں اس  بات کو ایک مثال کے زریعے واضح کیا جائے گا۔

فرض کیجئے کہ بازار کے بعض بے بنیاد اندیشوں کے سبب حصص کے نرخ گر رہے ہیں اور مرکزی بینک اس صورتحال کے علاج کے لئے حصص خریدنے کا اقدام کرتاہے۔ لیکن وہ زر کی رسد میںکوئی اضافہ نہیں چاہتا۔ ایسی صورت میں اسے حصص کی خریداری کے ساتھ نسبت نقد محفوظ میں اتنا اضافہ کردینا چاہئے کہ بینکوں کو جو نیا نقد ملے وہ زر کی رسد میں توسیع کا زریعہ نہ بن سکے۔ فرض کیجئے کہ ایسی صورت حال میں مرکزی بینک زر کی رسدمیں تخفیف چاہتاہے۔ ایسی صورت میں نسبت نقد محفوظ میں نسبتہً زیادہ اضافہ کرنا ہوگا تاکہ نیا نقد حاصل ہونے کے باوجود بینکوں کو کاروباری طبقہ سے سرمایہ واپس لینے پر مجبور کیا جاسکے۔

حصص کے نرخ میں استقرار پید اکرنے اور زر کی رسد میں کمی وبیشی چاہنے کے مقاصد کو ایک ساتھ حاصل کرنے کی دوسری مثالوں کو اسی مثال پر قیاس کیا جاسکتاہے۔ جہاں تک بینکوں کو نقد کی رسد میں مسلسل اضافہ کا تعلق ہے وہ عرصہ طویل سے تعلق رکھنے والا مقصد ہے جیسے عرصہ مختصر کے مصالح کا تحفظ عمل میں لاتے ہوئے حاصل کرنا چنداں دشوار نہ ہوگا۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ بھی مناسب ہوگا کہ معیشت میں نقد کی مقدار میں اضافہ مرکزی بینک کے علاوہ خود حکومت بھی اپنے بعض اقدامات کے زریعہ کرسکتی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے حصص کی خریداری اس مقصد کے حاصل کرنے کا واحد زریعہ نہیں ہے۔

اس تضاد سے بچنے کے لئے ہم یہ بھی تجویز کریں گے کہ زر کی رسد میں کمی بیشی کے لئے زیادہ تر انحصار نسبت نقد محفوظ کی تبدیلی پر کیا جائے نہ کہ حصص کی خرید وفروخت کا اقدام ان غیر معمولی حالات میں کیا جائے جب نسبت محفوظ کی تبدیلی اس مقصد کے لئے کافی نہ نظر آئے، یا جب مطلوبہ مقصد کو کم سے کم عرصے میں حاصل کرلینا ضروری ہو۔ مثلاً افراط زر کی جانب شدید رجحان کی فوری روک تھام کے لئے آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں زر کی رسد کو قابو میں رکھنے کے لئے زیادہ تر انحصار نسبت نقد محفوظ میں تبدیلی پر کیا جاتاہے نہ کہ تمسکات کی خرید وفروخت پر۔ ان ممالک میں آسٹریلیا اور نیوزی لیند جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔

مناسب ہوگا کہ آخر میں متخصراً وہ وجوہ بھی بیان کردیئے جائیں کی بنا پر ہم مرکزی بینک کے لئے صرف حکومت کے جاری کردہ حصص کی خرید وفروخت تجویز کررہے ہیں، اگرچہ بازار میں نجی دائرہ سے متعلق تجارتی حصص کی بھی بھاری مقدار موجود ہوگی۔یہ پہلی وجہ یہ ہے کہ مرکزی بینک کے پیش نظر مقاصد کے لئے وہ حصص کی بھی بھاری مقدار موجود ہوگی۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مرکزی بینک کے پیش نظر مقاصد کے لئے وہ حصص زیادہ موزوں ہوں گے جن کی قیمتیں کم تغیر پذیر ہوں۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومتی حصص کے بازار نرخ میں عام حصص کے نرخ کے مقابلہ میں زیادہ  استقرار پایا جائے گا۔ اس کی وجہ حکومت کی اونچی ساکھ اور قومی دائرہ کے کاروباری اداروں کی نفع آوری کے سلسلے میں اس کی وہ پالیسی ہے جس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔ دوسری وجہ ہے کہ مرکزی بینک کے پاس کوئی معیار نہ ہوگا جس کو بعض کاروباری اداروں کے جاری کردہ حصص کے انتخاب اور بعض کے ترک کی بنیاد بنایا جاسکے جبکہ مرکزی بینک کے بھاری مقدار میں حصص خریدنے سے متعلقہ کاروباری اداروں کو غیر معمولی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ان کے لئے نئے حصص جاری کرنا اور مزید سرمایہ فراہم کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس طرح بعض صنعتوں اور کاروباری اداروں کے ساتھ ترجیحی سلوک لازم آئے گا جس کے لئے کوئی معقول معاشی بنیادی ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر کسی وقت مرکزی بینک کسی کاروباری ادارہ کے حصص کی بھاری مقدار فروخت کرتاہے تو ان حصص کے دام گرجانے اور اس ادارہ کے لئے مزید سرمایہ کی فراہمی دشوار ہوجانے کا امکان ہے۔ اس امتیازی سلوک کی کوئی معاشی بنیاد نہ ہوگی۔

یہ بات کہ مرکزی بینک عرصہ طویل میں اس سے زیادہ حصص خریدے گا جتنے کہ وہ فروخت کریگا یہ معنی رکھتی ہے کہ وہ حکومت کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سرمایہ کاروں کے لئے مزید سرمایہ فراہم کرتا رہے گا۔ اس سرمایہ کے زریعہ قومی دائرہ کے مفاد سے بالآخر پورے معاشرے کا مفاد وابستہ ہے اور اس کے ساتھ ترجیحی سلوک کسی شہری کے لئے وجہ شکایت نہیں بن سکتا۔ قومی دائرہ کی صنعتوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کیلئے ایک فلاحی ریاست میں معقول معاشی بنیادیں موجود ہیں۔

نسبت قرض میں تبدیلی

مجوزہ نظام بینک کاری میں کاروباری افراد اور اداروں کو طویل المیعاد سرمایہ کاری کے لئے بینکوں سے مضاربت اور شرکت کے اصول پر سرمایہ حاصل ہوسکے گا۔ لیکن جیسا کہ پہلے واضح کیا جاچکا ہے کاروبار کو سہولت کے ساتھ چلانے کے لئے چھوٹے چھوٹی مدتوں کے لئے عارضی طورپر کچھ سرمایہ درکار ہوتاہے جس کے لئے مضاربت اور شرکت کے اصول، اس صنعتی دور میں، قابل عمل بنیاد نہیں فراہم کرتے۔ یہ ضرورت بینکوں سے چھوٹی مدتوں کے لئے قرض حاصل کرکے پوری کی جاسکے گی۔ حقیقت پسندانہ مفروضہ یہ ہے کہ اس سرمایہ کی طلب طویل المیعاد سرمایہ کاری کی مقدار پر منحصر ہے۔ اگرچہ کاروبار کے مختلف دائروں میں طویل المیعاد سرمایہ کاری اور قرض سرمایہ کی ضرورت کے درمیان نسبتیں مختلف ہوں گی لیکن اوسطاً پوری معیشت کے لئے دونوں سرمایوں کے مابین نسبت دریافت کرنا ممکن ہوگا۔ چونکہ اس نسبت کا انحصار پیداوار کے طریقوں، مال کے ذخیرہ کرنے اور فروخت کرنے کے بارے میں عادات اور تیار شدہ مال کی فروخت کی رفتار وغیرہ پائدار اسباب وعوامل پر ہے لہٰذا اس کے جلد تبدیل ہونے کا امکان کم ہوگا۔ مرکزی بینک کا ایک کام یہ ہوگا کہ ماضی کے تجربے اور حال کے تجزیے کی مدد سے اس نسبت کو دریافت کرے اور ایسی نسبت قرض متعین کرے جو کاروباری طبقہ کے نئے موزوں مقداروں میں قرض سرمایہ کی رسد کا اہتمام کرے۔ جب مرکزی بینک یہ محسوس کرے کہ طویل المیعاد سرمایہ کاری اور قصر المیعاد قرضوں کے درمیان توازن نہیں قائم رہا جس کے سبب کاروبار تنگی میں مبتلا ہے تو اسے نسبت قرض میں مناسب تبدیلی کے زریعے اس صورتحال کا علاج کرنا چاہئے۔

اگر معیشت میں قرض کی رسد طویل المیعاد سرمایہ کاری کی نسبت سے کم ہو اور کاروباری طبقہ کی ضروریات قرض نہ پوری ہورہی ہوں تو کاروباری عمل سست پڑجائے گا۔ اپنی ناگزیر ضروریات کے پیش نظر کاروباری طبقہ مجبور ہوگا کہ طویل المیعاد سرمایہ کاری میں کمی کرے تاکہ سرمایہ کی ایک مقدار کو اس سے فارغ کرکے عارضی ضروریات کی تکمیل میں لگایا جاسکے۔ اجتماعی نقطہ نظر سے یہ سرمایہ کے بہتر سے بہتر استعمال کے مطابق نہ ہوگا کہ جو ضرورت چند ہفتوں کے لئے سرمایہ حاصل کرکے پوری کی جاسکتی ہو اسے پورا کرنے کے لئے تین مہینے کی مدت کے لئے سرمایہ حاصل کیا جائے۔ ایسی صورت میں اگر مرکزی بینک نسبت قرض میں اضافہ کردے تو قرض سرمایہ کی رسد بڑھ جائے گی اگر چہ مضاربت سرمایہ کی رسد میں اسی قدر کمی بھی واقع ہوجائے گی۔ چونکہ قرض کی مدت مضاربت پر دیئے جانے والے سرمایہ کی مدت سے گم ہوگی لہٰذا اس سرمایہ کے الٹ پھیر (Turnover) کے زریعے زیادہ کام لیا جاسکے۔

قرض کی رسد کے اس کی طلب سے نمایاں طور پر کم ہونے کی علامت یہ ہوگی کہ بنکوں کے لئے قرض کے طلبگاروں کی ایسی ضروریات پورا کرنا بھی ممکن نہ ہو جن کو وہ اہم اور حقیقی ضروریات قرار دیتے ہوں اور قرض کی بہت سی درخواستوں کو رد کرنا ناگزیر ہوجاتاہو۔ اس کے برعکس جب درخواستیں کم ہوں اور قرض دینے کے لئے رقم فراواں ہو، یااس مد میں گنجائش کے پیش نظر بینک ایسے قرضے دینے پر مجبور ہورہے ہوں جن کو وہ ناگزیر نہیں سمجھتے، تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ نسبت قرض ضرورت سے زیادہ ہے، اس میں کمی کی جانی چاہئے۔ نسبت قرض میں کمی مضاربت سرمایہ کی رسد میں اضافہ کا سبب بنے گی جس سے معیشت میں مستقل اور طویل المیعاد کاری میں اضافہ ہوگا۔ قرض کی رسد کم ہوگی جس سے کاروباری طبقہ مجبور ہوگا کہ قرض سرمایہ کا کفایت شعارانہ استعمال عمل میں لائے۔

جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں، یہ ضابطہ کہ بینکوں کے لئے اپنے قرض کھاتہ کا ایک متعین فیصد حصہ قرض کے طور پر دینے کیلئے آمادہ رہنا ضروری ہے اس لئے تجویز کیا گیا ہے کہ سود کی حرمت کے باوجود کاروباری افراد اور اداروں کو چھوٹی مدتوں کے لئے قرض حاصل ہوسکے۔ جیسا کہ ہم آئندہ صفحات میں واضح کریں گے، اسی ضابطہ کے تحت حکومت اور صارفین (Consumers) کو قرض کی فراہمی بھی ممکن ہوگی۔ ایک غیر سودی نظام میں ان مفید اور ضروری وظائف کی انجام دہی یعنی کاروباری طبقہ حکومت اور صارفین کو قرض کی فراہمی، اس ضابطہ کے بغیر دشوار ہوگی۔ نسبت قرض کی تیین کا رہنما اصول یہ ہوگا کہ ان ضروریات کی مناسب حد تک تکمیل کے بعد قرض کھاتہ کی زیادہ سے زیادہ رقم بینکوں کے لئے نفع آور استعمال کے قابل رہے۔ مرکزی بینک نسبتِ قرض میںتبدیلیوں کے زریعے قرض کی طلب، یعنی صارفین، حکومت اور کاروباری طبقہ کی ضرورتِ قرض کو مناسب حد تک پورا کرتے رہنے کا اہتمام کرے گا۔

نسبتِ قرض میں تبدیلی زر کی مجموعی رسد اور بینکوں کے کھاتوں کی مجموعی میزان پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ اگر صارفین اور حکومت کو نظر انداز کردیا جائے جیسا کہ ہم نے اب تک کیا ہے تو اس تبدیلی کا کاروباری طبقہ کو فراہم کئے جانے والے سرمایہ کا مجموعی مقدار پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کا اثر صرف مضاربت کے اصول پر فراہم کئے جانے والے سرمایہ اور قرض سرمایہ کی باہمی نسبت پر پڑتاہے، جیسا کہ ذیل کے نقشہ سے واضح ہے۔

اس نقشے کی پہلی سطر یہ بتاتی ہے کہ جب نسبت قرض پچاس فیصد تھی تو بینکوں کے حسابات کا مجموعی نقشہ کیا تھا۔ دوسری سطر نسبت قرض میں ڈھائی فیصد اضافہ اور تیسری سطر نسبت قرض میںڈھائی فیصد کمی کے اثرات ظاہر کرتی ہے۔

قرض کھاتہ، مضاربت کھاتہ اور نقد محفوظ کی مقداروں پر نسبت قرض میں تبدیلی کاکوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ سارا اثر دیئے جانے والے قرض اور مضاربت سرمایہ کی مقداروںپر پڑا ہے۔ پہلی اور دوسری سطر کا تقابلی مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ نسبت قرض میں ڈھائی فیصد کا اضافہ قرض کی رسد میںپندرہ سو کے اضافہ اور مضاربت سرمایہ کی رسد میں پندرہ سو کی کمی کا سبب بنتاہے۔ پہلی اور تیسری سطر کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ نسبتِ قرض میں ڈھائی فیصد کمی کے نتیجہ میں قرض کی رسد میں پندرہ سو کی کمی ہوئی ہے مگر مضاربت سرمایہ کی رسد میں پندرہ سو کا اضافہ ہوا ہے۔

استقراض سے متعلق ضابطہ کے تحت ہم نے یہ تجویز کیا ہے کہ کسی بینک کو مرکزی بینک سے ملنے والے قرض کی مقدار کا انحصار اس قرض کی مقدار پر ہوگا جو اس بینک نے دیاہے۔ اس سے لازم آتاہے کہ نسبت قرض میںتبدیلی بینکوں کو مرکزی بینک سے ملنے والے قرض کی مقدار پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اگر مرکزی بینک اس قرض کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہ کرنا چاہتاہو تو اسے نسبت قرض میں تبدیلی کے ساتھ نسبت استقراض میں بھی مناسب تبدیلی عمل میں لانی چاہئے۔ البتہ اگر نسبتِ قرض میں کی جانے والی تبدیلی تھوڑی ہو اور عملی حالات نسبت استقراض میں کسی تبدیلی کے متقاضی نہہوں تو اس اقدام کو موخر بھی کیا جاسکتاہے۔نسبت استقراض کا تعاین عام سودی بینکون میں مرکزی بینک کرتاہے آزاد مالیاتی پالیسی کے ذیر اثر آجکل چونکہ نسبت نقد محفوظ بینک خود طے کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لئے بینک اس نسبت کو کم از کم رکھتے ہیں اس صورت میں جبکہ نسبت استقراض کے تحت مرکزی بینک کمرشل بینکوں کی نقد کی کمی کو پورا کرنے کا خواہش مند بھی ہو اس لئے آج کے دور میں  مرکزی بینک نسبت استقراض میں کمی بیشی کو ایک مضبوط زری پالیسی کے لئے استعمال کرتاہے۔ اسلامی معاشیات دانوں کے ١٩٩٠ء کی دھائی سے پہلے کے آرٹیکل اٹھاکر دیکھیں جب کہ آزاد مالیاتی پالیسی نہ تھی اور نسبیتیں مرکزی بینک ملکی حالات کے مطابق طے کرتے تھے تو ان میں بھی مرکزی بینک کے اسی کردار کا ذکر ملتاہے اور ١٩٩٠ء کی دھائی کے بعد اسلامی معاشیات دان آزاد مالیاتی پالیسی کے اسیر نظر آتے ہیں۔

صدیقی (١٩٨٣) صاحب بھی بڑی صراحت کے ساتھ اس بات پر موثر نظر آتے ہیں کہ ان نسبتوں کا استعمال ملکی مفادات کے ملحوظ خاطر رکھ کر کیا جائے۔ مگر جدید فقہائے کرام آج کے دور میں رائج سرمایہ دانہ نظام کی آزاد پالیسی سے متاثر ہوکر اب آزاد اسلامی پالیسی کو اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

صدیقی (١٩٨٣) صاحب نے یہاں دیگر آلات زری پالیسی مثلاً تمسکات کھلی منڈیوں میں خرید{Open Market Operation (OMO)}  وغیرہ کا ذکر نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ او ایم او (OMO) کے اسلامی نظام میں بالکل مخالف ہیں۔

تمسکات کی کھلی منڈ یوں میں فروخت:{Open Market Operation (OMO)}

یہ آلہ چونکہ رسد زر کی تبدیلی میں نمایاں حصہ لیتا ہے جب سرمائے کے بازار بہت زیادہ تمایاں اور ترقی یافتہ شکل میں ہوں چونکہ اسلامی رعایت میں سرمایہ کے بازار بت کمزور ہوتے ہیں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس میں مدد کی جگہ شراکت رکھی ہے اور یہ شراکت مرکزی بینک کو شراکت دار کے درمیان ہوں گے۔ اور دونوں فریق نفع ونقصان میں شریک ہوں گے۔ یعنی مرکزی بینک اپنے فنڈ سے اور تمسکات کی فروخت کے نتیجے میں حاصل ہونے والے سرمائے کو منافع بخش کام میں لگا کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے منافع بخش کام میں لگا کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے منافع کو حاملین تمسکات میں تقسیم کرے گا۔ اور اس کے نتیجے میں چوں کے زر کی ترسیل میں قابل قدر تبدیلی واقع نہیںہوگی بلکہ اس کا مقصد ہی حکومت کو اپنے خسارے کو پورا کرنا ہے اس لئے یہ آلہ زر پالیسی میں کوئی سود مند کردار ادا نہ کریگا۔

یہ تو تھا مرکزی بینک کی خدمات اور اس کی زری پالیسی کے آلات پر اسلامی معیشت دانوں کے تجزیات اس مفصل بحث کے بعد ہم اب ان اسلامی معیشت دانوں کے نظریات پر ایک نقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد پاکستان کی زری پالیسی کا جائزہ لیں گے۔

تکملہ:     CONCLUSION:

ذرائع کے استعمال سے متعلق ہم نے چار قسم کے طریقہ تمویل کا مطالعہ کیا، ایک قرض کی صورت میں دوسرا بینک کی براہ راست سرمایہ کاری تیسری کاروباری حضرات کو شراکت کے تحت زر کی فراہمی چوتھا اشیاء کی خرید وفروخت اور کرائے سے متعلق ۔بینک کے ذرائع کا استعمال ان چاروں میں کچھ سے متعلق ہم نے تحریر فرمایاہے اس کے علاوہ بھی دیگر آلات کے استعمال کی سفارشات اسلامی معیشت دانوں کے مقالوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں ملتی ہیں۔ جن کا طریقہ کار اور اثرات کم وبیش یکساں ہیں بینک چاہے خود سرمایہ کاری کرے یا تمویل کے لئے زر مہیا کرے وہ کاروباری شریک کے ساتھ نفع ونقصان کا معاہدہ ہی کرے گا جس میں مشارکت اور مضاربت کے تحت شریک کرے گا۔ مشارکت اور مضاربت جدید اسلامی تمویلی نظام میں کافی مقبول آلات ہیں جس میں فرق جدید اسلامی معیشت دانوں میں یہ ہے کہ مضاربت میں نقصان صرف رب المال کا ہوگا مضارب صرف منافع میں طے شدہ نسبت سے شریک ہوگا جبکہ مشارکت میں نفع ونقصان میںدونوں شریک ہوں گے نقصان میں سرمائے کی نسبت کے لحاظ سے اور نفع میں طے شدہ نسبت کے لحاظ سے تقسیم کار ہوگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ اور  ١٩٩٠ء سے پہلے کے اسلامی معیشت دان زیادہ تر شراکت کو ہی سودی نظام کا اصل متبادل تصور کرتے ہیں اور اس بات پرزور  دیتے ہیں کہ تمویلی ادارے یا بینک یا تو شراکت کریں ورنہ اگر قرض کی لین دین کریں تو پھر وہ قرض حسن کی صورت میں ہو۔ براہ راست سرمایہ کاری میں براہ راست مضاربہ، شراکت، حصص وسرٹیفیکیٹ، تمسکات کی خریدداری کی سفارشات بھی اسلامی معیشت دانوں کے یہاں صراحیت سے ملتی ہیں حکومتی یا پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری ہو یا مرکزی بینک کے بانڈر، تمسکات کی خریداری ہو یا نجی حصص کی خریداری ہو یہ تمام کے تمام شراکت کی بنیاد پر خریدے جائیں گے۔

بینک سے متعلق دیگر تمویلی آلات کے استعمال جس میں خریدوفروخت اور کرایہ پایا جاتاہے یہ جدید تمویلی نظام میں لیزنگ (Leasing) سے ملتے جلتے ہیں۔ جس میںمنافع یقینی ہے اور ادائیگی بعد کی مدت/ مدتوں میںیکمشت بھی ہے اور قسطوں پر بھی ہے۔ ان خریداری اور کرائے سے متعلق آلات کے طریقہ کار اثرات سب ایک جیسے ہیں اور ان کے درمیان بہت معمولی یا فرق عملی طور پر روا رکھا جاتاہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کاروباری شریک کے ساتھ اس طرح کی بیع کو سودی نظام سے مماثل گروانہ ہے، کونسل کی رپورٹ صفحہ نمبر 132پارٹ IIبیع موجل میں تحریر ہے۔

جہاں تک صرف یا خرچ کرنے کے لئے فنڈ مہیا کرنے کا سوال ہے تو جیسے کار، مکان، کمپوٹر وغیرہ کی خریداری کیلئے تو اس صورتحال میں ان آلات کا استعمال نظریاتی کونسل کی رپورٹ میںملتاہے جدید بنکاری میں ان آلات کی قباحتوں کے باوجود جیسا کہ ہم نے دیکھا مرابحہ 80فیصد تک بینکاری میں رائج ایک اسلامی متبادل کے طورپر استعمال ہورہاہے۔ جو کہ خود ایک غور طلب معاملہ ہے۔ان نفع بخش آلات کے ساتھ ساتھ اسلامی بینکوں کو مخصوص قرض کی فراہمی کی سفارشات کا ذکر بھی ملتاہے کہ بینک اپنے فنڈ کا کچھ حصہ امدا باہمی کے لئے خرچ کرے جو کہ نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں مرکزی بینک کے ذمہ ہے کہ وہ ہر کھاتہ دار بینک کو مجبور کرے کہ ایسے فلاحی کاموں پر بھی اپنے فنڈز کو استعمال کرے۔ یہ بحث کہ اگر اسلامی بینک جو کہ آج کل منافع محض کے حصول کے تحت قائم ہورہے وہ اس کی کتنی پاسداری کرسکیں گے یہ کہیں نہیں ملتا۔  کچھ طریقہ کار جو کہ جدید سودی بینکاری میں رائج ہیں۔ ان پر بھی اسلامی معیشت دانوں کا اختلاف ہے وہ معیشت دان جوکہ قدرے محتاط ہیں وہ ان طریقہ کار کو رد کرتے ہیں جیسے منقولہ/ غیر منقولہ جائیداد کی دوبارہ خریداری (Buy Back) مبادلاتی بل/ہنڈی کی خریداری/ دوبارہ خریداری  وغیرہ ان میں اور سودی لین دین میںکوئی فرق نہیں ہے ماسوائے ناموں کے۔ اس لئے اس کی رد اسلامی معیشت دانوں کے یہاں موجودہ ہے *۔

اسلامی بینکاری کی عملی صورت میں جو پیچیدگیاں منافع کی تقسیم میں ہے اس پر کونسل کی رپورٹ اور ماہرین اسلامی بینکاری نے کافی تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح کھاتہ داروں کے درمیان نفع ونقصان کی تقسیم ہوگی اگر بینک نجی طورپر قائم ہے تو بینک کے حصہ داروں میں تقسیم کن بنیادوں اور کن طریقہ کار پر ہوگی۔ اس کے لئے علاوہ بڑی تفصیل سے اس پر مواد موجود ہے کہ جن پروجیکٹس پر بینک شراکت کرے گا ان پروجیکٹ پر مختلف نوعیتوں پر نفع نقصان کیسے طے ہوگا۔ پروجیکٹ کی دیکھ بھال اس کے اندر پائے جانے والے گھپلوں کو کیسے ختم کیا جائے گا اس پر بھی مفصل بحث موجود ہے کہ ایک غیر اسلامی معاشرہ میں جہاں لوٹ کھسوٹ، حرص وحسد کے جزبات ہوں وہاں پر ہم اسلامی بینکاری کو کس طرح کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے۔ علمی نوعیت کے کام تو سب موجود ہیں مگر عملی کوئی خالص اسلامی بینکاری کا ماڈل موجود نہ ہونے کی وجہ سے عملی میدان میں جو بھی اسلامی بینکاری رائج ہے اس میں شکوک وشبہات بہت ہے اور اس میں شراکت سے زیادہ مرابحہ/ اجارہ جیسے خریداری کے آلات کا استعمال زیادہ ہے۔

اسلامی بینک صنعتوں، زراعت کے خاص شعبوں میں بھی اسلامی تمویلی آلات کی مدد سے قرضہ اور سرمایہ کاری بہم پہنچائے گی۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں شراکت نہ کی جائے بلکہ، بیچ، کھاد، کیڑے مار ادویات کے لئے تو قلیل مدتی قرض حسن بہم پہنچایا جائے جبکہ دیگر آلات واشیاء کی خریداری کے لئے بیع مسلم، بیع موجل کے ذریعہ سرمایہ فراہم کیا جائے۔

اسلامی بینکاری طویل المعیاد سرمایہ کاری میں شراکت کو قابل عمل سمجھتی ہے مگر قصیر المعیاد سرمایہ کاری میں روز مرہ کے حساب سے منافع کی تقسیم کو عملی طور پر دشوار تصور کرتی ہے اس لئے اس کے لئے زیادہ دیگر آلات کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے۔

بینکوں کی باہم سرمایہ کاری (Inter Bank loaning)جس میںکوئی ضرورت مند بینک دیگر بینکوں جس کے پاس زائد محفوظات موجود ہوں سے ایک دن سے لے کر ایک سال تک کا سرمایہ لے سکتاہے۔ اس کے لئے زیادہ تر مضاربت کو ہی قبول کیا گیاہے ملیشیا کا مرکزی بینک مضاربت کی بنیاد پر ہی بینکوں کا آپس میں لین دین تجویز کرتاہے۔

ان تمام مباحث سے ایک بات پتہ چلی کہ اسلامی کمرشل بینک کم وپیش جدید سودی بینکوں کی ہی طرح تمام فرائض انجام دے گا اور اسی طرح افعال کرے گا۔ بس فرق اتنا ہوگا کہ وہ یہ تمام کام اسلامی شریعت کے اصولوں کو مدے نظر رکھتے ہوئے اسلامی سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہوں گے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی بینکاری جو کہ بلاسودی بنیادوں پر عام سودی بینک کو بھی دعوت دے رہی ہیں کہ وہ بھی ان مسلمانوں کے سرمایہ کو استعمال کرے جو سودی لین دین نہیںچاہتے۔ اسی لئے غیر اسلامی بینکوں میں بھی غیر سودی کھاتے کھولنے کے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ اب سٹی بینک (City Bank) ، اے بی ایم ایمرو (ABM Ambro) دوائچہ بینک، کومرز بینک (Commerz Bank) جرمنی نے بھی اسلامی بنکاری شروع کردی ہے۔ اسلامی بینکاری کے ٢٠٠٢ء کے اعداد وشمار کے مطابق اس کے کل اسٹیس (Assets) کی مالیت ١٢٠ملین ڈالر اور سرمایہ کاری کی مالیت ٥٠بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اس کے ممبروں کی تعداد ٢٠٠ سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ کم وبیش ٥٠ ملکوں میں اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔

دیگر مالیاتی اداروں میںسرے فہرست انشورنس کمپنیاں ہیں انشورنس کے کاروبار کو اسلامی بنانے کے لئے تکافل کی اسلامی اصطلاح (termenology) کو استعمال کیاگیاہے۔ کہ تمام شرکاء جو کہ انشورنس کرواتے ہیں جس میں پریمیم (Premium) کی ادائیگی کے بابت اس کی اصل یا اس کا منافع غیر متوقع ہو۔ اس صورت میں اسلامی معیشت دان اس نیت کے تحت اس کو جائز سمجھتے ہیںکہ وہ افراد امداد باہمی کے تحت انشورنس کریں اور اپنے بھائی کو جوکہ ناگہانی آفت میں ہو اس کے نقصان کو باہم مل کر بانٹیں۔ یہ نظریہ بیان کرنے میں تو خوب ہے مگر وہ ممالک جہاں اسلامی معاشرہ نہیں ہے اور نیتیں بھی سٹہ بازی، قمار بازی کی ہیں وہاں اس کا استعمال کیسے ہوگا اسلامی معیشت دان اس پر خاموش ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ دونوں بیمہ زندگی اورجرنل بیمہ (Gernal Insurance)کے لئے تجویز کرتی ہے کہ ایسا بیمہ جوکہ طویل المعیاد ہوں ان کو کارپریٹو (co-operative) کی بنیاد پر منظم کیا جائے اس سے حاصل ہونے والے پریمیم کو منافع بخش کام میںلگا کر اس کا کچھ حصہ، بیمہ لینے والوں میں تقسیم کردیاجائے  اور کچھ حصہ کو کلیم (Claims) کی ادائیگی کے لئے مختص کردیا جائے۔

وہ بیمہ جو کہ قصیر المعیاد ہے جیسے ہوائی سفر وغیرہ کے لئے حکومت ایک ٹرسٹ قائم کرے اس میں جمع شدہ رقم سے بیمہ کاروں کوناہی اصل ملے گا اور نہ ہی اس کا منافع  بلکہ یہ جمع رقم ٹرسٹ کی ملکیت ہوگی جو کہ اس کے (Claim) کی صورت میں اس فنڈ سے بیمہ کار کی مدد کرے گا۔ دونوں ١٩٩٠ کے بعد کی اسلامی بینکنگ کی سفارشات اور ١٩٨٠ سے پہلے کی سفارشات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ ان امور کو پبلک سیکٹر (Public Secter) یا حکومت کی ذمہ داری تصور کرتی ہیں اور بیمہ کے کاروبار کو منافع کے لئے کرنے پر کوئی اشارہ نہیں ملتا جبکہ موجودہ دور کے اسلامی معیشت دان تکافل کے زریعے انشورنس کو بحیثیت ایک منافع کے حصول ادارے کے طور پر قابل عمل سمجھتے ہیں اور اس کو ناصرف سود سے پاک بلکہ، قمار بازی سے بھی پاک تصور کرتے ہیں۔

مرکزی بینک کا جو ماڈل صدیقی (١٩٨٣)نے دیا ہے اور اس دور سے متعلق ہے جب کہ مرکزی بینک آزاد نہ تھا ۔ اب جبکہ مرکزی بینک آزاد ہے اس صورت میں اسلامی بینک کا کیا کردار ہوگا اس کے بارے میں اسلامی معیشت دان خاموش ہیں۔ وہ تو اس بینک کی آزادی کو قبول کرتے ہوئے کمرشل بینک کو اس کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے کھاتے دار بینک کے باب میں دیکھا ۔

اسلامی معیشت دانوں پر تنقیدی جائزہ:

اسلامی معیشت دان جس مالیاتی نظام کو سودی نظام کی جگہ لانا چاہتے ہیں وہ بحیثیت متبادل کے انفرادی طورپر تو فقہی نقطہ نظر درست ہے کہ وہ سود کا ایک متبادل پیش کرتاہے۔ یعنی مالیاتی نظام کے اجزاء کی تطہیر کا کام سرانجام دیتاہے مگر نظام کا بحیثیت کل رد نہیں کرتا بلکہ اس کو غیر جانبدار تصور کرکے اس کی جزوی اصلاح پر اکتفاء کرنا ہے۔ جو نظام اسلامی نظام مالیات کے متبادل کھڑا ہے وہ سرمایہ دارنہ نظام ہے جس کی جذیات سے ہم پہلے ہی واقفیت حاصل کرچکے ہیں۔

سرمائے کے بازار اور زر کے بازار جن کا اصل منافع محض کے لئے سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کے لئے سود کا استعمال ہے جب اسلامی معیشت سرمایہ دارنہ نظام میں سود کے ختم کرے پر ہی اپنا ذور دیتی ہے جو وہ اس نظام کے ایک جذ کو تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے جس کے نتیجہ میں سرمایہ دارنہ نطام جوں کا تون کھڑا رہتاہے اور اس کی روح باقی رہتی جبکہ اسلامی نظام جو قائم ہوتاہے وہ اس نظام میں حل نہیں پاتا اور معاشرہ کو اسلامی خطوط پر استوار نہیں کرتا بلکہ سرمایہ داری کو معاشرہ میں جائز مقام دلواتاہے۔

اسلامی معیشت دانوں نے لگ بھگ وہ ہی ردے عمل ظاہر کیا جو کہ١٦ ویں صدی میں عیسائی پرٹیسٹینٹ (Protestant)مفکیرین نے کیا ۔  یہ افرد بھی سرماداری کے سخت مخالف تھے ۔ کمرشل معاشرے کو پورے شرح صدر سے رد کرتے تھے لوتھر  (Luther)تو سود (Usury) حرص(Avaris)کا بڑی شدت سے مخالف تھاوہ  سود کو شیطانی ایجاد تصورکرتا ہے ، اس کے لینے والو ں کو عیسائی عبادات میں شریک نہیں کرنے اور  ان کو عیسائی تدفین نہیں دینے  کاشددت سے خواہا ں تھا۔ اتنی سختی کے باوجود اس دور میں یہ تصور کرتے تھے کہ ہم سرمایہ  داری کا مقابلہ اس طرح کرسکتے ہیں کہ ہم اپنے اعتقادات کو درست رکھیںاور ان ہی اداروں کو استعمال کرکے ان کو عیسائیت کے فروغ میں استعمال کریں۔عیسائیت بھی سرمایہ دارنہ اداروںکو غیر عقائدی ادارے تصور کرکے ان کے اندر تطہیر(Reformation)چاہتے تھے(Tawney 1926)۔ مگر ہواکیا ؟ اگلی ہی صدی میں عیسائیت مغربی معاشروںسے بدخلہو نے لگی اورسر مایہ دارانہ عقلیت پورے یورپ تیزی سے سرائیت کر گئی۔سرمایہ داری کے فروغ میں جہاں لبرل ،سکیولر افراد پیش پیش رہے وہاں اس دور میں عیسائیت نے اس کے فروغ میں معاونت کی اور عیسائی اداروںکے فروغ کے بجائے سرمایہ دارانہ اداروںکی ہی جلاء بخشی۔ عیسائی تا ریخ سے سہو نظر کرتے ہوئے آج اسلامی معیشت دان یہ کوشش کررہے ہیں کہ ہم سرمایہ داری کے جزسود کی  تومخالفت کریں مگرسرمایہ داری کی بحثیت نظام کو ئی رد پیش نہ کریں ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کی چند خباثوں کی اندونی تنقید ضرور کریں۔اس طرح وہ سرمایہ دارنہ اداروں  زر اور سرمائے کی مارکیٹ کو غیر جانبدار تصور کرتے ہیں اور بلکل نیو کلاسلیکل ماڈل کو اسلامی ماڈل کے طور پر اپناتے ہیں۔اسی لئے جب وہ سود کی حرمت کی بات کرتے ہیں تو اس کے ساتھ اسلامی اقدا رفقر ، قناعت ، تقویٰ،غلبہ دین سے سہو نظر کرتے ہیں۔

 اسلامی بینکاری وہ ہی طریقہ بینکاری اپناتی ہے جس کو سودی بینکاری رائج کرتی ہے ۔ جیسا کہ موجودہ دور میں صارف کی بینکاری  میں بینک صارف کو اپنی تعشات کے  لئے جیسے گاڑی ، مکان ، ذاتی قرضے بڑے پیمانے پر سود پر  دے رہا ۔جس سے اس کا متمع نظر اپنے منافع میں اضافہ اور معاشرے میں حرص کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اسلامی بینکا ر ی بھی اس نہج پر اجارہ اور مربحہ کر بنیادوں پر صرف کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ یہ ہی  وجہ ہے کہ یہ دونوں تمویلی آلات اسلامی بینکاری میں سب سے زیادہ استعمال ہورہے ہیں۔اس کے باوجود کہ اس کا استعمال مجبوری اور قباحت کے ساتھ ہے اور سود کے اثرات لیے ہوئے ہے۔ اسلامی بینکاری اس بات سے بھی اغماز برتی ہے کہ اس صرف کے لیے دیے جانے والے قرضوں کا اثر ایک اسلامی معاشرے پر  اور  مسلمانوں کی زندگیوں پر کیا پڑیں گے۔

 اسلامی بینک اس سے کوئی سروکا ر نہیں رکھتے کہ ان سے کون کس مقصد کے لیے قرضے لے رہا ہے ۔ایک دنیا دار اور ایک دیندار ان کی نظر میں یکساں ہے ۔ اس طرح مغربی افکار مساوات(Equality) کے قائل ہیں جیساکہ رالز نے اپنے پہلے انصاف کے اصول(First Principle of Justice)  میں دعوہ کیا تھا کہ انسان آزاد اور برابر ہے ان معنی میں کہ ہر سخص اپنی خوہشات کی پیروی کرتا ہے۔ اسی لیے کسی کے عمل کو کسی دوسرے کے عمل پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔اسی طرح حرام اور حلال ، جائز ناجائز کی کوئی تمیز اسلامی بینکاری میں روا نہیں ہے۔ اسلامی فقہا ئے کرام نے تو حلال میں بھی درجہ بندی کی ہے۔یہ درجہ بندی نہ ہی وسائل کے استعمال میں کہیں نظر نہیں آتی اور نہ ہی وسائل کے فراہم کاروں میں نظر آتی ہے۔سب سے زیادہ جو علامت اسلامی بنکاری میں غیر اسلامی اور اسکو لبرل نظام سے مشابہت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ تعلقات کی بنیاد غرض پر استوار ہے ۔ جبکہ اسلام میں تعلقات کی بنیاد محبت ، بھائی چارگی، اطاعت  اور فرمابرداری پر قائم  ہوتی ہے ۔اسی لیے مضاربت کے استعمال میں وہ تمام قباحتیںپائی جاتی ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر نجات ا ﷲصدیقی نے کیا تھا ۔اسی لیے اسلامی بینک اس کا شافی حل دینے سے قاصر ہیں اور اجارہ اور مرابحہ کو ہی استعمال کررہے ہیں۔

اسلامی بینک اسلامی اداروں میں شاید وہ واحد ادارے ہوں گے جو اسلامی ہونے کے دعودار بھی ہیں اور یہ دعوت و اشاد کا فریضہ انجام نہیں دیتا۔  ان سے منسلک افرادکا اسلامی شعار کو پروان چڑھانا اس ادارے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔اس سے منسلک علمائے کرام و فقہائے عظام صرف میں استعمال ہونے والے تمویلی آلات پر فتویٰ لگا سکتے ہیں ۔ ان آلات کے استعمال کے نتیجے میں کیا نتائج نکلیں گے اس سے انکا کوئی غرض نہیں ہوتا ہے۔یہ صرف مشیر ہوتے ہیںجن کا تعلق صرف مشورے سے ہوتا ہے جس کی وہ فیس وصول کرتے ہیں اسی لیے ھینری اور ولسن  1نے ان کی اسلامی بینکوں کے مشیروں کے حولے سے درست تعبیر کی ہے کہ وہ اس نظام میںمنسلک ہو کر سرمایہ دارانہ معاشرت و بود باش اختیا کرگیے ہیں اور وہ دنیا پرستی (سرمایہ داری ) کے جواز میں ہی فتویٰ ترشتے ہیں۔

اسلامی بینکاری کی اس تمام مباحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی بینکاری سرمایہ داری کے فروغ کا ذریعہ ہے اس لیے اس پر بروسہ کرنے کے بجائے ایک ایسے متبادل کی ضرورت ہے جو کہ سرمایہ داری کا متبادل ہو اور اسلامی غلبہ کا موجب بھی ہو ۔

بینک محفوظات (Bank Liabilites)        

بینک کے قیام کے لئے جو طریقہ اسلامی معیشت دان وضع کرتے ہیں یہ وہی طریقہ ہے جو کہ کسی کمپنی کے قیام کے لئے ضروری ہوتاہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ اسلامی بینکاری جو نجی طور پر قائم ہوگی ابتدائی سرمائے کے لئے شیئر کو بیچے گی اور ان شیئر کو خریدنے والے آپس میں مشارکت کے اصول پر شراکت کریں گے۔ شراکت کا عقد تو درست ہے مگر سرمایہ دارنہ معیشت میں میں کمپنی کا مالک کوئی نہیں ہوتا یعنی یہ شیئر کے رکھنے والوں کو کمپنی کے قیام میں نہ عمل دخل ہوتاہے اور نہ ہی وہ اس کمپنی سے متعلق کوئی معلومات رکھتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے تحت قائم یہ بینک جب شراکت کرتے ہیں تو اسلامی ملکیت کے اصول کی نفی کرتے ہیں۔ شیئر مارکیٹ میں مالک کے فرائض تو بینک منیجر ادا کرتاہے جو کہ ملازم ہوتاہے اوربینک منیجر کمپنی کے بنائے گئے اصول کے تحت وہ طریقہ کار وضع کرتاہے جس سے منافع محض میں اضافہ ہو یعنی اصل ملکیت سرمایہ کی ہوتی ہے کہ اس کا اضافہ ہی اصل حدف ہوتاہے۔ اسی کے اضافہ کے لئے احکامات وضع کئے جاتے ہیں اور اسی کے لئے ملازمین کو برطرف یا نوکر رکھا جاتاہے۔ شیئر ہولڈر تو ایسے فرضی مالک ہوتے ہیں کہ ان کو کمپنی سے متعلق کوئی علم نہیں ہوتا وہ تو منافع کے ایک قلیل حصہ کے حقدار ہوتے ہیں اس طرح جدید اسلامی معیشت دان شراکت کے اصول کے تحت جو بینک قائم کریں گے اس میں شراکت کا عقد برائے نام ہوگا کہ کاروبار میں کوئی عمل شریک نہیںہوگا بلکہ شراکت صرف سرمائے کی ہوگی اور وہ ہی اس کا اصل مالک ہوگا۔ اسی طرح شخصی ملکیت ختم ہوجائے گی اور فرضی ملکیت قائم ہوگی۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ جب ہم جز یعنی سود کو لیں اور کل یعنی سرمایہ داری کو نہ لیں تو پھر اسلامی قانون پر مکمل عمل نہیں ہوگا اور اسلامی بینکاری کے معاشرتی اثرات کچھ نہ ہوں کے اور افراد ویسے ہی حریص وحاسد ہوں گے اور وہ اپنے یہ اقدام جائز طریقے سے پورا کریں گے۔ یہاں ایک اصولی بات سامنے آئی کہ اگر بینک قیام نجی طور پر منافع محض کے اصول پر شیئر کی خرید وفروخت کی بنیاد پر ہوگا تو اس صورت میں اسلامی نجی ملکیت ختم ہوجائے گی اور فرضی ملکیت سرمائے کی قائم ہوجائے گی جو سرمایہ داری کو فروغ دے گی اور سود کی جگہ سٹہ کو فروغ دے گی۔ جیسا کہ اسٹاک مارکیٹ میں دیکھا کہ سٹہ صرف کاروبار کی بنیاد کے لئے فراہم نہیں کئے جاتے بلکہ بنکاری کے کاروبار سے ہٹ کر شیئر کی خرید وفروخت سٹہ بازی کی بنیاد پر شروع ہوجاتی ہے اس طرح شیئر کے کاروبار سے سٹہ بازی کو فروغ حاصل ہوگا جو کہ ایک دوسرا حرام عمل ہے۔

دوسرا نجی طور پر بینک کے قیام کا اسلامی اصول کی تنقید یہ ہے کہ بینک جو کہ زر کی خرید وفروخت کا ادارہ ہے نہ کہ اشیاء کی خرید وفروخت اگر بینک منافع محض کے لئے نجی طور پر اپنا کاروبار فروغ دے گا تو زر کے کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع بینک کے حق میں سود ہوگا بینک کیونکہ ثالث ہے اس کا کام کھاتہ داروں سے حاصل رقم کو کاروبار فریق کو اپنی نگرانی میں دے کر کھاتہ دار کو مال کے بدلہ میں منافع باہم پہچاسکے اور کاروبارفریق کو کاروبار کے لئے رقم / مال فراہم کرے چونکہ بینک نہ ہی سرمایہ لگا رہا ہے نہ ہی کاروبار میں محنت اس طرح وہ نہ تو شریک ہے نہ ہی رب المال اس لئے بینک کا کام بغیر منافع کے خدمت پہنچانی ہے تاکہ منافع کماتاہے۔ بینک اگر ابتداء  میں سرمایہ لگا تا بھی ہے تو اسکا تناسب کھاتے داروں کے فراہم کیے ہوئے وسائل کے مقابلہ میں نا ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ آج کل کے دور میں کاروبار کے فروغ اور اس کے قیام کے لئے کثیر مال کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ چند افراد کی بچتوں سے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے بینک کی ضرورت کے پیش نظر دور جدید میں بینک ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ مگر اس ضرورت کو پورا کرنا حکومت یا اسلامی اداروں / انجمنوں کا کام ہے جو بینک کو بغیر منافع کے حصول پر پولیس فوج کے اداروں کی طرح خدمت کی انجام دہی کے لئے قائم کریں۔

تیسرا منافع کے دو حصہ داروں یعنی مضارب / کاروباری فریق اور رب المال / کھاتہ داروں کے درمیان جو بھی عقد ہو اس میں منافع یا کرائے کا حصول آسان ہے جبکہ تیسرے فریق یعنی بینک کے حصہ داروں کے ساتھ نفع میں شراکت بہت مشکل اور فقہی کافی پیچیدگیوں کا حامل ہے۔ جیسا کہ ہم نے  اسلامی بینکاری ماڈل میں دیکھا ایک عقد شراکت کا بینک کے حصہ داروں کے درمیان طے پاتا ہے۔ جب کہ دوسرا عقد کھاتہ داروں اور حصہ داروں کے درمیان طے پاتا ہے، جو کہ مضاربت کا ہے اس طرح جو منافع تقسیم ہوا وہ مضاربت اور مشارکت کے مجموعہ کا اجتہادی نام ہے اس کو مشاکہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس میں مالخلت ملت(mix) ہوجاتاہے اس لئے اس کو مشاکہ کہتے ہیں یہ تو ذمہ داریوں (Liabililte) کی بات تھی اور (Assets) کی طرف سے ایک عقد بینک (جوکہ مجموعہ ہے کھاتہ داروں اور حصہ داروں کا) اور کاروباری فریق کے درمیان ہوگا اس میں مضاربت / مشارکت / بیع مسلم / اجارہ/ مرابحہ وغیر ہ شامل ہیں۔ اس کاروباری فریق سے حاصل ہونے والا منافع تینوں میں اپنے تناسب سے تقسیم کردیا جائے ۔ اس طرح ایسا گھمبیر نطام قائم ہوگا جو کہ خود اپنی ناکامی کا سامان کررہاہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بینک منافع کے حصول کے برخلاف پبلک سیکٹر (Public Secter) پر قائم ادارہ ہوگا جس کا کام ثالثی ہوگا جو کہ کاروبار کے فروغ کے لئے زیادہ سے زیادہ مال / رقم باہم پہنچائے گا ہاں اس کے لئے حق خدمت (Service Changes) لینے کا فقہی حق موجود ہے۔ جس کی تفصیل ہم پچھلے بات میں دیکھ چکے ہیں۔

مضاربت کھاتوں کے سلسلہ جو ڈاکٹر نجات اﷲ صدیقی کا استدلال دیکھا  اس میں  خرابی کی وجہ بھی یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ معیشت کا پورے طور پر احاطہ کرئے بغیر جب اسلامی تمویل کے اعمال کو بنکاری نظام میں رائج کرنے کی سعی کی جاتی تو پھر سرمایہ دارنہ نظام کی تمام خرابیاں اسلامی نظام کی خرابیاں بن جاتی ہیں اور بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اسلامی نظام چلنے والا نظام نہیں ہے۔ جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے عدل وانصاف پر مبنی یہ نظام در اصل ظلم پر قائم سرمایہ دانہ نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ دوسرا اسلامی نظام تو اطاعت و فرمابراری اور بھروسے پر قائم نظام ہے۔ اس نظام میں حلال اور اولیٰ عمل کو حرام اور غیر اولیٰ عمل پر فوقیت ہوتی ہے چاہے حرام کام میں کتنا ہی منافع کیوں نہ ہو۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام اس کا متضاد ہے اسلئے کہسرمایہ داری میں منافع کا حصول ہی اولین حدف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب جب اس بات کا احاطہ کرتے ہیں تو بالکل درست بات کرتے ہیں کہ کھاتہ داروں کو جنہوں نے اصل سرمایہ لگایا ہے ان کو نفع میں کم حصہ ملتاہے مگر اس کو حق بجانب بتاتے ہوئے جو استدلال دیتے ہیں اس میں خرابی وہی ہے کہ جو سرمایہ دارنہ نظام کو سمجھنے میں اسلامی معیشت دان کرتے ہیں۔  کہ سرمایہ دارای ایک  نظام ہے جس میں حرص و حسد پروان چڑھتا ہے اس لیے کھاتے دار اوربینک سے وسائل کا حاملیںمیں مقابلہ ہوتاہے ۔اس کے علاوہ اس اسلامی بینکاری میں عملی یہ قباحت بھی ہے کہ،   چونکہ اسلامی بینکاری کا قیام اسی طرح بتایا ہے جس طرح جدید سرمایہ دانہ نظام میں کمپنی قائم ہوتی ہے۔ جب حصہ دار بینک کا قیام کرتے ہیں تو جدید بینکاری میں ان کا کوئی حصہ بھی بینک کاری چلانے میں نہیں ہوتا یہ کام تو بینک کے منیجرز اور دیگر منیجمنٹ کرتی ہے کہ بینک کو کس طرح نفع بخش کاروبار بنایا جائے بیچارے حصہ دار بینک کو تو بینک اعمال کو کا کچھ بھی علم نہیں ہوتا اس لئے ان کی محنت کا کوئی حصہ بینک میں نہیں لگتا اور وہ بھی کھاتہ داروں کی طرح صرف سرمایہ لگاتے ہیں۔ اس طرح جب وہ محنت صرف ہی نہیں کررہے تو پھر وہ کس طرح بینک زیادہ نفع لینے کے مجاز ہوسکتے ہیں۔

دوسرا جس کا ہم بارہا ذکر کریں گے اور جو ہماری استعدلال کا ہم حصہ ہے وہ یہ کہ بینک تو ثالث کا کردار ادا کرتاہے۔ جو کہ کاروباری فریق کو عوام الناس سے حاصل شدہ رقم کو جمع کرکے دیتاہے تاکہ ایک طرف کاروبار میں وسعت ہو اور زری پالیسی کے زریعہ معیشت اسلامی کا فروغ ہو دوسرا وہ افراد جو خود براہ راست کاروبار نہیں کرسکتے ان کی چھوٹی بڑی بچتوں کو نفع آور کاروبار میں لگا کر ان کی کفالت کا صحیح بندوبست بھی کیا جاسکے۔

جبکہ اگر کاروباری ثالث اگر امداد باہمی کے اصول پر گامزن نہیں ہوگا بلکہ خود منافع کے حصول پر کام کرے گا تو پھر درج بالا مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ دیگر یہ کہ اسلامی تاریخ کبھی بھی اس کی مثال پیش نہ کرسکی کہ کوئی ثالث رقم جمع کرنے کے عیوض منافع لے اس لئے کہ بینک کے لئے یہ رقم یا تو امانت ہوگی یا قرض تو دونوں صورتوں میں اس کا استعمال اس طرح کیا جائے کہ خود ثالث کو نفع نہ ہو ورنہ نفع سود کے علاوہ کچھ نہیںہے۔ سرمایہ دارنہ معیشت میں زر کے بازار کا فروغ اور اس سے نفع کا حصول بغیر سودی لین دین کے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس سودی لین دین سے بچنے کے لئے جہاں شراکت اپنایا جارہاہے وہاں پر بینکاری نظام کو نفع کی بنیاد کے بجائے امداد باہمی کے اصول پر غیر منافع بخش کام بنایا جائے جس کی ذمہ داری اگر اسلامی ریاست موجود ہے تو وہ لے گی ورنہ اس کی ذمہ داری اسلامی جماعتوں / اداروں پر ہے کہ وہ اس کو قائم کرکے غیر منافع کے اصول پر کام کرے ہاں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے سروس چارجز لے سکتے ہیں جس کی تفصیل ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔

شراکت کے علاوہ دیگر طریقہ تمویل کا تنقیدی جائزہ

شراکت کے علاوہ جتنے بھی طریقہ تمویل اسلامی معیشت دانوں نے متبادل کے طور پر پیش کئے ہیں ان پر خود اسلامی نظریاتی کونسل نے جو اعتراض پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عقد دراصل مجبوری کے طور پر قبول کیا گیا ہے کہ یہ سود کو پچھلے دروازے سے لانے کا سبب بنتاہے اس لئے اس رپورٹ کے مطابق خالص زریعہ تمویل بنکاری نظام میں شراکت ہے۔

مرابحہ کے اندر چند پیچیدگیاں:

مرابحہ کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ بینک شے مرکوزہ کا ناصرف مالک ہو بلکہ بینک کے پاس قبضہ مالکانہ بھی ہو۔ اور یہ قبضہ گاہک کو فروخت کرنے سے پہلے ہوجانا چاہئے یہ ایسی شرط ہے جس کی احتیاط موجودہ دور میں نہیں رکھی جاتی۔ بینک مزکورہ شے خریدنے سے پہلے ہی سودا کرلیتاہے۔ اس طرح بینک اور گاہک کے درمیان معاہدہ غیر شرعی ہوجاتاہے اور یہ سودی لین دین ہی بن جاتاہے۔

دوسری شرط جو کہ اس پہلی شرط سے منسلک ہے وہ یہ کہ بینک اور فراہم کار (Supplier) کے درمیان معاملہ، بینک اور گاہک کے درمیان معاملات الگ الگ اور آزاد معاہدوں کے تحت ہونے چاہئے ہیں۔ جبکہ بعض دفعہ بینک یہ شرط عائد کردیتاہے کہ اگر شے مذکورہ گاہک نہیں خریدے گا تو پھر بینک اور فراہم کار کے درمیان معاہدہ ختم ہوجائے گا۔ جیسا کہ ہم نے پچھلی شرط میں دیکھا کہ بینک پہلے ملکیت لے گا یعنی فراہم کار اور بینک کے درمیان ایک آزاد معاہدہ پہلے ہوچکے گا اس

 کے بعد بینک اور گاہک کے درمیان معاہدہ ہوگا۔ دوسرا گاہک بھی آزاد ہے کہ وہ مذکورہ شے کے خریدنے کا ارادہ بدل دے اس صورت میں بینک کو خطر انگیزی (Risk) سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس معاملات کی رعایت جدید بینکاری سے عبس ہے کہ وہ بینک جو منافع کے حصول پر کام کررہے ہوں وہ اس طرح کا خطرہ مول لینے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے وہ تو ضرورت مند گاہک کو یا تو مجبور کریں گے کہ مذکورہ شے وہ ضرور خریدے یا فراہم کار سے ایسا معاہدہ کریں گے کہ وہ گاہک سے معاہدہ نہ ہونے کے پیش نظر شے مذکورہ کو واپس لے لے۔ اس سرمایہ دارنہ معاشرہ میں تاجر جو کہ بینک کا گاہک ہوگا وہ بھی اپنے منافع کے حصول پر کافرما ہو کر شریعت کی اس رعایت کا غلط استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور بینک سے دھوکا دہی کا مرتکب ہوسکتاہے۔

ایک اور شرط جس کا اسلامی معیشت دان سمجھتے ہیں کہ یہ بھی پوری ہونا بہت مشکل ہے کہ مرابحہ چاہے رقم قستوں کی صورت میں دی جائے یا یکمشت التواء کرکے دی جائے دونوں صورتوں میں اگر گاہک رقم معنیہ مدت میں نہ دے سکا تو بینک اس سے زائد رقم جرمانہ کے طور پر وصول نہیںکرسکتا تو اس شق کا بھرپور فائدہ سرمایہ دارنہ معاشرہ میں کاروباری فریق کو ہوگا اور وہ ادائیگیوں میں بے قاعدگی کا مرتکب ہوگا اس کی ایک صورت جو جدید فقہائے کرام نے وضع کی ہے کہ جرمانہ کی رقم گاہک بطور صدقہ بینک کے بتائے ہوئے کسی رفاہی ادارے یا شخص کو دینی ہوگی۔ مگر اس میں بھی بڑی بیچیدگیاں ہیں۔

یہ وہی دشواریاں ہیں جن کے سبب اگر حقیقی معنی میں مرابحہ کا استعمال کیا جائے تو وہ بھی خطرات سے پر (Risky)  زریعہ تمویل ہے اور ایک غیر اسلامی معاشرہ میں یہ سود کو جائز کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتاہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ سودی بینکاری میں یہ طریقہ تمویل استعمال کیا

 جارہاہے تاکہ وہ مسلمان جو اپنی رقم سودی لین دین میں استعمال نہیںکرتے وہ بھی اس سودی بینکاری نطام میں شریک ہوجائیں۔ ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اسلامک ونڈو (Islamic Window) کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ سب سے پہلے لندن کے بی سی سی آئی بینک نے اسلامی وندوز میں مرابحہ کو استعمال کیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے سب سے بڑے تجارتی بینک نیشنل کمرشل بینک نے ایک بین الاقوامی تجارتی فنڈ قائم کیا جو مرابحہ کے اصولوں پر کام کرتاہے۔ اے بی این ایمرو (ABN Ambro) بینک کی اسلامی ونڈو المیزان بینک کے نام پر بلاسودی بینکاری کررہی ہے اور سرمائے داری اور یہودی بینکوں کی پشت پناہی کررہاہے۔ جو بات مرابحہ کے اصول سے نکلتی ہے کہ بغیر نظام کی تبدیلی کے مرابحہ کو بڑی آسانی سے سودی نظام میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ مگر چونکہ ہمارے نزدیک نظام کی تبدیلی اصل محرک ہے ناکہ جزوی اصلاحات اس لئے مرابحہ کے استعمال سے پہلے ان جزیات وشرائط کو بھرپور طریقہ سے مدے نظر رکھنا ہوگا۔

ان مباحث کاتناظر یہ ہی ہے کہ سرمائے داری کی مکمل آگاہی نہیںہے اس لئے کسی بھی اسلامی جز کو اٹھا کر اس کو انفرادی طور پور سرمایہ دارنہ نظام میں پیوست کردیا جاتاہے اور سرمایہ داری اور اس کے اداروں کو غیر جانبدار تصور کیا جاتاہے۔ ظاہر ہے بینکاری کی تاریخ جو مغربی معاشرہ میں شروع ہوئی وہ سود کے جائز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ 8سود جو عیسائیت میں بھی حرام تھا جس کا لین دین اس حد تک منع تھا کہ اس میں شریک آدمی کسی بھی بڑے سرکاری عہدہ کا حامل نہیں ہوسکتاتھا۔ ١٤  اور  ١٥ ویں صدی تک جب تک عیسائیت کا یا چرچ کا غلبہ رہا ریاست یا براہ راست چرچ کے زیر تسلط رہی یا بادشاہت زریعہ عیسائی اقدار معاشرہ میں موجود رہیں تو مغرب میں بینکاری کا نظام رائج نہ ہوسکا۔ ١٦  صدی کے وسط میں چالس V کے دور کے بعد سے جس طرح عیسائیت کی جگہ لبرل اقدار در آئیں اس کے بعد یورپ میں دنیا پرستی کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ ١٧ ویں اور ١٨ ویں صدی کی عسکری اور تہذیبی فتوحات نے ان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دنیا میںترقی کو اولیت دیں اور آخرت کے تصور کو بالکل فراموش کردیں عیسائی اقدار ان کیچرچ تک ہو کر رہ رہی اور اجتماعی فیصلوں پر فلسفیوں اور سائنسدانوں کا غلبہ ہوگیا سرمائے نے ایک قدر کی حیثیت اختیار کرلی اور لوگوں کی زندگیوں کا متمع نظر ہی سرمایہ کا فروغ ہوگیا۔ ١٧ ویں ١٨ ویں صدی میں یورپ نے وسیع پیمانے پر اپنے زیر تسلط ایشائی اور افریقی ممالک سے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی اور ان ممالک کے خام مال کو بڑے پیمانے پر یورپ میں پانی کے جہازوں کے زریعہ بھیجنا شروع کیا اس خام مال کو بڑے پیمانے تیار شدہ اشیاء میں تبدیل کرنے اور دوبارہ اس کو ان کالونیوں میں بھیجنے کے لئے اس بڑے پیمانے پر سامائے کی ضرورت تھی جو کسی ایک فرد کے اختیار میں نہ تھا۔ قرون وسطیٰ میں فلورنس (Florence) جو کہ یورپ کے مالیاتی نظام کا مرکز تھا مگر وہاں پر بھی سماجی سود (Usury) پر قانونی پابندی تھی۔ وہاں سودی کاروبار کو چلانے کے لئے یہودیوں بلایا گیا۔ ١٥ویں صدی تک جب کہ عیسائیت کا اقتدار کمزورپڑگیا تھا اس کے باوجود اس نے ایسے تمویلی اور فلاحی ادارے قائم کئے جہاں پر غریبوں کو بلاسودی قرضے فراہم کئے لئے ہسپتال اور دیگر فلاحی مراکز قائم  کئے۔ دراصل قرن اولیٰ کا یہ دور جس میں دنیا پرستی کم تھی وہاں پر لین دین آپس میں تعلق داروں میں ہوتی اور بڑے پیمانے پر فرقہ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا نہ ہی اس کی طلب تھی۔ مگر ١٦ ویں صدی کے آغاز سے یورپ میں معاشی انقلاب برپا ہوا اور سرمایہ داری کے اپنی جڑیں مضبوط پکڑیں اور اس سرمایہ داری کو لبرل اقدار نے مزید پروان چڑھایا۔

ٹونی (١٩٢٦) لکھتا ہے کہمغربی ممالک جس میں پرتگال، برطانہ، نیدر لینڈ، اسپین شامل تھے ان ممالک کی فتوحات نے مشرق ومغرب کی دولت کے انبار ان ممالک میں لگادیئے۔ کپڑے اور کان کنی کی صنعت نے ترقی کی اور صنعتی انقلاب نے سرمایہ کے بازار کو جو پہلے صراف (Gold Smith) کے تحت چھوٹے پیمانے پر کام کرتا تھا۔ جس کے جاری کردہ وعدہ نوٹس (Promissory Notice) کاغذی کرنسی کی طرح قبول کئے جاتے تھے اپنا جال وسیع کیا۔ قرضوں کی لین دین سودی بنیادوں پر شروع ہوئی اور پوری عیسائی اقدار پامال ہوگئی۔ مالیاتی مارکیٹ بازار کے بازار کا وجود در آیا اور مغرب کی معیشت کی ریڈھ کی ہڈی ہی کہ زری بازار بن گیا جہاں سود اور سٹہ بازی کا دور دورہ ہوگیا۔ اس تاریخی حقیقت سے جو بات سمجھنی ہے کہ اجارہ کا کوئی تعلق لیزنگ سے نہیں ہے اور لیزنگ اور جدید مغربی ذرائع تمویل کا فروغ تو ہوا ہی مذہب (عیسائیت) کو شکست وریخت کے بعد ہے۔ اس لئے ان کی بنیاد سود اور سٹہ پر ہے جب کہ اسلامی تمویل کا نظام باہمی بھائی چارگی اور رواداری پر ممتی ہے۔ اس لئے ان کا آپس میں نہ کوئی تعلق ہے نہ رشتہ۔

مرکزی بینک سے متعلق جو کچھ ہم نے دیکھا اس کا تتمہ یہ ہے کہ اسلامی مرکزی بینک وہ ہی فرائض انجام دے گا جو کہ غیر اسلامی سودی مرکزی بینک انجام دے رہاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جہاں پر سود کا تعلق ہے وہاں پر اسلامی مرکزی بینک بلاسودی بنیادوںپر اپنے فرائض انجام دے گا۔

مرکزی بینک کا جہاں تک دیگر کمرشل بینکوں سے تعلق ہے تو اس میں وہ تعلق جس میں سود کی آمیزش نہیں ہے جیسے کمرشل بینک کو مالی معاملات میںرہنمائی فراہم کرنا، مخصوص قرضوں پر قابو (Selective credit control) ، Moral suastion  وغیرہ ان معاملات میں پہلے مرکزی سودی بینکاری، سودی لین دین، سودی شرح اور سودی آلات سے متعلق مشورے، رہنمائی، اعمال ادا کرتاتھا۔ اب وہ یہ ہی کام غیر سودی معاملات کے لئے روا رکھے گا۔

مگر وہ معاملات جن میں سود کی آمیزش براہ راست شامل ہے تو مرکزی بینک اس میں قرض یا نفع نقصان میں شراکت کو ترجیح دے گا۔مرکزی بینک جب بحیثیت ایک مددگار بینک (Lender of last Resort) دیگر بینکوں کی مدد اس ضرورت میں کررہاہے کہ اس کا مال کمرشل بینک کی ضرورت یا عوام کی فلاح پر لگے گا یا وہ کام قلیل مدت ہے تو اسلامی معیشت دان اس صورت میں اسلامی مرکزی بینک کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کمرشل بینکوں کو قرض فراہم کرے، استقراض (Reserve) میں کمی اگر جزوقتی ہو جیسا کہ مخصوص حالات، رمضان، عید، ناگہانی آفات میںلوگ اگر بڑے پیمانے پر کمرشل بینکوں سے پیسہ نکلواتے ہیں اور کمرشل بینک کے پاس استقراض کی کمی واقع ہوتی ہے تو اس صورت میں مرکزی بینک ان بینکوں کو قرض دے گا جس پر کوئی سود نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جزوقتی اور قلیل مدتی مالی امداد بھی قرض کی بنیاد پر دینے کی شفارشات ہیں۔

سودی بینکاری میں مرکزی بینک کمرشل بینک پر جرمانے کی مد میں پینل شرح سود (Penal rate of intrest) کو لاگو کرتے تھے۔  اسلامی بینکاری میں پینل شرح سود کی جگہ یومیہ جرمانہ وصول کرنے کی  سفارش موجود ہے جیسے نسبت قرض، نسبت استقراض، نسبت نقد محفوظ کی طے شدہ نسبت سے اگر کوئی بینک کم نسبت رکھے تو اس پر مرکزی بینک پینل شرح سود کی جگہ یومیہ کے حساب سے جرمانہ وصول کرے گی۔ مگر آج کے دور کی آزاد مالیاتی پالیسی کے ذیر اثر جب مرکزی بینک کو کمرشل بینک پر اختیارات نہیں ہے تو پھر مرکزی بینک کیا کرے گا تو اس کے حوالے سے دونوں کونسل کی رپورٹ اور ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی کی آراء یہ ہے کہ مرکزی بینک کو کمرشل بینک پر مکمل کنٹرول ہونا چاہئے۔ کمرشل بینک آزاد نہ ہوں بلکہ مرکزی بینک جوکہ سرکاری بینک ہے ملکی مفاوات کے لئے کمرشل بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں اس کے قابو میں ہوں۔

مرکزی بینک دیگر بینکوں کو ان امور پر جو کہ طویل المعیاد ہوں اور وہ بینک سرمایہ کاری کے لئے استعمال کررہے ہوں اس میں سودی قرضہ کے متبادل نفع ونقصان میں شراکت کو تجویز کیا گیا۔

نوٹوں کا اجرائ:

مرکزی بینک جس کی سب سے اہم ذمہ داری کرنسی نوٹ کا اجراء ہے اسلامی مرکزی بینک یہ کام کیسے کرے گا۔ سودی مرکزی بینک یہ کام اپنی ذمہ داریوں (Liabililies) کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور سودی بینک جس کی ذمہ داریوں کا اکثر حصہ سونے کے ذخائر (Gold Bullion) زرمبادلہ کے  ذخائر (Foreign Exchange) اور حکومتی تمسکات پر ممنی ہوتے ہیں۔ ان میں جہاں تک سونے کے ذخائر کا تعلق ہے اس پر تو سود ویسے ہی نہیں ہوتا، حکومتی تمسکات پر کی بابت ہم پہلے ہی بلاسودی متبادل کا ذکر کرچکے ہیں۔ مگر زرمبادلہ کے ذخائر جوکہ مدیتی کھاتوں یا غیر ملکی تمسکات کی صورت میں ہوتے ہیں وہ سود سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان کو کیسے بلاسودی بنایا جائے اس کی شفارشات نہ ہی کونسل کی رپورٹ میں ہے نہ ہی کسی اسلامی معیشت دان نے وضع کی ہیں۔ اس طرح نوٹوں کا اجراء ان کی آراء میں مکمل طور بلاسودی نہیں ہوسکتاجب تک کہ سودی تمویل کے متبادل کوئی اور بلاسودی طریقہ کار وضع نہ ہوجائے۔

زری پالیسی:

زر پالیسی میں جیسا کہ آج کل کی آزاد مالیاتی پالیسی ہے جس میں اب کمرشل بینک آزاد ہے کہ وہ جتنی بھی نسبت نقد محفوظ (Reserve Rate) رکھنا چاہے رکھ سکتاہے۔ نجی طور پر منافع کے لئے قائم بینک اس نسبت کو کم رکھ کر زیادہ سے زیادہ قرضہ دینے کے خواہش مقد ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہونا ہے کہ اس نسبت کے ان حالات میں کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اس پر تو کسی اسلامی معیشت دان نے کچھ نہیں لکھا البتہ ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب نے اپنی کتاب غیر سودی بینکاری جو کہ ١٩٧٠دھائی میں مکمل کی گئی جب کہ آزاد مالیاتی پالیسی کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔ اس نسبت کے لئے لکھتے ہیں کہ غیر سود بینکاری میں زری پالیسی کے لئے زر کی ترسیل کو قابو میں رکھنے کا ایک موثر آلہ ہے۔ اس لئے اسلامی مرکزی بینک کو آزاد مالیاتی پالیسی پر گامزن نہیں ہونا چاہئے ہے۔

دوسرا آلہ جو کہ زری پالیسی میں اہمیت کا حامل ہے وہ ہے نسبت استقراض میں تبدیلی (Borrowing Rate) اور نسبت سیالیت کی ضرورت (Liquidity ratio requirmenit) میں شرح سود کی جگہ دو آلات کے استعمال کی شفارش ہے ایک قرض دوسرا نفع/ نقصان میں شراکت۔ ڈاکٹر صاحب نے قرض کی بابت تفصیل سے تحریر کیا ہے کہ چونکہ قرض پر کوئی سود نہیں ہے اس لئے ہر بینک یہ چاہے گا کہ اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرے مرکزی بینک کو اسی لئے اس کو بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا۔ ہنگامی کیفیت میں عوام الناس کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکزی بینک کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ استقراض کے لئے زر کو مہیا کرے مگر یہ استقراض قلیل مدت کے لئے ہوگا۔ اس عمل کے نتیجہ میں کمرشل بینک کو اپنے

کریڈٹ میں تخفیف نہیں کرنی پڑی گی اور نہ ہی تمسکات کو فوری ضرورت کے لئے استعمال کرنا پڑے گا اس طرح زر کی رسد میں جو اضافہ ہونا تھا اس زریعہ سے اس کو قابو میں کرلیا جاسکتاہے اور اس کے برخلاف عمل کے نتیجہ میں زر میں تخفیف یقینی ہے۔ اسی طرح اس نسبت کو اسلامی مرکزی بینک اس طرح بھی استعمال کرسکتاہے کہ اس قرض کی سہولت مخصوص معاشی سیکٹر (Economic Sectors) میں سرمایہ کی فراہمی کے لئے استعمال کرے کہ اگر ان مخصوص سیکٹرز (Sectors) میں کوئی بینک سرمایہ کاری کرے گا تو اس کو یہ قرضہ مل سکتاہے۔

بینک ریٹ (Bank Rate)

یہ وہ شرح سود ہے جو زیادہ تر مرکزی بینک مبادلاتی بل (Bill of Exchange) اور دیگر کمرشل پیپرز (Commercial Papers) کی دوبارہ (Rediscounting) کے لئے استعمال ہوتاہے۔ سودی بینکاری میں بینک ریٹ کی تبدیلی کے ساتھ بینکوں کا شرح سود بھی تبدیل ہوتاہے۔ یہ بھی سودی بینکاری میں ایک موثر آلہ زری پالیسی ہے۔ اس کے بدلہ میں کونسل نے جو آلہ استعمال کیا ہے وہ نفع ونقصان کی نسبت کو طے کرنا (Fixing of Profit / Loss ratio) ہے۔ اسلامی مرکزی بینک کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ ناصرف اپنے دیئے گئے سرمایہ پر نسبت کو کم یا زیادہ کرسکتاہے بلکہ وہ سرمایہ جوکہ کمرشل بینک یا دیگر تمویلی ادارے شراکت کے لئے کاروباری حضرات کو دیتے ہیں ان کو بھی طے کرسکتاہے۔ اس طرح جب ترسیل زر کم کرنے کے لئے نفع کی نسبت کو بڑھادے گا اور اس کے برعکس ترسیل زر کو کم

 کرنے کے لئے نفع کی نسبت کو زیادہ کردے گا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلامی تمویلی نظام میں مشارکت میں نقصان لگائے گئے سرمایہ کی تناسب سے ہوتاہے جب کہ مضاربت میں نقصان رب المال کا ہوگا۔

مرکزی بینک کی اثاثے کا ایک حصہ حکومتی تمسکات، حصص بونڈز کا بھی ہوتا۔ مرکزی بینک کے فرائض میں شامل ہے کہ حکومت کا بینک ہوتاہے جو ناصرف حکومت کے لئے زری پالیسی وضع کرتاہے بلکہ اس کے مالیاتی نظام کے لئے مال کی کمی کو بھی پورا کرتاہے جس کو بجٹ کا خسارہ کہتے ہیں۔ یہاں چونکہ اس مقالہ کا عنوان مالیاتی نظام نہیں ہے اس لئے اس کی مفصل تفصیل تو نہیں ہاں تمسکات کی خرید وفروخت کے زمرے میں پالیسی زری پالیسی کے اثرات دیکھیں گے۔ ویسے بھی چاہے زری پالیسی ہوچاہے مالیاتی پالیسی یہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں ان کو بالکل جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ موجودہ دور میں کھلی مارکیٹ میں حکومتی تمسکات کی خرید وفروخت (OMO) کو بڑی حیثیت اور مرکزی بینک آزاد زری پالیسی میں او ایم او (OMO) کے تحت ہی زر کو قابو میں رکھتی ہے۔ جب کہ اسلامی معیشت میں اس کی اہمیت کم لگتی ہے کہ حکومت جو کہ فلاح کے لئے نہ کہ کاروبار کے لئے مرکزی بینک یا پبلک (Public) سے مال لیتی ہے اس لئے اس کے مشورہ یہ ہے کہ اس کو پر قرض دیا جائے البتہ حکومتی پروجیکٹس (Projects) جوکہ منافع بخش ہوں ان پر منافع ونقصان میں شراکت یا دیگر تمویل کے تحت مال کو مہیا کیا جائے۔ مگر یہ بات بہت غور طلب ہے کہ حکومت کام ہی فلاح عوام ہے اس صورت میں منافع کی امید کم ہی ہوتی ہے۔ حکومت کا کام خاص کر اسلامی حکومت کو نقصان میں رہ کر بھی عوام کو وسائل پہنچانا ہے۔ایسے پرجیکٹ پر یہ بھی آراء ہے کہ وہ تعمیراتی کام جو کہ عوام کی فلاح کے لئے ہوں ان میں مرکزی بینک خرید وفروخت یا

 کرائے کے لئے معاہدوں جن کا ذکر ہم پچھلے باب میں کرچکے ہیں کے تحت سرمایہ پبلک سے کمرشل بینک کی وساطت سے حاصل کرسکتی ہے۔ حکومت اس کی ادائیگی، محصولات لگا کر سکتی ہے۔

بحیثیت مجموعی اگر ہم مرکزی بینک کا جائزہ لیں تو کسی نے بھی اسلامی مرکزی بینک کے بارے میں کوئی مفصل تحریر نہیں کیا ہے۔ زیادہ تر سفارشات رائج مرکزی بینک کو استعمال کرتے ہوئے اس میں چند اصلاحات تجویز کی گئی ہیں۔ مرکزی بینک جو کہ سرمایہ دانہ معیشت کا ایک بنیادی ادارہ ہے اسلامی معیشت دانوں نے جس سے سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اسلامی بینکوں کے قیام کو ممکن سمجھا ہے اسی طرح سودی مرکزی بینک کے ہوتے ہوئے بھی اسلامی بینکاری کے قیام کو ممکن تصور کیا ہے۔ اس لئے سودی مرکزی بینک سے الحاق کے طریقہ کار وضع کیا ہے کہ وہ اسلامی بینکوں سے جب منسلک ہو تو وہ اپنے طریقہ کار کو اسلامی معیشت دانوں کی سفارشات کے تحت مرتب کرے۔ اسی لئے غیر اسلامی ممالک اور سودی بینک بھی بغیر کسی وقعت کے اسلامی بینکاری کے تحت بھی کام کررہے ہیں۔ جن ممالک میں حکومتی سرپرستی بھی اسلامی بینکاری کو حاصل ہے جیسے ایران، ملیشیا، سعودی عرب وہاں کی مرکزی بینک کی رپورٹ میں بھی مرکزی بینک کے اعمال کے لحاظ سے وہی ہے جو کہ عام مرکزی بینک ادا کررہاہے۔ اور زر کی تشکیل میں بھی ان ممالک میں زرمبادلہ کی صورت میں سود کی آمیزش موجود ہے۔ اس لئے زر کی تشکیل کے متعلق کوئی تشفی تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔

متعدد آلات کا استعمال:

اوپر مرکزی بینک کی زر کی بابت پالیسی کے مقاصد اور ان کے حصول کے لئے آلات کا جو جائزہ لیا گیا ہے اس کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اکثر اوقات مرکزی بینک کو کسی مقصد کے حصول کے لئے اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اکثر اوقات مرکزی بینک کو کسی مقصد کے حصول کے لئے ایک ساتھ کئی آلات کا استعمال کرنا ہوگا۔ مثلاً

شدید گرانی کے رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے زر کی رسد میں تخفیف عمل میں ہونا ہو تو نسبت نقد محفوظ میں اضافہ، جن صنعتوں میں اعتدال سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری ہورہی ہو ان کے متعلق قرض کے بالمقابل نسبت استقراض میں کمی اور حصص کی فروخت، کے اقدامات ایک ساتھ کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح تفریط زر کی صورت میں اگر ضرورت داعی ہو تو نسبت نقد محفوظ میں کمی، بعض صنعتوں کو دیے جانے والے قرضوں کے بالمقابل نسبت استقراض میں اضافہ اور حصص کے نرخ، اور قرض اور مضاربت سرمایہ کے درمیان توازن سے ہوسکتاہے، مختلف آلات کا ایک ساتھ استعمال زیادہ موثر ثابت ہوسکتاہے جس کی متعدد مثالیں بآسانی وضع کی جاسکتی ہیں۔

اس باب میں ایک غیر سودی معیشت میں مرکزی بینک کے اعمال ووظائف اور اس کے آلات کا رجو جائزہ لیاگیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ سود کی حرمت کے باوجود مرکزی بینک اپنے معروف وظائف ادا کرسکتاہے۔ غیر سودی معیشت میں بھی زر کی بابت پالیسی (Monetary

Policy) نہ صرف ایک بامعنیٰ تصور ہے بلکہ اس میں اتنی لچک موجود ہے کہ اسے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کرکے فلاحی ریاست کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کا خادم بنائے رکھنا ممکن ہوگا۔

مرکزی بینک ریاستی سرمایہ سے قائم کیا جائے گا۔ اس کے اتنظامی اخراجات پورے کرنے کے لئے کسی حد تک اس نفع کو کام میں لایا جاسکتاہے جو حکومتی حصص شرکت اور حکومتی حصص مضاربت کی فروخت سے حاصل ہو۔ مگر یہ آمدنی نہ تو یقینی ہے نہ اس سے جملہ اخراجات کا پورا ہوجانا ضروری ہے۔ لہٰذا مرکزی بینک کے اخراجات پورے کرنے کے لئے دو طریقوں میں سے ایک

طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ اسے ایک ضروری سماجی خدمت سمجھتے ہوئے جملہ اخراجات ریاست کے عام خزانہ سے پورے کئے جائیںاور دوسری سماجی خدمات کی طرح اس کے لئے بھی محاصل کے زریعہ وسائل فراہم کئے جائیں، یا ان اخراجات کا بار عام تجارتی بینکوں پر ڈالا جائے۔ اس غرض کے لئے بینکوں کے کاروباری سرمایوں کی نسبت سے ان سے ایک مقررہ سالانہ فیس وصول کی جاسکتی ہے یا ان کے سالانہ منافع میں سے ایک حصہ وصول کیا جاسکتاہے۔ ہم پہلے طریقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ مرکزی بینک کے اخرجات ریاست کو پورے کرنے چاہئیں البتہ وہ محاصل عائد کرتے وقت کاروبار بینک کاری پر خصوصی محاصل عائد کرسکتی ہے۔

تنقیدی جائزہ (مرکزی بینک)

مرکزی بینک کی بابت اسلامی معیشت دانوں نے بہت کم لکھاہے اس کی توجہہ دو ہیں۔ اول مرکزی بینک کی اہمیت سے انکار چونکہ اسلامی معیشت دانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ موجودہ سرمایہ دارنہ نظام کے اتنے اسیر ہیں کہ وہ اس میں تبدیلی لائے بغیر اسلامی تمویلی آلات کو اس طرح توڑ موروڈ رہے ہیں کہ ان کی شناخت بھی ختم ہوگئی ہے۔ مرکزی بینک جو کہ مالیاتی / زری پالیسی کو مرتب کرنے اور نوٹوں کے اجراء کرنے کا ایک اہم ادارہ ہے اس میں تبدیلی کا مطلب ہی پورے نطام مالیات کو جڑ سے اکھاڑ کر نیا اسلامی نظام لاکھڑا کرنا ہے۔ اسی لئے جب کونسل کی رپورٹ اور ڈاکٹر نجات اﷲصدیقی صاحب یہ کہتے ہیں کہ اسلامی مرکزی بینک میں اور سودی مرکزی بینک کے طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ اسلامی جزیات کو استعمال کرکے وہی نتائج نکلالے گا جو کہ سودی معیشت کا شاخسانہ ہے۔ تو دراصل اپنی کمزوری اور اپنی شکست کا خود اعتراف کرتے ہیں۔ مرکزی بینک کا سرمایہ دارنہ معیشت میں کردار اور اسلامی معیشت میں کردار پر اسلامی معیشت

دانوں نے کوئی بات نہیں کی۔ جیسا کہ ہم نے جدید بینکاری کی بحث میں دیکھا کہ سرمایہ داری میں قائم مرکزی بینک زر کے بازار اور بینک / حکومت کے درمیان ایک ثالث کا کام انجام دیتاہے۔ جس کے تحت زر کی مقدار کو اس طرح مستحکم کیا جاتاہے کہ سرمایہ کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کو تقویت ملے سرمایہ دار کو وہ سرمایہ بہم پہنچایا جائے کہ اس کے منافع میں کمی نہ آنے

پائے۔ آج کے دور جدید میں جب سے زری /مالیاتی پالیسی کو لبرل خطوط پر استوار کیا

جارہاہے جس کے نتیجہ میں مرکزی بینک حکومتی دسترس سے آزاد ہوکر براہ راست بین القوامی سرمایہ داری کے ایجنٹ مالیاتی اداروں کے تابع ہو کر مالیاتی پالیسوں وضع کررہاہے۔ اس صورتحال میں مرکزی بینک کو سہونظر کرنا اور اس کے تحت یا اس کا حصہ یعنی جدولی بینک (Schedule Banke) بن کر اسلامی بینکنگ کے فرائض انجام دینا کتنا ممکن ہے؟ مرکزی بینک جو کہ ایک جانبدار بینک ہے جوکہ کسی مخصوص نظام، مخصوص مقاصد کے لئے ہی کام کرتاہے۔ وہ مقاصد ملکی بھی ہوسکتے ہیں اور بین القوامی بھی۔ یہ بینک قومی مفادات کے لئے سودی معیشت کو تقویت دینے کے لئے کام کرے گا۔ یا عالمی سرمایہ داری کو فروغ کے کام سرانجام دے گا۔ اس نہج میں خالص اسلامی بنیادوں میں مرکزی بینک کی خدمات کا جائزہ نہیں لیا جائے گا۔ اس طرح مرکزی بینک کی بطور تطہیر کئے بغیر اس میں ترجیحات ناقابل عمل ہیں۔

اسلامی بنکاری کا خاکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا ان ممالک میں یا ان بینکوں میں ترویج پارہاہے جہاں پر خالص سودی بینکاری نظام قائم ہے اور جہاں اس نظام کا سربراہ مرکزی بینک اس کی پشت پناہی بھی کررہاہے۔ مرکزی بینک جو کہ زر کے بازار کو تیز کرنے کے لئے اس میں مزید سرمایہ حاصل کرنے کے لئے بلاسودی بینکاری کا احیاء چاہتاہے۔ تاکہ وہ افراد یا ادارے جو کہ بڑیتعداد میں مسلمان ممالک میں موجود ہیں جو کہ سودی بینکاری نظام میں شریک نہیں ہورہے ۔ ان کی شمولیت کو ممکن بنائے تاکہ بلاسودی بنیادوں پر سودی ادارے مسلمانوں کے پاک مال کو سودی/ سرمایہ دارنہ نظام کی ترویج وترقی کے لئے استعمال کرسکیں۔

دوسرا مسئلہ جو کہ مرکزی بینک کے لئے ہے وہ مالیاتی / زری پالیسی اور دیگر مرکزی بینک کے فرائض سے متعلق ہے۔ جس طرح اسلامی معیشت دانوں نے اسلامی بینک کی اصطلاح استعمال

کی ہے اس سے صرف اسلامی کھاتہ دار بینک یا اسلامی ترقیاتی بینک مراد لی جاسکتی ہے۔ کہیں بھی اسلامی مرکزی بینک کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ نظام کی گفتگو نہیں ہے۔ مالیاتی نظام کا مقصد واضع نہیں ہے۔

٭……………٭……………٭……………٭

اس باب میں ہم کھاتے دار تمویلی ادارے کا ایک عملی خاکہ پیش کریں گے جس میں ہم کوشش کریںگے کہ موجودہ رائج کھاتے دار مالیاتی اداروں اور اسلامی بینکاری کے متبادل کے طور پر ایک اسلامی نظام مالیات پیش کریں۔ اس سب سے پہلے ہم اسلامی امارت کے تحت قائم تمویلی ادارے کا خاکہ پیش کریں گے اسکے بعد ہم اسلامی جماعتوں کے تحت موجودہ حالات میں تمویلی ادارے کے کام کرنے کے طریقے کو بحث کریں گے۔

جیسا کہ ہم نے اسلامی بینکاری نظام میں دیکھا کہ یہ مکمل طور پر ایک متبادل بینکاری نظام دینے سے قاصر رہا ہے۔ وہ  سرمایہ داری کے ماڈل کو من و عن قبول کرتے ہوئے اس میں اسلامی احکامات کی پیوند کاری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔  اس کے برعکس جب متبادل نظام کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک نظام کی جگہ دوسرا نظام لا کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں۔  جو کہ ایک نظام کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے نئے نظام کو ترویج دیتا ہے ۔سرمایہ داری جوکہ ایک مکمل نظام  ہے جسکے جائزہ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حرص و حسد جیسے روحانی امراض کوجنم دیتا ہے، انسان کے اندر خود پسندی اور خود ارادیت کو پروان چڑھاکر ان کو نفس پرست بنادیتی ہے ۔وہ سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری کیلئے ایک مالیاتی نظام لا کھڑا کرتا ہے جہاں وہ  سود کونا صرف ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے بلکہ سود میں پورا معاشرہ کوملوث کردیتا ہے۔سرمایہ دارنہ نظام ایک مکمل نظام اس معنی میں ہے کہ پورا معاشرے کی قدر کو سرمایہ دارانہ نظام متعین کرتا ہے۔اسلامی نظام تمویل اس معنی میں سرمایہ داری سے جدا ہے کہ وہ اسلامی نظام کا ایک جز ہے اور وہ اس کل (اسلامی نظام) کے تابع  ہو کر اس کے فروغ کا ضامن ہوتاہے۔ اب ہم جو نظام مالیاتی پیش کریں گے وہ ناصرف سود کو مسترد کرے گا ، ارتکاز ،حرص و حسد جیسے جذبات کا بھی قلع قمع کرے گا، انفاق کو پروان چڑھائے گابلکہ وہ اسلامی  نظام کے فروغ دینے کا موجب بھی ہوگا ۔

ایک اسلامی معاشرہ جہاں سرمایہ دارانہ عقلیت نہ ہو وہاں دولت کے استعمال کا جائزہ طریقے  درج ذیل ہوتے ہیں ۔مثلاً

١۔ اپنی کم از کم ضروریات کو پورا کرنا ۔

٢۔انفاق کرنا  اور جہادی ریا ست کے اخراجات کی کفالت کرنا۔

٣۔کاروبار میں پیسہ لگا کر مسلمانوں کے وسائل اور روزگار میں اضافہ کرنا ۔

٤۔زائد آمدن کو ضرورت مندوں کو بحیثیت بلا سودی قرض دینا ۔

              اسلامی دور میں وسائل کی ضرورت کاروباری فریق کو اتنی تھی جو کہ بہت کم افراد کی بچتوں سے پوری کی جا سکتی تھیں جبکہ آج کے دور میں دو تین افراد کی بچتوں سے کاروباری افراد کے وسائل کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔اسلامی کاروباری فریق جوکہ بڑے پیمانے پر کاروبار کے فروغ کیلئے کثیر جائز بلاسودی وسائل کا متلاشی ہوتاہے جوکہ  اسے موجودہ سودی نظام میں میسر نہیں آسکتا۔ اس لئے جب بھی وہ اپنے کاروبار کو اس دور میں وسیع کرنا چاہتا ہے تو اسکو لا محالہ زر کی مارکیٹ یا سرمائے کی مارکیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔  اس لئے  ہم ایسے وسائل کے متلا شی ہیں جو کہ :

اوّل ۔سود اور اس کے متبادل فائنینشل آلات سے پاک ہوں ۔اسطرح کہ اس میں سودی سرمائے کی زرّہ برابر بھی آمیزش نہ ہو ۔

دوم ۔سرمایہ دارانہ اداروں :  زر کی مارکیٹ اور  سرمائے کی مارکیٹ سے خاص کر مرکزی بینک اور سودی بینکوں ، اسٹاک مارکیٹ سے اسکاکوئی تعلق نہ ہو یعنی اگر غیر اسلامی حکومت ہو تو وہاں کے مرکزی بینک سے منسلک نہ ہو ۔

سوئم:ایسی دولت ہو جو اسلامی معاشرت اور تہذیب کے فروغ کا ضامن ہو۔جو کہ جائز دولت ہو اور سود سٹہ سے پاک ہو۔حرص وحسد جیسے جذبات جو کہ اس سرمایہ دارانہ معاشرت کی اساس ہیں کی جگہ اتفاق،محبت اور بھائی چارے کو فروغ دے۔ آزادی کی جگہ اﷲ کی رضا کے فروغ کی ضامن ہو ۔جسکی تفصیل آگے آئے گی۔

            اسلئے اس موجودہ سرمایہ دارنہ  نظام میں شمولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس صورتحال میںجبکہ مینائی اور انصاری (٢٠٠٣)پاکستانی بینکاری نظام مکمل طور پر سودی اور سرمایہ دارانہ  تصور کرتے ہیں خاص کرموجودہ بینکاری میں سرمایہ دارانہ بینکوں کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں ۔ہم یہا ںدو قسم کے خاکے پیش کریں گے ایک پاکستان میں اسلامی امارت کے قیام سے پہلے دوسرا اسلامی امارت کے قیام کے بعد ۔اوّلالذکر خاکے میں اسلامی تمویلی اداروںکے قیام کی ذمہ داری اسلامی تنظیموں ،گروہوں  اور جماعتوںپر عائد ہوگی اور آخر الذکر صورتحال میں اسلامی امارت اس کے قیام کی ذمہ داری اٹھائے گی ۔ہم سب سے پہلے دو مکمل خاکہ پیش کریں گے اس کے بعد ان دونوں نظاموں میں اسکی عمل پزیری کا جائزہ پیش کریںگے ۔

 پاکستان کیلئے اسلامی  تمویلی اداروں کے قیام کا طریقہ  کار:۔

             اسلامی بینکوں کی جگہ ہم اسلامی تمویلی اداروں کی  اصطلاح استعمال کریں گے۔پہلے ہم اسلامی کھاتہ دار تمویلی ادارہ کے فرائض ،اسکی بیلنس شیٹ (Balance sheet)جس میں اسکی ذمہ داریوں (Liabilities )اور اثاثوں (Assets ) کو دیکھیں گے۔اسلامی کھاتہ دار تمویلی ادارہ کا مرکزی بینک اور دیگر تمویلی اداروںسے تعلقات کو بھی زیر بحث لائیں گے۔ غیر کھاتہ دارتمویلی اداروں کی ضرورت ان کے فرائض ، اثاثوں اور ذمہ داریوں سے  سے متعلق تفصیلی جائزہ بھی پیش کریں گے ۔

 کھاتہ دار اسلامی تمویلی ادارے کے فرائض و خدمات :۔

 یہ ادارے درج ذیل فرائض وخدمات انجام دیں گے ۔

اوّل ۔سرمایہ دارنہ اداروں کے بلمقابل تمویلی اداروں کے قیام کو ممکن بنانا۔

دوم۔مکمل طور پر ان اداروں کا نسب و نسق علمائے کرام کے ہا تھوں میں ہوگا۔

سوئم۔ ان اداروں کا بنیادی مقصد غلبہ دین ہوگا۔اس کے علاوہ دیگر مقاصد صرف ثانوی حیثیت کے حامل ہوں گے۔

 چہارم۔  یہ ادارے ثالث ادارے ہوں گے جو کہ  اسلامی کاروباری طبقے اور  اسلامی وسائل کے فراہم کاروں کے درمیان  رابطے کا کام انجام دے گا ۔

پنجم۔  یہ ادارہ نجی طور پر منافع  کمانے والے ادارے  نہیں ہوں گے  بلکہ وہ یہ خدمت امداد باہمی کے اصول کے تحت انجام دے گا اس کی تفصیل ہم اگلے حصّہ میں دیکھیں گے ۔یہ اُسی طرح کاادارہ ہوگا جیسے کہ آج کے دور میں پولیس ،فوج کے ادارے ہیں جو کہ کسی معاوضہ اور نفع کے خاطر خدمات سر انجام نہیںدیتے بلکہ ملکی ضرورت کے تحت فرائض انجام دیتے ہیں ۔اسلامی تمویلی ادارے اس ثالثی کی بابت اپنا حق خدمت لینے کے مجاز ہوں گے جس کی تفصیل اسلامی بینکاری کے جائزہ میں پیش کی جاچکی ہے ۔یہ ادارے دراصل ایک پبلک سیکٹر کی طرح (Quasi public sector)کام کریں گے۔

ہشتم۔ یہ ادارے اسلامی تمویل کی بنیاد پر عام مسلمانوں کی جمع  کو رکھنے کے لئے کھاتوں میں رقم لینے کے مجاز ہوں گے وہ یہ کا م علمائے کرام و بزرگان دین کی سرپرستی وہ اطاعت کے تحت کریں گے ۔ وسائل کا استعمال کس طرح ہوگا اس کی تفصیل تو آگے آئے گی مگر اصولا یہ بات طے ہوگی کہ جو بھی فیصلہ ہوگا اس کو قبول کیا جائے گا۔ ہر صورت مقاصد شریعت کے حصول کو زائد منافع پر فوقیت ہوگی۔

ہفتم۔  یہ ادارے ان جمع شدہ رقوم کو قرض حسن ،مشارکت کے تحت آگے  فراہم کریں گے۔ جسکی تفصیل آگے دیکھیں گے ۔

ہشتم ۔دیگر خدمات میں یہ تمویلی ادارے زکوٰة کے نظام کو بااحسن و خوبی سر انجام دے سکتے ہیں زکوٰة فنڈ میں  رکھی ہوئی رقم جوکہ عوام الناس کی زکوٰة کی مد سے حاصل ہو اسکو مستحقین میں تقسیم کی ذمہ داری بھی یہ ادارہ لے سکتا ہے۔زکوٰة کی رقم صرف کیلئے دینے کے بجائے اس رقم کو اسلامی تمویلی ادارہ شراکت کے تحت کاروباری حضرات کو دے سکتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع کو مستحقین میں ماہانہ  ادئیگی کے تحت بھی دے سکتا ہے ۔زکوٰة کے علاوہ صدقات ،خیرات بھی یہ ادارہ جمع کر سکتے ہیں ان رقوم کو بھی منافع بخش کاروبار میں اسلامی تمویلی نظام کے تحت لگا کر ان سے حاصل شدہ منافع بھی غرباء مساکین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ان اداروں سے وہ کام لے سکتے ہیں جو کہ پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں کررہا کہ وہ زکوٰة ،خیرات ،صدقات سے حاصل شدہ رقوم کو ایسے کاروبار میں لگائے کہ ضرورت مندوں کیلئے ماہانہ آمدنی  اور روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن سکے ۔خاص کر بیوہ،یتیموں اورمعزوروں کیلئے ان رقوم سے ماہانہ آمدنی کا حلال بلا سودی زریعہ حاصل ہو جائے گا ۔اس کام کیلئے ضروری ہے کہ علمائے کرام کا اور ان اداروں کا ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ ان رقوم کو ان کے حقداروں تک پہنچانے کا مناسب انتظام کرے اسکے علاوہ بھی اس فنڈ سے اسلامی کارکنان کی کفالت ان کے شہید یا مرنے کی صورت میں ان کے اھل و عیال کی کفالت کا مناسب بندوبست کیا جاسکے گا۔ یہ ادارہ  ایک طرف اوقاف کے فرائض عام مسلمانوں کے لیے انجام دے گا دوسری طرف دار المال کے فرائض بھی انجام دے گا۔

نہم۔یہ تمویلی ادارہ ایسے فرائض بھی انجام دے سکتا ہے جس میں سود یا شریعت کے منافی کوئی عمل نہ ہو مثلاً عوام الناس کی سہولت کیلئے یوٹیلٹی بلوں (Utility Bills ) کے وصولیابی کی سہولت ،چالان ،بینک ڈرافٹ (Bank Draft ) لاکرزکی سہولت وغیرہ جیسی خدمات بھی یہ اسلامی تمویلی ادارہ بھی سر انجام دے سکتا ہے اسکے علاوہ دینی اداروں مساجد و مدارس ودیگر فلاحی اداروں کیلئے چندے کی وصولی کا انتظام اور ان چندوں میں سے کچھ رقم جوکہ ماہانہ ضروریات کے علاوہ ہو اس کوبھی منافع بخش کاروبار میں لگاکران اسلامی اداروں کیلئے ماہانہ آمدن کا ایک ذریعہ بھی بن جا سکتا ہے ۔ان کی رقوم کو اسطرح استعمال کیا جائے گا کہ یہ ادارے چند سالوں میں خود کفیل ہو جائیں ۔ اسکے علاوہ اسلامی کاروباری حضرات کو کاروبار کے فروغ کیلئے مشاورت کا انتظام بھی ان اداروں میں موجود ماہرین کر سکتے ہیں ان ماہرین کی مددسے اسلامی کاروبار میں حائل مشکلات  حل کرنا بھی ان اداروں کی ذمہ داری میںسے ایک ذمہ داری ہوگی ۔ان ادروں کو جوکہ ان کے ساتھ شراکت کرتے ہیں ان کو مفت مشاورت  بھی دی جا سکتی ہے  وہ  ان اداروں کو جو اس تمویلی ادارے سے کوئی معاہدہ نہیں کرتے ان سے مشاورت کی باقاعدہ فیس لی جاسکتی ہے۔

دہم۔ کھاتے دار تمویلی ادارہ کس بھی طرح قرض کے ذریعہ زر کو پیدا نہیں کرے گا۔یعنی جو بھی قرضے دیے جائیںگے اس میں کوشش ہوگی کہ جس مالیت کا زر موجود ہو اتنے کی زر کی ترسیل کی جائے اس سے زا ئد قرض حسن یا شرکت کے تحت فنڈز نہ جاری کیے جائیں۔

کھاتہ دار تمویلی اداروں کی ذمہ داریاں :

جیسا کہ ابتداء میں ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ ادارہ امداد باہمی کے تحت ایک ثالثی کے فرائض انجام دے گا ۔اس ادارے کے قیام کیلئے بنیادی دولت کہاں سے حاصل ہوگا اور کن بنیادوں پر حاصل ہوگا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے چونکہ اس ادارے کے قیام کیلئے ہم نے دوخاکہ تجویز کیے تھے ایک  اسلامی جماعتوں،اداروں کے تحت قائم تمویلی ادارے ،  دوسرا اسلامی ریاست کے تحت قائم تمویلی ادارے ۔

 پہلا ماڈل :   غیر اسلامی ریاست میں ؛ اسلامی جماعتوں،اداروں کے تحت قائم تمویلی ادارے

اسلامی  تمویلی اداروں کا ڈھانچہ :

            یہ تمویلی ادارے اسلامی گروہوں یا جماعتوں کے تحت پبلک سیکٹر کے طرز پر کام کریںگے۔ یہ جماعتیں ایک کونسل برائے اسلامی تمویلی ادارہ قائم کریں گی ۔یہ کونسل دو گروہوں پر مشتمل ہوگی ۔

پہلا گروہ ۔ سپریم کونسل :  یہ علمائے کرام، فقہائے کرام پر مشتمل ہوگا اس کونسل میں شامل علمائے کرام تمام مکاتب ِفکر سے تعلق رکھتے ہوں گے تاکہ مسلکی اختلافات سے علرغم یہ خالص اسلامی سوچ کا حامل ادارہ ہو۔یہ کونسل اپنا ایک متفقہ سربراہ کا چنائو کرے گی جوکہ اس کونسل برائے تمویلی ادارے کا سربراہ ہوگا ۔

دوسرا گروہ ۔اسلامی شعار کے حامل دینی جماعتوں سے منسلک وہ افراد ہوں گے جوکہ ماہرین معاشیات ،ماہرین تمویل بھی ہوں مگر اس بات کا خیال رکھاجائے کہ ان افراد کا تعلق بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا غیر ملکی بینکوں سے نہ ہو ۔یہ افراد اس خیال سے متفق ہوں کہ اسلامی تمویلی نظام کا قیام سرمایہ داری کے تحت ناممکن ہے ۔

اس تمویلی ادارہ کا چونکہ ڈھانچہ موجود نہیں ہے اسلئے اسکی شروعات وہاں کی جائیں گی جہاں ممکن ہو اور جسکی سفارش کونسل کرے۔

اسکی شاخیں ،مدارس و مساجد میں قائم کیے جائیں ۔

  یہ ادارے  اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے منسلک نہیں ہوںگے۔ اسلئے یہ اپنا ایک مرکزی تمویلی ادارہ قائم کریں گے جوکہ تمویلی اداروں کی تمام شاخوں کو نگہداشت اور رہنمائی کرے گا ۔اس کا آفس بھی کسی بھی بڑے شہر کی مسجد یا بڑے مدرسے میں ہونا چاہیے یا جہاں ممکن ہو۔

مدارس کے تحت آخری سال کے طلبہ کو تربیت و تعلیم اس تمویلی ادارے سے متعلق دی جائے گی اور اس کورس مکمل کرنے کے بعد طلبہ کو عملی تربیت کا چھ ماہ کا پروگرام بھی رکھا جائے گا اس طرح مدارس کے یہ طلبہ آئندہ آنے والے وقتوں میں اس ادارے کے مکمل امور خود سنبھالیں گے اور اس تمویلی ادارہ کا ماحول خالص مدرسہ کا ماحول بن جائے گا ۔مدارس و مساجد کا سادہ اور شریعت کا پابند ماحول عام مسلمانوں کیلئے مانوس ہوگا اور وہ اپنی جمع کو ثواب کی نیت سے ان اداروں میں رکھیں گے اور کم منافع پرراضی رہیں گے۔

چونکہ اس ادارے کے قیام کا مقصد ہی عام مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ نظام سے نکال کر اسلامی نظام میں لانا ہے ۔ان کے حلال مال کو اسلامی کاروبار کے فروغ اور غلبہ اسلام کیلئے استعمال کرنا ہے سرمایہ داری جیسا کہ ہم نے دیکھا اپنا فروغ اور اظہار مالیاتی اداروں کے تحت کرتی ہے ۔سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری جب ہی ممکن ہے جب سرمایہ کاری کو پیداوارسے الگ کردیا جائے ۔

سود ،سٹہ ،قماربازی کی بنیاد پر زر اور سرمائے کی خریدوفروخت ان ہی مالیاتی سیکٹر (Financial Sector ) میں ہی ممکن ہے اس تمویلی ادارہ کی اصل ذمہ داری یہ ہی ہوگی کہ یہ درج بالا سرمایہ داری کے عوامل کو پنپنے نہ دیں ۔یہ جب ہی ممکن ہے جب مالیاتی اداروں کا تعلق پیداوار سے ہو کہ وہ زر کو سرمایہ بننے سے روکیں ۔اس طرح کہ زر کی خریدوفروخت ختم ہوجائے اور زر اشیاء کیلئے ذریعہ مبادلہ کا کام سرانجام دے ۔اسی کام کو کرنے کیلئے اسلامی تمویلی ادارہ کی داغ بیل ڈالنا لازمی ہے یہ تمویلی ادارہ ایک ثالثی ادارہ ہوگا جو کہ عام مسلمانوں کے حلال مال کوجمع کرکے اسکو حلال کاروبار یا جائز صرف پر لگائے گااور کاروباری حضرات یا عام مسلمانوں کو بطور قرض ،شراکت ،بیع کے اصول کے تحت رقوم فراہم کرے گا ۔اس کام کا وہ کوئی نفع حاصل نہیں کرے گا  ۔ہاں جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ۔کہ وہ حق خدمت جوکہ واقعی اخراجات پر ممنی ہو لینے کا مجاز ہوگا ۔

ابتدائی مالی وسائل :

            اب ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ بغیر ریاست کے اس کام کی ذمہ داری تو اسلامی گروہوں یا جماعتوں نے قبول کرلی مگر اس ادارے کے قیام کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے جبکہ یہ کام بغیر منافع کے کیا جائے گا ۔پاکستان جہاں پر لوگ اپنی آمدن کا ایک بڑا حصّہ اسلامی ،دینی کاموں پر خرچ کرتے ہیں مدارس اور مساجد کی ایک بڑی تعداد جہاں لاکھوںبچے بغیر فیس کے کھانے اور رہائش کی سہولیات کے ساتھ اسلامی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔یہ ادارہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اپنے وسائل کیلئے کبھی بھی حکومت کے دست ِنگر نہیں رہے ۔ ## اسلامی ادارے جب بھی چندہ کرتے ہیں تو مسلمانان پاکستان دل کھول کر ان کی مدد کرتے ہیں اسی طرح جب دینی گروہ یا جماعتیں اس ادارے کے قیام کیلئے چندہ کی اپیل کریں گی تو پھر اس ادارے کو اپنے قیام کیلئے وسائل کی کمی نہیں ہوگی ابتدا ئی وسائل کے دو ذرائع ہم تجویز کرتے ہیں ایک چندہ دوسرا قرض حسن۔ابتدائی طور پر ایک سال کے فنڈز جمع ہونے کے بعد اس ادارے کی بنیاد رکھی جائے گا ۔چونکہ یہ اپنے اخراجات کیلئے حق خدمت (Services charges)  لے گا اسکے علاوہ دیگر وہ خدمات بھی دے گا جسکے وہ چارجز (Charges )  بھی لے گا جنکا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اسلئے ابتدائی فنڈ کی فراہمی کے بعد یہ ادارہ خود کفیل ہوجائے گا۔ چونکہ یہ ادارہ بلا منافع کام کرے گا اسلئے اس میں شراکت نہیں کی جاسکتی قرض اور چندہ کی رقم سے یہ ادارہ قائم کیا جائیگا ۔

 اسلامی تمویلی کھاتے دار ادارے کی ذمہ داریاں(Liabilities):

            جیسا کہ ہم نے باب دوئم میں دیکھا کہ اسلامی معیشت دان و فقہائے کرام موجودہ دورمیں اسلامی بینکوں کے لئے بہت سے مالی وسائل حاصل کرنے کے ذرائع بتاتے ہیں جو کہ اس بینک کے ذمہ داری ہوتی ہے۔اسلامی  قرض حسن ،شراکت و بیع کے ذریعہ وسائل حاصل کرتے ہیں ۔اب ہم دیکھتے ہیںکہ پاکستان میں ہم کون کون سے ذرائع کن حالات میں استعمال کرسکتے ہیں ۔کسی بھی تمویلی ادارے کیلئے مالی وسائل زیادہ انحصار کھاتے داروں سے وصول کی گئی رقموں سے ہوتاہے ۔ان رقوم کو کن کن کھاتوں میں رکھاجائے گا ۔اسکی تفصیل درج ذیل ہے ۔

٭کھاتوں کی تفصیل ۔

  ١: جاری کھاتے    ٢: قرض حسن کھاتہ    ٣:  شراکتی کھاتہ    ٤:  بیع خریدوفروخت و کرایہ کھاتہ   ٥۔دیگر کھاتے    

  جاری کھاتے:

            ان کھاتے میں جمع رقوم  امانت تصور کی  جائیں گی ۔ جو کہ پوری کی پوری تمویلی اداروں میں محفوض رہیں گی۔ ان کھاتے میں جمع رقوم عام طور پر کاروباری حضرات یا اھل ثروت حضرات رکھتے ہیں جن کامقصد ان رقوم کی حفاظت اور چیک کے ذریعے ادائیگی ہوتی ہے ۔تنخواہ اکائونٹس جیسے مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں زیادہ تر اسی اکائونٹ میںجمع ہوںگی ۔اس اکائونٹس کو کھولنے کا طریقہ وہی ہوگا جوکہ عام بینکوں میں رائج ہے اسی طرح کھاتے داروں کو چیک بک جاری کردی جائے تاکہ وہ جب چاہے اپنے رقم چیک کے ذریعہ نکلواسکیں۔ان کا حق خدمت چیک کے ذریعہ منہا کیا جاسکتا ہے ۔پاکستان کے حالات جہاں پر آپکامال غیر محفوظ ہو جہاں حکومت عوام کو تحفظ پہچاننے سے قاصر ہو اس صورتحال میںجاری کھاتوں  میں وہ لوگ بھی اپنی رقوم رکھوائیں گے جوکہ اس رقم کو کچھ عرصہ بعد استعمال کے خواہش مند ہوں گے۔

قرض حسن کھاتے :

             اس میں رکھی ہوئی رقم قرض حسن تصور کی جائیں گی اس میں وہ تمام عوامل شامل ہوں گے جسکا ذکر ہم اسلامی بینکاری میں قرض حسن کے ضمن میں کرچکے ہیں ۔یہ ادارہ کتنا فیصد اپنے پاس محفوظات (Reserve ) کے طور پر رکھتا ہے اور کتنا فیصد بطور قرض دے گا ۔ اس کا فیصلہ کمیٹی علمائے کرام کے مشورہ سے  تحریک اسلامی کی ضرو ریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریں گے۔

شراکتی کھاتے ٍ

            جیسا کہ اسلامی تمویلی نظام میںشراکت کے دو اصول وضع کئے گئے ایک مشارکت اور دوسرا مضاربت پاکستان میں اسلامی تمویلی کھاتہ دار  ادارہ شراکتی کھاتوں میں دونوں کھاتوں کو علیحدہ علیحدہ کھولے گا تاکہ کاروباری حضرات سے شراکت کے وقت ان کے ساتھ مشارکت اور مضاربت کے معاہدوں میں مال کی آمیزش نہ ہو جائے ۔مضاربت کھاتوں سے مضاربت کیلئے وسائل مہیا  کئے جائیں گے اور مشارکت کھاتوں سے مشارکت کیلئے وسائل مہیا کئے جائیں گے ۔ہمارا ماڈل چونکہ ارشاد اور اطاعت کے تحت اسلامی جماعتوں کی سرپرستی میں قائم ہے۔ یہ نظام اان ہی مسلمانوں کیلئے جوکہ اس اطاعت کے نظام سے منسلک ہیں ۔ اسلئے برخلاف اسلامی معیشت دانوں کے ماڈل کے یہاں پر رقم رکھنے اور رقم وصول کرنے والوں کو یہ کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ وہ کس کھاتے میں رقم رکھیں اور کس کے تحت رقم حاصل کریں۔ جو طریقہ کار اسلامی تمویلی ادارے متعین کریں گے سب اسکی اطاعت کریں گے کس مد میں رقم جمع کرنے کی ضرورت ہے اور کونسے تمویلی آلات کااستعمال امت کے لئے سود مند ہے اسکا فیصلہ نہ ہی کھاتے داری اور نہ ہی اسلامی کاروباری حضرات کریں گے یہ فیصلہ تو مرکزی تمویلی ادارہ خود کرے گا۔

بیع کھاتے :

بیع کھاتوں کے لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ان کا استعمال بلکل نہ کیا جائے ۔جیساکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ نے اسکو سود کو پچھلے دروازے سے داخل کرنے کا سبب تجویز کیا ہے۔ اسکو صرف باحالت مجبوری استعمال کا مشورہ دیا ہے ۔ چوں کہ ہمارے ماڈل میں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے اسلئے اس کے استعمال کو بکل ترک کیا جائے ۔

درج بالا امور کا ہم نے ایک رائج طریقہ تجویز کیا ہے جو کہ حتمی نہیں ہے بلکہ حتمی فیصلہ کونسل کرے گی جسکے فیصلے کی اطاعت لازمی ہوگی ۔اسلامی تمویلی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر نظام اطاعت بھروسہ اور بھائی چارگی پر قائم ہوتا ہے ۔ جبکہ آخر الذکر نظام لالچ ،حسد ،شک ،حرص پر ممنی ہوتا ہے ۔ان اسلامی تمویلی نظام سے وابسطہ دونوں کھاتے دار اور مالی وسائل کے استعمال کرنے والے علمائے کرام پر بھروسہ کرکے ان کے ہر فیصلے کی توثیق کریں گے ۔اس لئے یہ تمویلی نظام بغیر علمائے کرام کی عملی سرپرستی کے صحیح اسلامی روح سے خالی رہے گا ۔ یہ تمویلی نظام اسی معنی میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام تمویل(Financing ) کا متبادل ہوگا کہ نا صرف یہ سود سے عاری ہوگا بلکہ یہ دعوت و ارشاد سے منسلک ایک ایسا روحانی نظام ہوگا  جسکا اصل حدف نفع کی بڑھوتری (Profit maximization)  نہیں ہوگا ۔ بلکہ قلیل نفع کو تر جیح دی جائے گی ۔انفاق کے جذبات کی بدولت ایسے پروجیکٹ پر بھی وسائل مہیا ہونگے جو کہ مسلمانوں کی ضروریات کیلئے اہم مگر منافع کے اعتبار سے کم ہوں گے جیسے مدارس،مساجد ،خانقاہوں کی تعمیر جتنا اوپر دئیے گئے رجحان میں اضافہ ہوگا اتناہی یہ تمویلی نظام ایک خانقاہی نظام بن جائے گا اور پھر مضاربت اور مشارکت کے تحت شراکت کا مسئلہ نہیں رہے گا ۔جو علمائے کرام پاکستان میں بہتر سرمایہ کاری تصور کریں گے عام مسلمان اسی کی اطاعت کرتے ہوئے اسکو قبول کریں گے ۔اگر ہم نے ان اداروں میں مسلمانوں کی خواہشات کو منافع محض کی خواہشات سے دور نہیں کیا تو پھر یہ خواہش ہی سود کو پچھلے دروازہ سے داخل ہونے کا موقع دے گی۔

دیگر  ذمہ داریاں :

            یہ تمویلی ادارہ بیت المال  اور اوقاف کی کمی کو پورا کرے گا۔ پاکستان میں جیسا کہ ہم جانتے ہیں لوگ دینی رجحانات کے تحت زکوٰة،خیرات ،صد قات میں اپنی آمدنی کا کافی حصّہ خرچ کرتے ہیں۔ ان ہی رجحانات کے سبب حکومتی اعانت کے بغیر پاکستان میں مدارس ،مساجد فلاحی  ادارے  کام کررہے ہیں۔مخیر حضرات کی اعانت سے چلنے والے یہ ادارے نہ صرف حکومت کے اخراجات کو بچاتے ہیں بلکہ یہ نادار طلبہ کی تعلیمی  ضروریات ،کھانے پینے ،  لباس ک کو بھی پورا کرتے ہیں ۔چونکہ ان اسلامی اداروں کے پاس فنڈز کے حصول کے یہ ذرائع غیر حتمی اور غیر معتبر ہوتے ہیں اس لئے ان پر مکمل بھروسہ طویل مدت تک بہت خطرناک ہے اسلامی اداروں کے استحکام اور ان کو مستقلاً فنڈز کی فراہمی کیلئے تجویز دی جاتی ہے کہ یہ تمویلی ادارہ ان فنڈز کے حصول کیلئے  زکوٰة اور صدقات و خیرات کو استعمال کریں۔

  بیت المال فنڈ :

            ہماری تجویز یہ ہے کہ اسلامی تمویلی ادارے  اس فنڈ کے تحت رقوم کوبطور چندہ وصول کرے ان رقوم کے دو حصے کرے ایک فوری ضرورت کے لیے ہو تو دوسرا مستقل اس فنڈ میں اضافے کے لیے ہو۔ اس طرح کہ ان رقوم کو یہ ادارہ اس طرح منافع بخش مقاصد میں استعمال کرے کہ ان میں مستقلاًاضافہ ہو۔اس فنڈ کی ضرورت ان تمویلی ادارو ں کے تحت اس لیے ضروری ہے کہ

اوّل :  یہ کہ ان کی شاخیں ملک بھر میں ہوں گی اس لیے اس کو جمع کرنا نہایت سہل ہوگا ۔ کوئی بھی شخص اپنی قریبی شاخ میں ان رقوم کو بطور چندہ دیں گے ۔ یہ چندہ اس بھروسہ پر دیا جائے گا کہ اسکا استعمال اس ادارے کی ثواب دید پر ہوگا کہ اس کو جس جگہ استعمال کرے۔

دوئم :  پاکستان میں حکومتی سطح پر بیت المال کا نظام نہایت ناقص حالت میں ہے اس لیے اس پر بھروسہ عام مسلمانوں کا نہیں ہے ۔ مسلمانان پاکستان اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے جو بھی انفاق کرتے ہیں ان کا یا تو انفرادی طور پر انتظا م کرتے ہیں ورنہ ملک بھر میں قائم دینی اور فلاہی ادارے ان کو منظم کیے ہوئے ہیں۔پاکستا ن میں قائم یہ نظا م  جہاں غیر مربوط طریقہ سے اپنے کارہائے با احسن و خوبی انجام دے رہاوہاں کسی مربوط حکومت عملی کی عدم موجودگی میں ان فنْدسے وہ فوائد حاصل نہیںکیے جا رہے جو کہ اگرکسی منظم اور اجتماعی نظام کے تحت ہونے چاہئے تھے۔تمویلی ادارے علمائے کرام کی سرپرستی میں اس فنڈ کو اس طرح منظم کرے کہ اس کے ذریعہ ذاتی ، گروہی مفادات کے بجائے مسلمانان پاکستان کے اجتماعی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

سوئم: ہمارے ملک میں فنڈ کی کثیر تعداد فوری ضروریات پر خرچ ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے چندوں پر سے انحصا ر بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ ان فنڈ ز کا استعال اس طرح نہیں ہورہا کہ ان کو صرف کے علاوہ کسی ایسے استعمال میں لایا جائے کہ اس میں اضافہ بھی ممکن ہو ۔اس کے کیے تجویز ہے کہ اس میں سے کچھ رقم دیے گیے تمویلی آلات کے تحت استعمال کرکے اس فنڈ میں مسلسل اضافہ کیا جائے۔اور ضرورت مندوں کو ماہانہ بنیادوںپر رقم مہیا کی جائے۔

اوقاف فنڈ

            تمویلی ادارے علمائے کرام کی سرپرستی میں ایک اوقاف  کمیٹی قائم کریں گے جو کہ ملک میں موجود تمام مساجد و دارس کیلئے مستقل بنیادوں پر فنڈ کا انتظام کریں گے۔ اوقات کمیٹی سب سے پہلے ایک بجٹ بنائے گی جس میں جاری اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے گا۔ جاری اخراجات میں مدسین،موذن،ائمائمہ کرام اور دیگر خدام کی تنخواہیں، یوٹیلیٹی کے بل و دیگر اخرجات شامل ہوں گے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کتنی زکوة اور کتنے دیگر صدقات و خیرات کی ضرورت ہے اسکا بھی الگ حساب لگانا ہوگا۔ اوقاف اس تخمیہ کے بعد زائد وسائل کو شراکت یا بیع کھاتوں میں ڈال کر ان مستقلاً اضافہ کی کوشش کرے گا تاکہ مساجد و مدارس آئندہ چند سالوں میں وسائل کی کمی  کو پورا کرکے  خودکفیل  ہو جائیں۔

حج  فنڈ  

            ملیشیاء کا تبونگ حاجی جوکہ حج کی سہولت بہم پہنچانے کیلئے حج کیلئے مختص رقوم جمع کرکے اسکو منافع بخش کام میں لگا کر اس سے حاجیوں کے فنڈز میں ناصرف اضافہ کرتا ہے بلکہ ان کو اس فنڈمیں رقوم جمع کروانے کا ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے اسی ہی طرز پر حج وعمرہ ،قربانی یا کسی دینی خدمات کے حصول کا بھی انتظام کیا جائے ۔(3)اس فنڈ میں رقوم ماہانہ بنیادوںمیں جمع ہوں گی۔اس میں جمع رقوم پر سال کے آخر میں منافع دیا جائے گا۔ جمع شدہ وہ رقم جن پر کم از کم تین ماہ گزر چکے ہوں ان پر نفع دیا جائے گا تین ماہ سے کم عرصہ کیلئے جمع رقوم پر کوئی منافع نہیں ملے گا ۔ اس کو مثال سے دیکھتے ہیں کہ حسان اگر اگلے سال حج کرنا چاہتا ہے ۔اس نے حج کے غرض سے ماہ محرم میں 10,000 روپے جمع کروائے اگرحج کے اخراجات کم و بیش ایک لاکھ روپے ہوں تو اگر کوئی 10,000روپے بھی ہر ماہ جمع کروائے تو اسکے دس ماہ بعد ایک لاکھ جمع ہوسکتے ہیں ۔ہماری مثال میں حسان نے مزید 20,000 روپے ماہ صفر میں جمع کرائے اور پھر 15,000 روپے ماہ ربیع الاوّل میں جمع کروائے یعنی تین ماہ کے دوران اس نے 45,000 جمع کروائے۔اب یہ ادارہ پہلے 10,000روپے پر منافع کا اعلان تین ماہ بعد یعنی ربیع الثانی میں کرے گا ۔دوسرے 20,000 روپے پر منافع کے اعلان اس رقم کے جمع ہونے کے بعد کیا جائے گا اس طرح شعبان تک جمع ہونے والی رقوم پر منافع دیا جائے گا اس کے بعد جمع رقوم کو قرض حسن تصوّر کیا جائے گا جس پر کوئی منافع نہیں دیا جائے گا ۔ان افراد کو یہ ادارہ مکمل حج کی سہولیات جس میں رہائش گروپ کی تشکیل جیسے امور بھی شامل ہوںگے دے گا۔ اس طرح مسلمانان پاکستان حج کیلئے سودی بینکاری میں رقوم جمع کروانے کے بجائے بلاسودی اس ادارہ میں رقم جمع کرواکر اپنے حج کو سود کی لعنت سے پاک کردیں گے ۔ حج کے اس فنڈ میں درمیانی عرصے میں رقم  نکلوانے کی اجازت نہیں ہوگی اگر جمع کئے گئے فنڈ اور منافع کی رقم دونوں مل کر بھی حج کیلئے مختص رقم سے کم ہوگی تو اس کھاتے دار کو اس رقم کو اگلے سال حج کیلئے مختص کردیا جائے گا ۔اسی طرح وہ افراد جو کسی وجہ سے حج نہ کر سکیں وہ بھی اپنی رقوم  جمع رکھیں گے بلکہ ان  پر نفع بھی دیا جائے گا ۔

            حج کے علاوہ عمرہ کیلئے بھی لوگ حج فنڈ میں پیسہ جمع کرواسکتے ہیں یہ افراد جو عمرہ کے لئے رقم رکھوائیں وہ اس تین مہینے سے پہلے نہیں نکلواسکتے ۔اسی طرح عیدالاضحی میں قربانی کیلئے بھی اس طرح کے فنڈ قائم کیے جاسکتے ہیں۔

کمیٹی فنڈ:

            سرمایہ دارانہ ،سودی معیشت کو جس طرح سے چھوٹے کاروباری اور گھریلو صارفین فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے محلہ ،بازار ،دفاتر میںکمیٹی کا انتظام کرتے ہیں ۔اس طریقہ میں کچھ افراد مل کر ماہانہ طے شدہ رقم ہر ماہ  جمع کرواتے ہیں پھر جمع شد ہ رقم  کسی ایک ممبر کو دے دیتے ہیں ۔ یہ عمل ممبر کی تعداد کے اعتبار سے اتنے ماہ تک چلتا ہے اس طریقہ کار میں سود کی آمیزش بلکل نہیں ہوتی مگر چونکہ یہ آرگنائزڈ (Organised) نہیں ہے ۔اس لئے یہ اتنا موثر نہیں ہے جتنا ہونا چاہیئے ۔اب اس ادارہ کی ذمہ داری ہے کہ کمیٹی فنڈمیں کمیٹی کے طرز پر رقم جمع کرے یہ رقم 100 روپے سے لیکر لاکھوں تک ہوسکتی ہے ۔اسکے ممبر 10 افراد سے لیکر کئی افراد تک ہو سکتے ہیں۔ہر ماہ قرعہ اندازی سے جسکا نام نکلے یہ ادارہ اس کو وہ رقم ادا کردے ۔اور یہ کام ہر مہینے کی 10 تاریخ تک کرے گا ۔ اس کمیٹی فنڈمیں اُن کو شریک کرے جن کی رقم پہلے سے اس ادارہ میں کسی اور کھاتے میں رکھی ہو یا اس شخص کی کوئی ضمانت لے لے ۔ تمویلی ادارہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد اس فنڈمیں اس شخص کا اندراج کرے ۔ یہ ادارہ اس بات کو بھی مدّ نظر رکھے کہ اس کے تمام ممبر ہر ماہ کی 10تاریخ سے پہلے اپنی رقم جمع کروادیں ۔جو شخص 10تاریخ کے بعد رقم جمع کروائے گا اسکا نام اس ماہ کی قرعہ اندازی میں شامل نہیں ہو گا ۔یہ ادارہ اس فنڈ کے لئے کچھ سروسز چارجز (Services Charges ) بھی وصول کرے گا  اسکو دوسرے  باب میں تفصیل سے دیکھیں گے ۔

موسمی  فنڈ :       

            دیہی علاقوں میں جہاں پر لوگوں کا زیادہ دارومدارکاشت کاری پر ہوتا ہے چونکہ کاشت کاری  ایک موسمی کام ہے اسلئے اس میں مخصوص دنوںمیں کاشت کاروں کو پیسہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسکے بعد کافی عرصہ تک جب تک فصل پک کر تیار نہ ہوجائے پیسہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ کاشت سے فارغ دنوںمیں کاشتکاروں کی حاصل کی ہوئی رقم کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ ان کو اس دوران منافع بھی مل سکے زرعی علاقوں میں یہ ادارہ ان کاشتکاروں سے رجوع کرے اور ان کی رقوم  ایک کاشتکاری کھاتے میں رکھ کر اس رقم کو شراکت کی بنیاد پر صنعتی شعبہ میں لگائے تاکہ کاشتکاروں کو مزید منافع حاصل ہوسکے ۔جب ان کاشتکاروں کو ضرورت پڑے تو وہ رقم نکلواسکتے ہیں ۔اسی طرح ہر اس شعبہ میں جہاں پر کام مخصوص موسم (Season ) میں ہوتاہے اسکو یہ سہولت دی جائے کہ وہ آف سیزن (Off Season) میںاپنی رقم اس فنڈ میں رکھ کر منافع کمائے اور سیزن آنے پر رقم نکلواکر اپنے کاروبار میں لگائے ۔یہ  فنڈ قلیل مدّتی کھاتے  میں استعمال ہوں گے ۔پاکستان کی ضرورت ،ماحول ،اقتصادی و معاشرتی حالات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ ادارہ عوام الناس کی جمع شدہ رقم کو مختلف فنڈز میں رکھ کران کا مفید استعمال بھی کرے گا ۔

 وسائل کا استعمال :

            جیسا کہ ہم نے کھاتوں میں تجویز کیا کہ اس ادارہ کا اصل کام ان ذمہ داریوں کا استعمال اس طرح کرنا ہے کہ اسلامی کاروبار ، انفاق پروان چڑھے ساتھ ساتھ کھاتے داروں کو اس کے عوض حلال و افضل منافع بھی حاصل ہو ۔ ہماری تجویز ہے کہ قرض حسنہ اور شراکت کو فروغ حاصل ہو کرائے اور لیں دین کا طریقہ کار  صرف ان کی ضرورت کے مطابق کیا جائے اور اس  نوعیت کے عقد کے تحت پیداوار ی تمویل نہ کی جائے ۔ یہ ادارہ چونکہ بغیر نفع نقصان کے خدمت انجام گا۔ مگر چونکہ یہ خود انحصاری کی بنیاد پرقائم ہوگا تو یہ اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے حق خدمت کی مد میں دونوں طرفین یعنی کھاتے دار اور کاروباری حضرات سے فیس وصول کرے گا چونکہ یہ تمویلی ادارہ کاروبار میں شریک نہیں ہے اسلیئے اس کا فیس لینا  ہر سطح پر جائز ہو گا ۔ یہ ادارہ اتنا ہی حق خدمت وصول کرے گا جتنا کہ اسکے اخراجات ہوئے ہیں زائد فیس سود کے مماثل ہوجائے گی۔ فیس کے مد میں جیسا کہ سودی بینکاری میں بھی موجود ہے ، کھاتے دار ہر چیک جو وہ وصول کرتا ہے اسکی فیس پہلے ہی ادا کردیتا ہے اسی طرح یہ تمویلی ادارہ بھی چیک بک کی قیمت میں کھاتے دار سے فیس وصول کر سکتے ہیں ۔اسکے مدتی کھاتوں میں بھی رقم مدت سے پہلے نکلوانے کی صورت میں جرمانہ بھی یہ تمویلی ادارہ وصول کر سکتا ہے ۔کھاتے دار کے علاوہ اصل خدمت چونکہ یہ ادارہ کاروباری حضرات کی کررہا ہے اسلئے ان سے بھی اخراجات کی مد میں فیس وصول کی جاسکتی ہے ہر کاروباری کوجو اس ادارہ سے مالی معاملات کرنا چاہتا ہے سب سے پہلے اپنا اندراج اس ادارے میں کروائے گا  جس کی فیس ہو گی ۔ادارہ ان حضرات کے کاروبار جس کی مد میں وہ شراکت ،قرض یا بیع کا معاملہ کررہا ہے انکی جانچ پڑتال کرے گا کہ آیا وہ منافع بخش جائز اور اسلامی شعار کا پاسدار ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جماعت یا گروہ کے کاکن بھی ہیں، اس لیے کہ ہمارا یہ ماڈل موجودہ صورتحال میں صرف ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو کہ کسی بھی اسلامی جماعت یا گروہ کے رکن ہوںگے ۔ ہر پروجیکٹ کو وسائل مہیا کرنے سے پہلے اس کی مکمل جانچ پڑتال ہوگی  ۔ اس  جانچ پڑتال میں جو وسائل اس ادارہ کے استعمال ہوںگے ۔اسکی پیشگی ادائیگی ہر کاروباری فریق کو رجسٹریشن فیس کی مد سے کرنی ہوگی ۔یہ تمویلی ادارہ کاروباری حضرات سے یا کھاتے دار سے جو بھی فیس کی مد میں حق خدمت وصول کرے گا اس میں یہ بات مدّ نظر رہے گی کہ اس ادارہ کا مقصد منافع کمانا نہیں ہے بلکہ اس فیس سے اخراجات کو پورا کرنا ہے ۔اسلیے یہ فیس ہر کاروباری سے اور کھاتے کیلئے مختلف ہو سکتی ہیں کہ یہ فیس اس کام میں آنے والے حقیقی اخراجات کے برابرہوگی ۔

مالی وسائل :

حق خدمت کو وضع کرنے کاطریقہ جو ہم نے اپنے پچھلے باب میں دیکھا تھا جو کہ اسلامی ترقیاتی بینک نے وضع کیا تھا  ہم اس کی جگہ حقیقی اخراجات کے مطابق حق خدمت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔

حق خدمت جو کہ کسی بھی کاروباری کے اخراجات کا ایک حصّہ بن جائے گا چاہے جو قرض لے،چاہے شراکت کرے ہرصورت میں اسکو حق خدمت ادا کرنا ہوگا ۔اسلیئے جب تمویلی ادارہ کسی بھی کاروبار کی قابل عمل رپورٹ( Feasibility Report  )تیار کرے گا تو وہ حق خدمت کو اخراجات کا حصّہ تصوّر کرے گا ۔ایک مسئلہ جو کہ کسی بھی اسلامی کاروبار جو جانچنے کا ہے کہ آج کے اعتبار سے اسکی قدر معلوم کی جائے جسکو تمویل  کی زبان میں موجودہ قدر Present value  (PV) کہتے ہیں تمویلی  ادارہ کیلئے اپنے وسائل کے استعمال میں لانے سے پہلے اسلامی کاروبار کو جانچنے کے دو نقطہ نگاہ ہوں گے ۔

١:  غلبہ اسلام کا فروغ ، اسلامی کاروبار کا فروغ ، اسلامی تحریکات کے کارکنان کیلئے زیادہ روزگار کے مواقع ۔

٢:  اسلامی کاروبار تمویلی لحاظ سے منافع بخش کاروبار ہو اوّل الذکر جا نچ کو تو کونسل جانچے گی جبکہ آخر الذکر جانچ کیلئے ہم کو تمویلی آلات جس میں موجود  قدر  (PV) ، Net Present Value  (NPV) کو استعمال کرنا ہوگا ۔ان ہی آلات کو استعمال کرکے ہم اسلامی کھاتے داروں کو کسی بھی پروجیکٹ میں لگے ہوئے پیسے کا تخمینی منافع بھی بتاسکتے ہیں کونسل کو چاہیئے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کی مسلسل ذہن سازی کرے کہ وہ صرف منافع پر نظرنہ رکھیں بلکہ ایسے پروجیکٹس جوکہ ان کیلئے آخرت میں صدقہ جاریہ ہوں ان پر زیادہ اعتبار کریں اسلامی فائنینشل آلات میں جو بات قابل ِاعتراض ہے وہ انکی پڑتال میں سود کا عنصر ۔اس کا مکمل فارمولا پہلی طیع میں موجود ہے اس کتاب کو عام فہم کرنے کے لیے اس فارمولے کو حذف کیا جارہا ہے

 اس فارمولے سے ہم یہ بات بتانا چاہتے ہیں کہ تمویل کے پیمانوں کو اسلامی تناظر میں استعمال کرسکتے ہیں۔اس کے ذریعہ ہم سرمایہ دارانہ اقدار جو کہ سود اور منافع خوری ہیںکو اسلامی تمویل سے علیحدہ کرسکتے ہیں۔ جو فارمولہ ہم کسی بھی کاروبار کو جانچنے کیلئے عام طور پر استعمال کرتے ہیں اس میں سود کو بطور پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی معیشت دان اجارہ کو یا مرابحہ کو استعمال کرتے ہیں تو کرائے کی پیمائش کیلئے سود کو ہی آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اگر ہم المیزان بینک کی گھر اجارہ اسکیم دیکھیں  تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسکے میزانیہ سے  جو شرح نکلتی ہے وہ 8فیصد سے10فیصد ہے جو کہ موجودہ دور میں بینکوں کا شرح سود بھی ہے اور یہ ہی مارکیٹ ریٹ(Market Rate)کہلاتاہے اور شرح سود زر کی وقتی قدر کے (14)            (Interest is the time value of money)برابری سب سے اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ سرمایہ داررانہ نظام میں 100روپے جو آج آپکے پاس ہے اسکی قدر سود سے نکالی جائے گی اگر مارکیٹ شرح سود 10فیصد سالانہ ہے تو پھر 1000روپے اگست2005کی قدر اگست2006میں1100روپے کی ہوگی۔ اس طرح آج 1000روپے ایک سال بعد 1100کے برابر ہونگے۔جیسا کہ اس مثال سے واضع ہے کہ روپے کی آج اور کل کی قدر کو برابر کرنے کا پیمانہ شرح سود ہے۔جتنا شرح سود زیادہ ہوگا اتنا ہی آنے والے دنوں میں روپے کی قدر کم ہوگی اور اس کے برخلاف زیادہ ہوگی۔

اگر کسی بھی اسلامی کاروبار کو جانچنے کیلئے ہم یہ ہی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں تو پھر ہم سود کو ہی اسلامی کاروبار کا میزان گردانیں گے جو کہ سراسر غیر اسلامی ہے ہمیں ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا جس میں سود کا شائبہ بھی نہ ہو۔اور ا س  اسلامی تمویل ناپنے کیلئے کوئی اور پیمانہ وضع کرنا ہوگا۔ ہم برابری(Equivalance)کے تصور کو رد کرتے ہیں اور زر کی برابری کے قائل نہیں ہیں۔ہم اسلامی کاروبار کا فروغ چاہتے ہیں۔ جہاں پر حلال کی ہمیشہ حرام اور مکروہ پر فوقیت ہوگی چاہے حرام مکروہ کام کتنا ہی منافع بخش کیوں نہ ہو۔

 ہم اسلامی کاروبار کے جانچ کے لیے ہم سود کو پیمانہ تصور نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ ایک اور پیمانے کو وضع کرتے ہیں ۔

وہ بنیادیں جن کی بناپر اسکامی کاروھار کی جانچ ہوگی کی آیا قابل عمل ہے کہ نہیں۔ اس کی کچھ بنیادیں تو نظری(Qualitative)ہیں اور کچھ مقداری (Quantative)ہیں ۔

 نظری بنیادیں کونسل میں شامل علمائے کرام طے کریں گے۔ جن کی کچھ شرائط یہ ہیں

١۔ لازمی شرط:  تمویلی ادارہ  یہ رقوم ان افراد یا گروہ کو دے گا جو کہ کونسل کے طے شدہ دینی جماعتوں ی گروہوں سے منسلک ہوں گے۔

٢جس کاروبار کے لیے یہ مال مختص کیا جائے گا وہ اسلامی کا روبار ہوگا ۔

٣۔ ایسا کاروبار جس کا تعلق کسی بھی طرح سود ی فائنینشل ماکیٹ سے نہ ہو۔

٤۔ سب سے لازمی شرط کہ اس کا تعین کونسل میں شامل علمائے کرام کے اپنی ثواب دید پر کیا ہو۔

اس کے علاوہ دیگر نظری بنیادیں درج ذیل ہیں۔

١۔ ایسا پروجیکٹ جس کے ذریعہ کارکنان اسلامی کو زیادہ ملازمتوں کے مواقع ہوں۔

٢۔تربیت کا مکمل انتظام ہو

٣۔ ملازمین کی نہبود کا مناسب انتظام ہو ۔

٤۔زکواة کی ادائیگی کرنے والے ہوں۔

اس کے علاوہ بھی دیگر لاگتیں بھی کسی اسلامی کاروبار کا حصہ ہوں گی ۔

١۔ ملازمین کی سہولیات کو مدے نظر رکھتے ہوئے اور پیداور /مقدار کو بڑھانے کے کیے جدید آلات ، مشینری و دیگر آلات کی خریداری اور لگائی پر آنے والے اخراجات ۔

٢۔ اسلامی تمویلی ادارے کا حق خدمت۔

یہ دیگر عوامل کی جتنی پاسداری ہوگی اتنا ہی اس ادارے کی لاگت میں اضافہ وہوگا اور اسکے منافع کی شرح میں کمی واقع ہوگی اس لیے ایک اسلامی کاروبار کی جانچ صرف منافع کے زیادہ حصول پر نہیں  ہوگی۔

ایک اسلامی کاروبار کی جانچ میں کم از کم شرح منافع کا تعاین کرنا لازمی ہوگا کہ کسی بھی کاروبار کا منشا اپنی کم از کم ضروریات کو پوراکرنے کے لیے جائز منافع کو حصول ۔اسی طرح تمویلی ادارہ کو مال شراکت داروں سے لے گا اس کے عیوض ان کو کچھ نہ کچھ منافع ضرور دے گا ۔اس منافع کے طے کرنے میں درج بالا  لاگت کو ضرور شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل اور لاگتوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

 وسائل کے استعمال کا طریقہ :

            جیسا کہ پچھلے باب میں ہم نے تفصیل سے دیکھا کہ تمویلی ادارہ دیگر کھاتوں کے علاوہ تین قسم کے کھاتے کھولے گا ۔ اس میں سے جاری  کھاتوں کو تو وہ استعمال نہیں کرے گا چوں کہ وہ امانت ہیں ۔ اس لئے اس کی سو فیصد محفوضات اس ادارے کے پاس ہوں گی۔ اس کے علاوہ دیگر کھاتوں کی تفصیل یہ ہے۔  اگر قرض حسن کی ضرورت ہے تو قرض حسن کھاتے سے یہ فنڈ نکال کر ضرورت مند کو ادائیگی کی جائے گی ۔اگر شراکت کی ضرورت ہے تو پھر شراکت کھاتے سے رقم اداکی جائے گی ۔اس طرح سے ایک بلکل سادہ نظام ہوگا جس میں معاہدوں میں آپس میں خلط ملط نہیں ہوگا۔علیحدہ علیحدہ کھاتوں سے علیحدہ علیحدہ معاہدوں کے تحت تمویلی ادارہ اپنی نگرانی میں رقوم ادا کرے گا اور اسکی اصل اور منافع یا کرایہ یا قسطیں وصول کرے گا اور پھر ان رقوم کو کھاتے داروں میں دیئے گئے معاہدوں کے تحت تقسیم کر دے گا ۔ ان کھاتوں میں رکھی ہوئی رقوم کو کس طرح استعمال کیا جائے گا کہ دیئے گئے مقاصد کا حصول ممکن ہو ،کونسل اس بات کافیصلہ کرے گی کہ کس قسم کے کام کیلئے کونسی مد سے رقم ادا کی جائے گی ۔چوں کہ یہ اسلامی ادارہ ہے اور اس کی اصل ذمہ داری فرغ دین ہے اس لیے منافع کا حصول نا ہی کھاتے دار کا مقصد ہوگا اور نہ ہی کاروباری فریق کا۔

 قرض حسن :

 قرض حسن کیلئے رقم  قرض حسن کھاتوں سے مہیا کی جائیںگی چونکہ قرض حسن پر کوئی اضافی رقم قرض لینے والے کو ادا نہیں کرنی ہوگی بلکہ تمویلی ادارہ کو سروس چارجز ادا کرنے ہوں گے۔ قرض حسن کا استعمال کہاں ہو گا اس کا حتمی فیصلہ تو کونسل  اپنے ایماں پر کرے گی۔ مگر ہم پھر بھی چند بنیادی باتیں اس ضمن میں عرض کرتے ہیں ۔ قرض حسن کو بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا اس کو ان کاروباری حضرات تک پہنچانا ہوگا جو درج ذیل خصوصیات کے حامل ہوں گے ۔

١۔ وہ اس ادارہ سے شراکت کے تحت  رقم لے چلے ہوں اب ان کو کاروبار کے ایسے حصّہ میں رقم لگانی ہے جس میں فوری منافع متوقع نہیں ہے ۔ مثلاً جگہ کی وسعت یا نئی جگہ کی خریداری ملازمین کی بہبود کا کام جیسے ان کے لئے رہائش ، سواری یا ان کو ضروریات کیلئے قرض دینے کا انتظام وغیرہ ۔اس نوعیت کے کام سے کاروباری فریق کو براہ ِراست نفع نہیں ہوتا بلکہ بلاواسطہ اس کے کاروبار میں اور ملکی معیشت میں استحکام آتا ہے ویسے بھی ہمارے اسلامی کاروباری کا متمع نظر منافع محض کا حصول نہیں ہے اسلئے ایسے بہبود اور اسلامی اخوت کے کام میں یہ اسلامی ادارہ ان کی مدد ضرور کرے گا ۔

٢۔ ایسا اسلامی کام جوکہ امت کی بہبود اور غلبہ دین کیلئے ضروری ہو مگر اس میں نفع نہ ہو جیسا کہ خود اس اسلامی تمویلی ادارہ کا قیام ہے۔ 

٣۔ اس قرض کو خالص صرف (Consumption ) کیلئے استعمال نہ کیا جائے جس سے مسلمانوں کی خواہشات میں اضافہ ممکن ہو چونکہ اس ادارہ کا مقصد اسلامی شعار کا فروغ بھی ہے اسلئے امت میں  اپنے حلال مال کو صرف کرنے کے بجائے انفاق کی دعوت ہوگی۔

شراکت :

شراکت کے تحت یہ اسلامی تمویلی ادارہ محدود اور غیر محدود ،طویل المیعاد اور قلیل المیعاد مدتی کھاتوں کے ذریعہ کاروباری حضرات کو فنڈ فراہم کرے گا ۔یہ اسلامی ادارہ چونکہ ثالث کا کردار ادا کررہا ہے اور اسکا کام امّت کے پیسہ کو دیئے گئے مقاصد کے تحت استعمال کرنا ہے اسلئے یہ ادارہ ہر کاروباری کیلئے فیصلہ کرے گا کہ اسکو کس شراکت کے اصول کے تحت سرمایہ فراہم کیا جائے آیا مضاربت یا مشارکت کے تحت۔ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ مشترک کھاتے نہیں ہوں گے اسلئے ایک وقت میں ایک کاروباری کویاتو مضاربت کے تحت ر قم دی جائیگی یا مشارکت کے تحت  رقم فراہم لی جائے گی۔ 

 کسی بھی کاروبار کیلئے جب بھی شراکت کی جائے تو پہلے دیئے گئے موجودہ قدر (PV ) کے تحت اس کا روبار کے  متوقع کم از کم منافع کا تعیّن کرلیا جائے گا ۔یہ تخمینی ہوگا اس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم مشارکت اور مضاربت کے تحت قرضہ دیں گے ۔ مگر ہم پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ حتمی فیصلہ کونسل کرے گی اس کی توجیہ صرف اطاعت و  بھروسہ ہوگا۔

چند عمومی اصول جو کونسل وضع کرے گی وہ مختصراًکچھ یوں ہیں ۔

١۔ ایسے کاروباری حضرات جوکہ قرض حسن لے چکے ہیں تو اگر ان کے مجموعی کاروبار میں قرض کا حصّہ 40 فیصد سے کم ہوگا تو وہ مضاربت کے تحت شراکت کرنے کا حقدار ہوں گے۔

٢۔ ایسا کاروبار جس کی NPP زیادہ ہو گی تو اس میں نفع کے امکانات زیادہ ہوں گے ۔ایسے کاروبار کو مضاربت کے تحت شراکت کرائی جائے ۔

 ٣۔ وہ چلتا ہوا کاروبار جوکہ منافع بخش ہے وہ بھی مضاربت کے تحت مال حاصل کرسکتا ہے۔

٤۔ مضاربت کے تحت دیا جانے والا مال میں مضارب یعنی کاروباری فریق کا مال میں حصّہ رب المال (کھاتے دار) سے زیادہ ہوگا ۔جبکہ مشارکت میں کم حصّہ پر بھی شراکت کرلی جائے گی ۔

٥۔ جب بھی اسلامی تمویلی ادارہ شرکت کے تحت رقم مہیا کرے گا تو کوئی کم از کم کاروباری شریک کیلئے حصّہ کی شرط رکھے گا ۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تناسب 95 اور5 فیصد کی ہو ۔

٦۔نئے اور چھوٹے کاروبار کیلئے مشارکت مضاربت کی نسبت زیادہ سود مند ہوگا ۔چھوٹے کاروباری کیلئے بھی تمویلی ادارہ دیکھے کہ

اسکی سالانہ فروخت کتنی ہے ۔مثلاًجس کا روبار کی سالانہ فروخت 150,000 روپے سے کم ہوگی وہ چھوٹا کاروبار کہلائے گا ایسے فریق کوزیادہ شرح منافع پر کم حصّہ میں قلیل المدّتی فنڈ  شراکت کے تحت فراہم کیا جائے گا ۔چھوٹا اور درمیانی کاروباری چونکہ موجودہ پاکستان کے حالات میں حکومتی دسترس اور سودی لین دین سے کافی حد تک باہر ہے اسلئے ان کے کاروبار کو فروغ دینا اور ان کو چھوٹے کاروباری سے بڑے کاروباری بناتا اس ادارہ کی اوّلین ترجیح ہوگی اس لئے ان کو زیادہ سے زیادہ فنڈ مہیا کیے جائیں گے ۔پاکستان کا معاشی خدوخال ایسا ہے کہ یہاں پر وہ معیشت جو کہ پوشیدہ ہے جسکو Informal Sectorسے  تعبیر کیا جاتا ہے اسکا   زیادہ تر حصہ چھوٹے اور درمیانی درجہ کے کاروبار پر مشتمل ہے ۔           

زکوٰة /خیرات/ انفاق فنڈ کا استعمال :

            اس فنڈ کے استعمال سے پہلے اسکی کمیٹی اور شعبہ بنایا جائے گا جوکہ اس فنڈ کے استعمال اور اسکے فروغ کیلئے اقدامات کرے گا۔ امارت اسلامیہ کے قیام سے پہلے یہ فنڈ بیت المال کے متبادل کے طور پر کام کریگا ۔خلاف عثمانیہ کے ختم ہونے اور اسلامی مرکزیت کے ختم ہونے کے بعد جس طرح زکوٰة ،خیرات اور دیگر انفاق کے ذریعہ ہم نے اسلامی اداروں ،غریبوں ،یتیموں ، بیوائوں کی امداد اور جہاد کو فروغ دیا وہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے جس طرح امّت مسلمہ کے متوّل ،کاروباری طبقہ نے اسلامی اداروں کو بغیر حکومتی امداد کے قائم رکھا ۔خاص کر مدارس ومساجدمسلسل اس فنڈ سے افادہ حاصل کر رہے ہیں ۔آج ہمارے اسلامی اداروں کا حال یہ ہے کہ خود موجودہ دور میں اسلام دشمن حکمران اور ان کے حوارین بھی مدارس کو سب سے بڑے فلاحی ادارے تصوّر کرتے ہیں جو کہ حکومتی امداد کے بغیر کڑوڑوں غریب طالبعلموں کو تعلیم کے ساتھ رہائش اور کھانے کا انتظام فراہم کرتے ہیں ۔پاکستان میں قائم وفاق المدارس نے حکومت سے ناصرف امدادحاصل نہیں کی بلکہ اس سے ملنے والی مشروط امداد کو بھی ٹھکرادیا (خبر مقامی اخبار ٢٠٠٣  تا   ٢٠٠٤) 

ہمارے اسلامی ادارے جوکہ مخیر حضرات کی امداد کے محتاج ہیں۔ پچھلے کم و بیش پچپن (٥٥) سالوں میں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے سے قاصر ہیں موجودہ استعمار کی کوشش یہ ہے کہ وہ ان اسلامی اداروں کے فنڈ کو کم کرکے ان اداروں کو استعمار کی ایجنٹ ریاست کے تابع کردیں اور غلبہ اسلام اور جہاد کو ناممکن بنادے ۔اب اسلامی تمویلی ادارہ کا کام ہے کہ وہ اس فنڈ کو منظم کرے اور ایک بیت المال اور دوسرا اوقاف بنائے جس کے تحت اس فنڈ کو غریبوں،یتیموں،بیوائیں،مدارس،مساجد و دیگر ضرورت مند افراد اور اداروں کو دیں۔اوّل جسکا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں کہ اسلامی کاروبار کو فروغ دینا اسطرح کہ انفاق کا جذبہ پروان چڑھے ۔اور اسلامی مخیر حضرات کے حاصل ہونے والے چندے میں اضافہ ہو ۔دوسرا اس چندے کی رقوم کا استعمال ایسا کیا جائے کہ ہمارے اسلامی ادارہ اور ضرورت مند افراد خود کفیل ہو جائیں اور چندے کی ضرورت کم سے کم یا ختم ہوجائے ۔اس فنڈ کو صِرف صَرف نہ کیا جائے بلکہ اسکواسلامی تمویل کے تحت منافع بخش کام میںلگایا جائے اس طرح ایک طرف فنڈ میں کئی گناہ اضافے ہوگا اور اسکی نئی ضرورت تو پیدا ہوگی مگر پرانی ضرورت کم ہوتی جائے گی ۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ خلافت کے ختم ہوتے ہی چندہ کا فنڈ منظم طریقہ سے نہیں ہوا بلکہ غیر منظم طریقہ سے اسلامی شخصیات ،گروہ ،جماعتوں نے اسکو منظم کیا اور اسکا استعمال بھی منظم نہ ہونے کے سبب بعض دفعہ غلط استعمال کی وجہ سے ضائع ہوگیا ۔چندہ کی رقوم کے صحیح استعمال اور اسکے منظم کرنے میں یہ ادارہ اہم کام سرانجام دے گا ۔علمائے کرام اور ماہرین کی چندہ کمیٹی اسکو منظم اور مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گی ۔یہ ادارہ اس فنڈ کے ذریعہ ایک غیر کھاتہ دار تمویلی ادارہ کا کام بھی کرے گا یہاں یہ کام اس ایک ہی ادارہ کے ایک شعبہ کے تحت ہوگا اسکے لئے نیا ادارہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔اس فنڈ سے دوقسم کے کام لئے جاسکتے ہیں ایک یہ اس فنڈ سے براہ راست امداد کرے گا اور ان کو زکوٰة ،خیرات ،صدقات کی رقوم میں سے کچھ رقم ادا کرے گا ۔جوکہ اس فرد یا ادارہ کی ثواب دید پر ہوگا کہ اسکو جیسے چاہے استعمال کرے ۔ دوسرا وہ اس فنڈ کی رقوم کو منافع بخش کام میں شراکت یا بیع کے تحت دے کر اس سے اس فنڈ میں مزید اضافہ کرے گا۔

اب ہم دونوں طریقہ کار کو تفصیل سے دیکھتے ہیں ۔

پہلاطریقہ فنڈ کا براہ راست استعمال :

     اس فنڈ کے دو حصے ہوں گے ایک اوقاف اور دوسرا بیت المال۔اوقاف فنڈ کے تحت مدارس ،مساجد خانقاہوں اور دیگر دینی اداروں کو فنڈ دیے جائیں گے۔جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اوقاف کو یہ فنڈز بجٹ کے تحت دیے جائیں گے۔ یہ فنڈز جاری اخراجات کو پورا کرنے کے علاوہ ان اسلامی اداروں کی مستقل آمدن کیلئے اس فنڈزکازائد حصہ شراکت یا بیع کے تحت منافع بخش کاروبار میں لگائیں گے۔بیت المال فنڈز سے یتیموں، بیوائوں،غریبوں، ناداروں کی مدد کی جائے گی۔ اس طرح کہ فنڈ میں موجود فنڈز کو منافع بخش کام میں شراکت کے تحت لگادیا جائے گا اور اسکے منافع سے ماہانہ ان افراد کو وضیفہ باندھا جائے گا تاکہ ان افراد کی کفالت کا مستقلاً بندوبست ہوسکے۔اس فنڈ سے حاصل ہونے والی کچھ رقوم کو غریب افراد اسلامی اداروں ،اسلامی گروہوں ،جماعتوں ،کارکنوں کو جہاد اسلحہ کی خرید اری یا مجاہدین کے راشن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس فنڈ کو ماہانہ یا یکمشت دونوں صورتوں میں ادا کیا جا سکتا ہے ۔ یہ طریقہ کار عام خالص اسلامی اداروں کی طرح ہوگا ۔اسی طریقہ کار میں ہم بیع فنڈ جس میں اشیاء کے استعمال کے دوران جیسے موٹر کار کے حادثہ کی صورت میں معاوضے کی مد میں بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اسلئے وہ ایک فنڈ ایسے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے مخیر حضرات کے علم میں لاکر قائم کیا جاسکتا ہے مگر اس فنڈ سے اسکی مدد کی جائے گی جوکہ مددکا مستحق ہو مثلاً ایک شخص جوکہ عام حالات میں مکان خریدنے کی استعطاعت نہیں رکھتا اگر مکان میں جوکہ اس نے بیع موجل کے تحت لیا تھا ۔حادثہ درپیش آجاتا ہے تو اس فنڈ سے اس شخص کی بھی مدد کی جا سکتی ہے دوسرا طریقہ کار جوکہ اس میں اضافے کا سبب بنے اور اوّل طریقہ کیلئے کام آسکے ۔وہ اسلامی کارکنان ،مجاہدین ،شہداء کے اہل و عیال وغیرہ کو اسی فنڈ سے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے ۔اس فنڈ کا استعمال دو طرح سے ہوگا ایک اسلامی تمویلی ادارہ خود عوام الناس سے چندے کی رقوم حاصل کرکے اسکو اسلامی اداروں کیلئے استعمال کرے ۔دوسرا یہ کہ وہ ان اداروں کے فنڈ کو استعمال کرے دونوں صورتوں میںان اداروں کے فنڈ میں اضافہ ہوسکے اور وہ اپنی ضروریات میں خود کفیل ہوتے جائیں ۔اسکے علاوہ دیگر کھاتوں میں لوگ ملیشیاء کے تبونگ حاجی بینک کے طرز پر حاجیوں کیلئے موجود بچت فنڈ کو شراکت یا بیع کے کسی بھی تمویل میں رکھ سکتے ہیں ۔ان سے حاصل  ہونے والی بچت کو حاجیوں کی بہبود اور انکی مزید سہولیات کیلئے استعمال کرسکتے ہیں ۔اس فنڈ کا بڑا حصّہ قرض حسن کے تحت بھی دیا جاسکتا ہے۔(Ungku Aziz, 1959)۔

            اسلامی تمویلی ادارہ بنیادی طور پر دو قسم کی تمویل پر زور دے گا ایک قرض حسن اور دوسرا شراکت ۔اسلامی تمویلی کونسل اس بات کا جائزہ لے گی کہ کس کاروبار کو کس مد سے فنڈ فراہم کیا جائے ۔ہم کو ایک سکیولر ریاست کے سرمایہ دارانہ نظام سے واسطہ ہے ،ان حا لات کے پیش نظر کچھ امور اس ادارہ کو مجبوری کے تحت کرنے ہوں گے جس میں مرابحہ اور دیگر بیع کے اعمال ہیں جوکہ زیادہ تر کرائے اور خریدنے بیچنے کے کام آتے ہیں ۔ان مدّوں میں فنڈ کی فراہمی کیلئے ہم نے صرف ہونے والی اشیاء کی خریداری کیلئے مختص کرنے کی تجویز رکھی ہے اسکے علاوہ فنڈ جوکہ مسلمان چندے ،خیرات زکوٰةکی مد میں دیں ان فنڈوں کو بھی اسی درج بالا طریقہ کے تحت استعمال کئے جانے کی سفارش ہے ۔ جو بات اس اسلامی فنڈ کے استعمال میں اہم ہے وہ یہ کہ اسکے پیش نظر صرف منافع کا حصول نہ ہو بلکہ اسلامی کاروبار ،شعار کا فروغ ،رزق حلال کی فراہمی جیسے امور اسکے پیش نظر ہونے چاہیئے ۔یہاں منافع محض نہیں ہے بلکہ منافع کے اوپر حد بندی ہے ۔اب ہم اس سے آگے دیکھتے ہیںکہ اس طرح سے فرض اور شراکت کی فراہمی کے نتیجے میں زر کی ترسیل میں کیا فرق پڑے گا ۔اس پورے نظام تمویل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فیصلہ منافع محض کو سامنے رکھ کر نہیں کیے جائیں گے بلکہ ان کی بنیاد اطاعت پر ہو گی۔ یہ نظام ہر مسلمان کے لیے نہیں ہوگا۔صرف اس اسلامی کارکنان کے لیے ہو گا جو کہ اس نظام اطاعت سے وابستہ ہوں، چاہے وہ فنڈ جمع کرانے والے ہوں یا فنڈ استعمال کرنے والے ہوں۔

دیگر تمویلی اداروں سے تعلقات:

            جیسا کہ ابتدائی طور پر ہم نے تحریر کیا تھا کہ ان اداروں کی اس ابتدائی دور میں ایک جدا گا نہ حیثیت ہوگی اور ان کی کسی دوسرے سودی تمویلی یا اسلامی بینکوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ یہ ادارے ابتداء میں اپنا ایک مرکزی تمویلی ادارہ قائم کریں گے جس کی تفصیل اوپر درج ہے ۔تمام فنڈز اس مرکزی ادارے کے پاس جمع ہوں گے وہ ان وسائل کے استعمال کا طریقہ کا ر وضع کرے گا۔یہ وہ ہی طریقہ کار ہے جو کہ پاکستان میںبینکوں کے قومیانے کے بعد کیا گیا تھا۔ اور بینکینگ کونسل بینکوں کے تمام امور کی ذمہ دار ہوتی تھی۔ملک بھر میں قائم تمام تمویلی ادارے دراصل برانچیں ہوں گی جو کہ کھاتوں اور دیگر فنڈ کی وصویلی کاکام انجام دیں گی ۔روزمرہ کی لین دین بھی ان ہی برانچز کی ذمہ داری ہوگی۔ ان برانچز سے زورمرہ کی دین کے علاوہ تمام وسائل مرکزی تمویلی ادارے کے پاس منتقل ہو جائیں گے جہاں ۔جاری کھاتے میں رکھی ہوئی رقوم چوں کی امانت ہوں گی اس لیے یہ تمام کی تمام رقوم برانچز میں رہیں گی۔تاکہ ان کی ادائیگی  بروقت ہو سکے۔ اسکے علاوہ قرض حسن جو کہ قرض ہوگا اسکا استعمال تمویلی اداے کرسکتے ہیں اس لیے اس کا کچھ حصہ بطور محفوظات تمویلی اداروں میں رہے گا اور بقایا حصہ بطور قرض دے دیا جائے گا ۔ اس کا کتنا فیصد حصہ محفوظات کے تحت رہے گا اس کا فیصلہ کمیٹی کرے گی ۔ان دو کھاتوں کے علاوہ دیگر کھاتے چوں کہ مدتی کھاتے ہیں اس لیے اس میں رکھی ہوئی رقوم اپنے مقررہ وقت پر ہی نکلوائی جا سکتی ہیں ۔ اس مقررہ وقت سے پہلے نکلوانے کی صورت میں کھاتے دار کو درخواست دینی ہوگی اس کے بعد اس کااس کو یہ رقم اداکی جائے گی۔اس طرح ان دیگر کھاتوں پر کوئی محفوظات نہیں رکھے جائیں گے۔اگر کسی ناگہانی صور تحال میں اگر برنچز میں قرض حسن کی ادائیگی میں کمی واقع ہوجائے تو اسکو مرکزی تمویلی ادارہ پورا کرے گا ۔

جیسا کی اسلامی بینکاری نظام میں دیکھا کہ انکے یہاں انشورنس کی گنجائش تکافل کی صورت میں ممکن ہے ہمارے نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اشیاء کی ناگہانی ضائع ہونے کی صورت میں اگر شراکت ہے تو لگائے گئے وسائل کے حساب سے نقصان ہوگا ۔ اور اگر مضاربت ہے تو پھر رب المال پر اسکا حرجانہ آئے گا ۔بیع کے معاہدوں میں اسکا تمام تر حرجانہ شے کو استعمال کرنے والے پر آئے گا یا جیسا کہ شرع کا اصول ہوگا۔جیسا کہ اوپر ہم نے مشورہ دیا ہے کہ ایسے نادار افراد کے لیے جن کے نقصان کازالہ  اس شخص کے لیے ناممکن ہو تو تمویلی ادارہ بیت المال سے اسکے نقصان کو پورا کرسکتاہے۔

جہاں تک غیر کھاتے دار تمویلی اداروں کا تعلق ہے اس ماڈل میں غیر کھاتے دار مخصوص شعبوں میں کام کرنے والے بینکوں کے فرائض اسی تمویلی ادارے کے ذمے ہوں گے۔یہ ہی وسائل کو اس طرف منتقل کرے گا جہاں پر اسکی ضرورت ہوگی چاہے وہاں چاہے نفع کم ہی کیوں نہ ہو۔ فرض کریں کہ دہی علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنا ضروری ہے ،کہ اکثر دینی جماعتوں کارکنان ذراعت سے وابستہ ہیں ،اسلیے فوری طور پر وسائل کو اس طرف منتقل کردیا جائے گا۔اگر کونسل اس نتیجے پر پہنچے کہ وسائل اس طرف منتقل کیے جائیں جس سے خود روزگار کے مواقع زیادہ ہوں تو وسائل خود روزگار کی فراہمی کی طرف منتقل ہوںگے۔

ہماری تجویز ہے اس پروجیکٹ کو پہلے اس علاقے میں کیا جائے گا جہاں پر ان جماعتوں کا اثر رسوخ ہو ۔ اس کو پہلے محدود پیمانے پر کیا جائے بعد میں اس میں توسیع دی جائے۔یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ حکومتی اعانت سے شروع نہیں ہوگا اسلیے اس کو احتیاط اور سبنھل کر کیاجائے ۔

فرض کریں یہ پروجیکٹ جنوبی پنجاب کے ایک علاقے دنیاپور میں کیاجائے گا۔اسکا مرکز جنوبی پنجاب کے مرکزشہر فرض کریں ملتان میں واقع ہوگا۔ تاکہ شہر کے دیگر علاقوں سے رابطہ ممکن ہو۔ اس تمویلی ادارے کی شاخیں دینا پور میں ہوں گی جہاں پر یہ پرجیکٹ شروع ہورہاہے۔

سب سے پہلے اس علاقے کا مکمل سروے ہوگاجہاںسے ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ اس علاقے میں لوگ کتنی بچتیں کروائیں گے ، کاروبار کی کیا نوعیت ہے، کتنی صنعییں ہیں اور کتنا ذرعی شعبہ ہے۔کتنے فنڈز وصول ہونے کی توقع ہے ۔ یہ فنڈ کن شعبوں میں لگ سکتے ہیں۔یہ وصولیاں اس علاقے سے باہر چاہے ملکی ہوں یا غیر ملکی آسکتی ہیں۔ ان کے استعمال میں یہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھنی ہوگی کہ اسلامی کاروبار پر ترجیہ اس علاقے کی ہوگی چاہے اس میں منافع کم ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے بعد ایسے اسلامی پرجیکٹس جن پر علمائے کرام کا اعتبار ہوگا انکو بھی اس پروجیکٹ سے مستفید کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں قائم مدارس و مساجد  میں اسکی شاخیں ہوں گی جہاں سے اس میں رقم جمع ہو گی اور نکالی  جائے گی۔دیگر علاقوں میںیہ صرف کارکنان اسلامی تنظیمات کے لیے ہوگا کہ وہ اسلامی تمویلی اداروں سے مستفید ہو سکیں۔تمام افرادکے لیے یہ صرف دینا پور میں ہوگا مگر دیگر علاقوں میں کارکنان اسلامی تنظیم اس میں رقم رکھوا سکتے ہیں اور نکلواسکتے ہیں۔

رقم کیسے نکلوائیں گے اور کیسے رکھوائیں ، کون سے اسلامی تمویلی آلات استعمال ہوں گی اسکی تفصیل وہ ہی ہوگی جو کہ ہم نے اپنے پہلے ماڈل میں دیکھا تھا۔فرق یہ ہوگا کہ ہم ایک غیراسلامی ریاست کے اندر اسلامی تمویلی ادارہ کا قیام ممکن بنا رہے ہیں جس میں اس سرمایہ دارنہ ریاست کاعمل دخل کم سے کم ہوگا اور تمام قابو اسلامی تنظیمات کو ہوگا ۔جتنا قابو اسلامی تنظیمات کا مالی معملات میں ہوگا اتنا ہی انکا قابو علاقوں اور افراد پر ہوگا اتنا ہی یہ نظام چلے گا اور اسلامی ریاست و معاشرت کا قیام ممکن ہوگا ۔ اور اسلامی گروہ و شخصیات پہلے سود ی معاشرت سے بچیں گے اسکے بعد تمام مسلمان اس لعنت سے دور ہوسکیں گے۔

دوسرا  ماڈل :   اسلامی ریاست میں کے تحت قائم تمویلی ادارے

اس دوسرے ماڈل اور پہلے ماڈل میں صرف  یہ بنیادی فرق ہیں

١۔ بنیادی فنڈ اس ماڈل میں ریاست کی ذمہ داری ہوگی ۔ ریاست اپنے وسائل سے یہ ادارے قائم کرے گی۔ ملک بھر میں قائم تمام مالیاتی اداروں کو مکمل بند کردیا جائے گا اور انکو حکومتی تحویل میں لے لیا جائے گا ۔ کسی نجی ادارے کو مالیات میں کا م کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جیسا کہ کم و بیش 1974ء میں بھٹو کے دور میں کیا گیا تھا۔ان تمام مالیاتی اداروں کو حکومتی تحویل میں لینے کے بعد ان کا نسب و نسق امیر المؤمنیں کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے سپرد کردیا جائے گا۔اس کمیٹی کا نسب ونسق ویسا ہی ہوگا جیسا کہ  پہلے ماڈل میں دیا گیا ہے۔

٢۔ اداروں کے لیے مدارس و مساجد کے بجائے پہلے سے قائم مالیاتی اداروں کے ڈھانچے کو استعمال کیا جائے گا۔اسلامی مالیاتی ادارے پوری امارت میں قابل عمل ہوں گے۔جیسا کہ پاکستان میں 1973 میں   بینکینگ کونسل (Pakistan Banking Council) کے تحت تمام بینکوں کو اس کی تحویل میں دے دیا گیاتھا۔یہاں فرق یہ ہوگا کہ تما م ادارہ ایک ہی ہوں گے ان تمام اداروںکو مرکزی تمویلی اداروں کے تحت دے دیا جائے گا۔

٣۔ مرکزی تمویلی اداروں کی سربراہی تو علمائے کرام کے پاس ہوگی ۔ ان میں موجود عملے کو برقرار رکھا جائے گا ۔ صرف ان کی اس سلسلے میں تربیت کی جائے گی ۔ جو کس مرکزی کمیٹی کرے گی۔ اس تربیت اور تبدیلی کے جو وقت درکار ہوگا اس کو دیا جائے گا۔اس وقت تک تمام اکاؤنٹس کو منجمد کردیاجائے گا نہایت ضروری پیسے نکلوائے جاسکیں گے۔

اگر اسلامی امارت کا قیام ،بتدریج ایک انقلابی تبدیلی کے تحت جس میں پہلے سے اسلامی مالیاتی ادارے کام کررہے ہوں ، عمل میں آیا ہو تو ۔ مکمل تبدیلی کا عمل سہل ہوگا ورنہ اس کو قائم کرنا ایک دشوار اور صبر آزماں کام ہوگا۔

٤۔ امارت اسلامی کے قیام کے بعد اوقاف اور دار المال کی ذمہ داری تمویلی ادارے کی نہیں ہوگی بلکہ یہ ذمہ داری الگ سے ادا کی جائے گی۔

٥۔ اس کے علاوہ وسائل کی فراہمی اور وسائل کا استعمال ویسا ہی ہوگا جیسا کہ پہلے ماڈل میں بتایا گیا ہے۔

یہ تو تفصیل تھی تمویلی نظام کی ۔ اگے ہم مکمل خاکہ پیش کریں گے اسلامی مالیاتی نظام کا کہ کس طرح اسلامی مرکزی مالیاتی ادارہ کام کرے اور وہ کس طرح ریاست اسلامی کی موجودگی میں اور اسکے بغیر اسلامی کرنسی کوجاری کرے گا۔

تکملہ(Conclussion):      

اسلامی تمویلی ادارے اپنے ابتدائی فنڈ کے لیے قرض حسن اور مخیر حضرات ، جماعتوں، کاروباری فریق کی مرہون منت ہوگی۔

جیسا کہ ہم نے اوپر تجویز دی ہے کہ یہ ادارہ اپنی ذمہ داریوں (Liabilities ) کیلئے عوام الناس کی جمع شدہ رقم کو اپنے پاس محفوظ رکھ کر بینکاری کے طرز پر کھاتے کھولے گا ۔فرق صرف اتناہے کہ یہ کھاتے اسلامی تمویلی آلات کو استعمال کریں گے ہمارے تجویز کردہ ماڈل میں وہ درج ذیل کھاتے کھولے گا ۔

جاری کھاتے : جاری کھاتے کے طرز پر ہوگا جس میں رکھی ہوئی رقم عندالطلب نکالی جاسکتی ہیں۔ اس میں رقم  امانت ہوں گی۔ اور تمام کی تمام محفوظات میں ہوں گی۔

   ١۔قرض حسن کھاتہ ۔   اس میں رکھی ہوئی رقم قرض حسن تصور کی جائیں گی ۔

٢۔ شراکتی کھاتہ :  یہ نفع و نقصان کھاتہ ہوگا جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں درج ہے اس کھاتے میں دوقسم کی شراکت کی جائے گی ایک مضاربت اور دوسرا مشارکت ۔ہم تجویز کرتے ہیں کہ ان

دونوں قسم کی شراکت کو الگ الگ کھاتوں میں رکھا جائے ۔اس طرح شراکتی کھاتوں میں دو کھاتے ہوںگے ۔

(ا) مضاربتی کھاتے             (ب) مشارکتی کھاتے                 

 یہ کھاتے مدتی کھاتے ہوں گے ۔

٣۔ دیگر فنڈ:  ١۔ حج فنڈ:ب۔کمیٹی فنڈج۔موسمی فنڈ:  ان فنڈز سے جمع رقوم کو شراکت یا بیع کھاتوں میں رکھ کر ان فنڈز میں خود کفالت بھی حاصل کرنا اس ادارے کا ایک اہم فریضہ ہوگا۔

یہ تو وسائل کے حصول کا طریقہ۔وسائل کے استعمال میں زیادہ تر انحصار شراکت پر ہوگا ، قرض حسن و دیگر زرائع کو ہم مخصوص حالات اور محدود پیمانوں پر استعمال کریں گے۔وسائل کے استعمال میں اس بات کا خیال رکھا جائے گاکہ اس میں ذرائع تمویل کی آپس میں خلط ملط نہ ہوالگ الگ کھاتوں سے الگ الگ مد میں وسائل مہیا کیے جائیں ۔وسائل کے استعمال میں تمام کھاتے دار اس بات پر متفق ہوںگے کہ اس کا استعمال تمویلی ادارے کی ثواب دید پر ہے کہ ان کو کہاںاستعمال کرے۔

کسی بھی پروجیٹ میں وسائل کو  لگانے کے لیے جانچ کا طریقہ وضع کیا گیا ہے جس میں سود کی جگہ دیگر اسلامی شعار کے حامل عوامل کو رکھا گیا ہے۔ اس طرح ایک اسلامی جانچ کا طریقہ بھی معارف کیا گیا ہے۔مگر جانچ کا یہ طریقہ علمائے کرام کے ثواب دیدی اختیارات کا مکمل متبادل نہیں ہے۔بلکہ ان کے لیے عام حالات میں رہنمائی کا آلہ ہے۔

اسلامی ریاست کی غیر موجودگی میں یہ ادارہ اوقاف اور بیت المال کے فرائض بھی انجام دے گا۔مگر اسلامی ریاست کے قیام کے بعد  یہ ذمہ داری ریا ست خود اداکرے گی۔

اس باب میں ہم جو ماڈل پیش کریں گے اس میں ہم دیکھیں گے کہ بغیر اسلامی ریاست کے کس طرح  مرکزی تمویلی ادرے کے فرائض و خدمات انجام دے گااور کس طرح بغیر سودی زرکو تشکیل دے گا ۔

ہم سب سے پہلے چند ماڈل کا مطالعہ کرتے ہیں جو اس سودی کرنسی کے بالمقابل پیش کیے گیے۔

ابراہیم لنکن اور سی ایچ ڈوگلس(C.H. Dauglas) کے ماڈل

ابراہیم لنکن اور سی ایچ ڈوگلس(C.H. Dauglas) کے ماڈل میں سودی قرضوں کی بنیاد پر جاری کرنسی پر تنقید کی گئی ہے اور اس کے متبادل کرنسی کے اجراء کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے ۔ لنکن چوں کہ کوئی معیشت دان نہ تھا اسلیے اس کا تجویز کردہ ماڈل کوئی جامع ماڈل نہیں ہے اسکا ایک اعتراض سودی قرضوںپر ہے کہ اسکی بنیا د پر زر کی تشکیل معاشی عدم استحکام کا سبب بنے گی۔مگر مجھے کوئی مربوط اعتراض لنکن کا نظر نہیں آیا، اس نے جو مبہم سا ماڈل دیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ وہ کہتا ہے کہ

١۔” زر کی تشکیل پر قومی حکومت کو مکمل اجارہ داری ہونی چاہئے” لنکن ۔  میرے خیال ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بینکوں کو یہ اختیار نہیں ہو کہ وہ زر کی تشکیل میں اپنا کوئی کردار ادا کرسکیں۔حکومت کو یہ کردار اسلیے ادا کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کو ادائیگی کے لیے ایک قابل اعتبار آلہ مبادلہ مل سکے۔ حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو خراب زر یعنی سودی زر سے محفوظ رکھ سکے۔

٢۔ چوں کہ سونے اور چاندی کے ذخا ئر اس قابل نہیں ہیں کہ وہ زر کی تشکیل کرسکیں اور لوگوں کو ضرورت کے لیے زر کی ترسیل کو ممکن بنا سکیں ۔اسلیے ایسے زر کی ضرورت ہے جو کہ قابل اعتبار بھی ہو اور زر کی ضرورت کو پورا بھی کرے

٣۔حکومت کو اختیار ہے کہ وہ کرنسی کا اجراء اور اسکی ترسیل کرے ،اور جب بھی اسکو ضرورت ہو ، ٹیکس اور دیگر مدوں سے اپنے اخراجات کو پوراکرے اسکو قطعی ضرورت نہیں ہے کہ وہ یہ کام سودی قرضہ لے کر کرے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حکومت اپنے اخراجات اور لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریا ت کو پوری کرنے کے لیے کرنسی کا اجراء کرے گیRowbotham 1997))۔

لنکن کا خیال ہے کہ ان اصولوں کو اگر اپنایا جائے گا تو اسکے نتیجے میں ایک یکساں زر مبادلہ حاصل کرنے میں کامیابی ہوگی۔اس طرح سود، ڈسکاؤنٹنگ جیسے اخرجات سے ٹیکس دھندہ بچ سکتاہے اور اضافی ٹیکس کو برداشت کرسکتاہے۔زر کا کردار حاکم کا نہیں رہے گا بلکہ وہ خادم بن جائے گا(Money will cease to be the master and become the servant of humanity)

سی ایچ ڈوگلس نے سودی کرنسی پر اصولی بحث کی ہے کوئی جامع ماڈل پیش نہیں کیا ہے۔ ڈوگلس کے اصولی موقف اور اسکا ماڈل ذیل میں پیش ہے۔

ڈوگلس سرمایہ دارنہ مالیاتی نظام پر تنقید کرتاہے کہ سودی قرض کی وجہ سے قیمتوں میں تبدیلی کی شرح  آمدن یا قوت خرید میں تبدیلی کی شرح سے زیادہ  ہوتی ہے، جس کو A+B تھیورم کہا جاتاہے۔اس سے مراد ہے کہ قیمتیں جس تیزی سے بڑھتی ہیں اس تیزی سے آمدن کی تقسیم نہیں ہو پاتی ۔ایسا کیوںکر ہوتا ہے کہ جب بھی نئی کمپنی کوئی شے مارکیٹ میں لاتی ہے تو اس شے کی پیداور کرنے کے لیے اس کو قرضہ لینا پڑتاہے ۔ اس قرضہ کی ادائیگی اس شے کی قیمت میں پہلے سے شامل ہوجاتی ہے۔ابھی لوگوں کو اسکی آمدن بھی حاصل نہیں ہوتی قیمتیں اس سے تیزی سے بڑھ جاتی ہیں ۔ اب اس شے کو خریدنے کے لیے نئی انویسٹمینٹ درکار ہوتی ہے ۔ جب کوئی دوسری شے مارکیٹ میں آتی ہے تو اس پر قرضہ لیاجاتا ہے ۔ جو کہ اس شے کے آنے سے پہلے مارکیٹ میں آجاتا ہے اور اس شے کی قیمت کا حصہ بن جاتاہے ۔ ہر آنے والا سرمایہ پہلی شے کی قوت خرید کو بڑھادیتاہے ۔اس طرح مسلسل اگر سودی قرضے آتے رہیں تو معیشت بڑھوتری کی طرف جاتی رہتی ہے۔ورنہ تو معیشت میں بحران آجاتا ہے۔ اس سے ڈوگلس کلاسیکل معیشت دانوں کے اس بنیادی اصول کو رد کرتا ہے کہ معیشت میں وسائل کی کمیابی ہوتی ہے اسکا خیال ہے کہ کمیابی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاںتو وسائل فاضل (Surplus) ہیں۔اصل مسئلہ وسائل کی فراہمی کا ہے۔جو پیداوار ہورہی ہے واقعی اس کی کھپت ہے ، کون سی چیز کی طلب ہے ، کیا پیداوار کرنا ہے یہ اصل مسئلہ ہے۔اس فساد کی جڑ مالیاتی نظام ہے۔ وہ اسکا حامی تھا کہ نظام انسان کے لیے بنتا ہے ناکہ انسان نظام کے لیے۔ سرمایہ دارنہ مالیاتی نظام خدمت گارکی جگہ خود مطلق العنان بن جاتا ہے۔(System were mede for man, not man for system, and that the financial system was proving no servent, but dictator)

ڈوگلس نے جو اسکیم اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دی ہے اسکے دو اصول ہیں

١۔ حکومت زر کی تخلیق کرے۔حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بلا سودی زر کو تخلیق اور ترسیل کرے۔

٢۔ قیمتوں اور قوت خرید میں برابری۔لوگوں میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ ،بغیر اضافی انویسٹمینٹ کے، موجود اشیاء کو خریدنے کی سکت رکھتے ہوں۔

زر کو تخلیق کن بنیادوںپر کیا جائے گا ؟اس کی دو بنیادیں ہوں گی ایک زر کو اتنا تخلیق کیا جائے کہ وہ قوت خرید یا آمدن کو قیمتوں کے برابر کردے۔ اسکے لئے  صنعت کو مراعت (Sbsidary)  دی جائے گی اور اس مراعت کے مقدار کا زر تخلیق کیا جائے گا۔جس سے قیمتوں میں کمی واقع ہوگی، صنعتوںکی لاگت میں کمی آئے گی اور و ہ اپنی لاگت کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس ماڈل کو عادلانہ قیمتوں (Just Price) کا ماڈل بھی کہتے ہیں۔ یہ ماڈل زیادہ مقبولیت حاصل کر نہ سکا اس کے برخلاف اسکا دوسر ا ماڈل جس کو بنیادی آمدن کے جاری کرنے (Issue of basic income)یا قومی ڈیوڈینڈ(Natinal Dividend) بھی کہا جاتا ہے، کافی مقبول ہوا۔ اس کے تحت حکومت  بنیادی آمدن کا تعین کرتی ہے ۔اس مقدار کا زر تخلیق کرکے اسکو لوگوں کی بنیادی ضرورت کے مطابق تقسیم کردے۔ یہ رقم براہ راست لوگوںمیں تقسیم ہوگی ، بغیر صنعت میں جائے ہوئے ، اس سے صنعتی اشیاء کی لاگت میں اضافہ نہیں ہوگا،بغیر گرانی میں اضافے کے ، لوگوں کی قوت خرید  میں اضافہ ہو جائے گا، اس طرح یہ طریقہ کار گرانی اور قرضوںکو قابو میں رکھے گا(Rowbotham,1997)۔

یہ دونوں مغربی فکرین سودی زر کی خباثت سے تو واقف تھے مگر چونکہ یہ افراد سرمایہ داری کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کی اصلاح چاہتے ہیں۔ اسلئے انکی تجویز کردہ لائحہ عمل پر ایک سرمایہ دارانہ معیشت میں عمل درآمد نا ممکن رہا خود ابراہیم لنکن جنہوں نے 1865میںیہ نظریہ پیش کیا وہ اسکے چند ہفتوں بعد ہی قتل کردیے گئے اور اس نظریہ پر عمل در آمد نا ممکن ہوگیا۔ جیسا کہ ہم نے  جدید بینکاری کے باب میں دیکھا کہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک آج تک سودی قرضوں کے ذریعہ ہی اپنا زر تشکیل دے رہے ہیں۔(Rowbotham,1997)         

یہ تو بلا سودی زرکی تشکیل کے سرمایہ دارنہ ریاست کے کچھ ماڈل تھے جو کہ کبھی بھی قابل عمل نہ ہو پائے۔ اب ہم موجودہ دور کے دو ماڈل ایک کمیونٹی کرنسی اور دوسرا دینار اور درہم کے ماڈل پیش کرتے ہیں۔

کمیونٹی کرنسی کے ماڈل:

رو بوتھم (Rawbothem)(١٩٩٧) ، برنارڈ لیٹئر(Bernard  (2001& 2010)Lietear)اور دیگر معاشیات دانوںنے سود سے پاک کرنسی کی ضرورت پر زور دیا ۔اس بات پر زور دیاہے کہ زر کوئی شے نہیں ہے جس کی خرید فروخت ہو۔ زر کی دو ہی خصوصیا ت ہیں ایک وہ ذریعہ تبادلہ (Medium of Exchange) ہے دوسر ا وہ اشیاء کی قدر کو ناپنے کا آلہ (Standard of measure)    ہے۔

ان کا خیال ہے کہ اس کے علاوہ قدر کو جمع (Store of Value)   رکھنے کا پیمانہ کبھی بھی زر نہیں رہا ۔ تاریخی طور پر دولت ، جائداد کے طور پر زمینوں اور اسکے اضافہ میں جمع ہوتی تھی۔

زر کی خصوصیت کہ وہ تخمینہ (Speculation) کے لیے استعمال ہویہ جدید دور کی زر کی خصوصیت ہے جبکہ اسکی رائے میں آج کے دور میں ٩٥فیصد سے زائد زر تخمینہ (Speculation)  کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ٥ فیصد سے کم اشیاء و خدمات کی خرید و فروخت میں استعمال ہوتا ہے۔١٩٧٢ء کے بعد سے، جب سے صدر نکسن نے غیر جامد کرنسی (Floating curreny) نظام کو متعارف کروایا اس وقت سے اس خصوصیت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔

سرمایہ داری سے پہلے تو زر کا نظام سود سے منسلک نہ تھا مگر آج کے سرمایہ دارنہ دور میں بھی سودی قرضوںکے بغیر یہ نظا م پایا جاتاہے۔

١٩٣٠ء میں ہربیکر) (Herr Hebeckerجو کہ ایک خسارے  والی کوئلے کی کان کا مالک تھا جو کہ جرمنی کے ایک شہر شیوینکیریچین، بیویریا(Schwanenkirchen, Bevaria)  میں واقع ہے۔اس کمپنی نے کوئلہ کی پشت پناہی پر ایک رسید جاری کی جسکو تجارتی کرنسی، وارا (Wara)(merchandise currency)کہتے ہیں۔یہ کمپنی جو کہ خسارے میں چل رہی تھی۔ اس خسارے سے نکالنے کے لیے اس کمپنی نے اپنی کرنسی وارا جاری کی۔ یہ کرنسی اس کمپنی کی پیداروار سے منسلک تھی ۔ جرمن مارک جوکہ اپنی قدر کھوتا جارہا تھااسکے مقابلہ میں وارا اپنی قدر کو مستحکم رکھے ہوئے تھا۔ جب اس میں ادائیگی کی جانے لگی تو قیمتوں میں استحکام اور پیداوار میں اضافہ کا سبب بنا ۔اس کرنسی میں کمپنی کے اندر ساری ادآئیگی ہوتی تھی۔اس طرح سے یہ کمپنی خسارے سے نکل گئی ۔ اس کامیاب تجربہ کے بعد ٢٠٠٠ کورپوریشن نے اس طریقہ کو اپنایا۔نومبر ١٩٣١ء میں جرمنی کا مرکزی بینک حرکت میں آیا اور اس تجربہ پر پابندی لگادی(Rowbothem 1997)۔

اسی طرح ١٩٣٢ء اسٹریا کے ٹاؤن ورگل(Worgl) کے میئر نے ٣٥ فیصد بیروزگاری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ١٤٠٠٠  اسٹرین شلنگ (Austrian Shilling)کی

اسٹیمپ رسید (stamp scrip)جاری کیں۔ ایک سال بعد ورگل اسڑیا کا پہلا شہر بن گیا جس نے مکمل روزگار حاصل کرلیا۔٢٠٠  اسٹرین کمیونٹیوں نے اس کو اپنایا اور کامیابی حاصل کی مگر اس پر بھی حکومت نے پابندی لگادی ۔

ان دونوں مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب کرنسی بغیر سودی قرضے کے تشکیل دی جائے تو وہ ایک مستحکم کرنسی ہوتی ہے اور گرانی(Inflation) چوںکہ کرنسی کا  اشیاء کے مقابلہ میں فرسودگی(Depression) ہے۔اسلئے اس کرنسی نے فوری طور پر گرانی کو ختم کردیا۔اسکے علاوہ اس علاقے میں پیداور میںاضافے کے سبب بیروزگاری میں کمی کا موجب بنی۔

ابھی تک ہم نے تجارتی کرنسی “Wara” (merchandise currency) یا  بلا معاوضہ زر  “Frei Geld” (free money) کا مطالعہ کیا جس کی بنیا د  ارجنٹینین بزنس میں اور معیشت دان سلیوو گیسل  (١٩٢٠) (Silvio Gesell) نے رکھی تھی اس کا  خیال تھا کہ کرنسی کو ذریعہ تبادلہ کے لیے ہی استعمال کرنا چاہے اسکا خیال ہے کہ کرنسی ایک اشیاء عامہ (Public good) ہے جیسا کہ عوامی نقل و حمل(Public Transportation) ہوتی ہے۔ اس لیے اس پر سود وصول کرنے کے بجائے اس پر معمولی سی فیس لگائی جا نی چاہیے ہے۔

حکومتی اعانت کے بغیر کرنسی کی تشکیل کا تصور موجودہ دور میں کافی مقبولیت حاصل کررہا ہے۔برنارڈ لٹیئر(Bernard A. Lietaer)(2001& 2010)نے کمیونیٹی کرنسی کا ایک نظریہ متعارف کروایا۔جس میں سود سے پاک کرنسی کا اجراء پر زور دیاگیا ہے۔

کمونیٹی کرنسی کے لئے ضروری ہے کہ اوّل اس پر ایک اسٹیمپ فیس لاگو کی جائے دوسر ا اسکو اشیاء کے کھچے (basket of currency)  سے منسلک کیا جائے ۔ اوّل الذکر اسٹیمپ فیس ایک طرح منفی سود ہے جو کہ گرانی کو ختم کرنے والا ہے۔ چوںکہ گرانی  ہوتی ہی زر کی قوت خرید میں کمی (Depreciation of money) کے نتیجے میں۔ 1سے 5فیصد فیس سے کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوگا جس طرح کسی بھی شے کو اگر محفوظ (store)  کریں تو اس کی حفاظت کی لاگت دینی ہوتی ہے ۔ اسی طرح کرنسی پر اسٹیم فیس سے اسکے رکھنے پر فیس اد اکرنی ہوگی جو کہ گرانی کے ساتھ اسکی ذخیرہ اندوزی (hording)سے بھی روکے گی۔اشیاء سے منسلک کرنسی کے لئے لٹیئر تجویز کرتا ہے مرکزی بینک بین القوامی مارکیٹ میں پائی جانی والی مختلف اشیاء کی پشت پناہی پر کرنسی نوٹوں کا اجراء کرسکتا ہے کہ فرض کریں ١٠٠ نئی کرنسی بر ابر ہوسکتی ہے 0.05 اونس سوناجمع  3اونس چاندی جمع15 پونڈ تانبا جمع1 بیرل تیل ، جمع 5پونڈ اون کے۔بین القوامی طور پر اسکا شرح تبادلہ بھی آسان ہوگا کہ ان اشیاء کی بین القوامی مارکیٹ میں پہلے سے تبادلہ موجود ہے۔غیر ملکی کرنسی سے اسکا تبادلے کے لیے ان طے شدہ اشیاء میں سے کسی بھی اشیاء یا شے کو تبادلہ کے لیے چن سکتے ہیں۔اشیاء کی قیمتیں چوں کہ متغیر ہوتی ہیں اسلیے کہ شرح تبادلہ بھی متغیر ہوگا اور اسکو مارکیٹ ہی متعین کرے گی وہ  مارکیٹ اشیاء کی ماکیٹ ہوگی ۔ مرکزی بینک صرف اشیاء کا چناؤ کرے گا کہ کونسی کرنسی سے شرح مبادلہ کو طے کیا جائے۔  اسٹیم اسکرپ(stamp scrip) کے نتیجے میں ہم ان اشیاء کی بین القوامی مارکیٹ تک پہچانے کی لاگت کو شامل کرسکتے ہیں۔ اس فیس کو کیسے عملی طور پر لاگو کریں گے یہ سب سے بڑ ا مسئلہ کا حل ان افراد نے جو تجویز کیا ہے وہ قابل عمل لگتا ہے۔ کہ اس کے پیچھے اسٹیم لگادی جائے، اسکو ڈیبٹ کارڈ (Debit card)  کے ذریعہ، اکاؤنٹنگ طریقہ کار کے ذریعہ، بینکوں میں رکھی ہوئی رقم کے ذریعہ، جن پر ایک ماہ یا مقررہ مدت گزر چکی ہو، لاگو کیا جاسکتا ہے۔ یہ منفی شرح سود  اصلی اشیاء میں انویسٹمینٹ کو ترویج دے گا اور کرنسی کا کرنسی میں بچت اور تبادلے میں کمی لائے گا۔اس طرح ایک طرف گرانی کو قابو میں رکھے گا تو دوسری طرف انویسٹمینٹ کے ذریعہ روزگار میں اضافہ کرے گا۔یہ تجویز بھی ہے کہ اس اسٹیمپ فیس کوعلاقے کے لحاض سے لاگو کیا جائے۔ اس نئی کرنسی کا پرانی کرنسی سے تبادلہ آھستہ آھستہ کیا جائے ناکہ یکمشت کیا جائے۔

ان کموینٹی کرنسی کو کس طرح لاگو کیا جائے گا اسکے لیے وہ تجویز کرتے ہیںکہ اخلاقی  (moral)طور پر آمادہ کرنا ہوگا ، اسکے فوائد اور سودی کرنسی کے نقصانات سے لوگوںکو آگاہ کرنا ہوگا۔ شروع میں جب کہ سودی کرنسی کے ساتھ اسکو کسی کمیونٹی میں لاگوکیا جائے گا تو اسکی قبولیت کو بڑھانے کے لیے بزنس مین کو بھی شامل کرنا ہوگا کہ اس کرنسی کو ادائیگی کے لیے قبول کریں ۔ ان کا خیال کہ کامیاب طریقہ اخلاقی بنیادوں پر تو مذہبی ہے اور ہر مذہب سود کو رد کرتا ہے اور تاریخ طور پر بھی سودی کرنسی کی تاریخ بہت قلیل اور غیر سودی کرنسی کی تاریخ بہت طویل ہے اس لئے اسکو تاریخی طور پر بھی ایک قابل عمل تجویز کے طور پر قبول کروایا جاسکتا ہے۔ یہ تو کمیونٹی کرنسی کے ماڈل تھے اب ہم سونے کے دیناراور درہم کے ماڈل کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔

سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کے سکے

سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کو اپنانے کا رجحان بھی آج کے دور میں عام ہورہاہے۔اس میں آج جو کام ہورہا ہے پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔

 سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کی تحریک کے بانی شیخ عبدالقادر الصوفی (Shaykh Adbuldadir al-Murabit), جنہوں نے ١٩٦٧ء میں اسلام قبول کیا اور مرابطون ورلڈ مومینٹ( Murabitun World Movement )  کی بنیاد رکھی جس کے تحت انہوں نے زکواة کے تناظر میں اسلامی سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کی شرعی حیثیت کو اجاگر کیا،اسکی عملی تعبیر کو اپنے شاگرد  ڈاکٹر  عمر ابراہیم ودیلو(Dr.  Umar Ibrahim Vadillo)  جو کہ ھسپانوی نو مسلم ہیں کے سپرد کردیا جو کہ ڈاریکٹر ہیں ای دینار لمیٹڈ کے ۔ ان کے علاوہ شیخ عمران این حسین (Sheikh  Imran N. Hosein)    جو کہ ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری صاحب کے شاگرد ہیںاورمین ھٹن نیو یارک  میںاقوام متحدہ کے مرکز میں خطیب کی حیثیت سے جمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں اس سلسلہ میں قابل قدر کام کیا،  ڈاکٹر احمد کمیل مدن میرا(Dr. Ahamed Kameel Mydin Meera)  جو کہ    Centre for Islamic Postgraduate Studies,  University Malaysia.   کے سابق ڈین رہ چکے ہیں  نے بھی اس سلسلہ میں کام کیا۔ اس کے علاوہ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد نے اس کام کی کافی پزیرائی کی ہے۔   Ahmed (2002 & 2005),Umar(2010), Cizakca  ( 2010), Silvio (1920), Abubakar (2000), Shaykh (1995)

ان اوپر بیان کیے گئے افرد کا دعوہ ہے کہ حضور اکرم ۖ کے دور سے لیکر عثمانیہ خلافت کے سقوط تک سونے کے دینار ہی اسلامی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔١٩٢٢ء کے بعد سے جب خلافت اسلامیہ کا  سقوط ہوا  اور انگریزی  استعمار ی دور کا آغاز ہو اس دور سے کاغذی فئیٹ کرنسی (Fiat currency) کا آغاز ہوا۔Abubakar (2000), Shaykh (1995)

حضرت عمر کے دور میں سونے کے دینار کا  جو اوزان طے ہوا وہ ہی  آج تک شرعی اوزان تصور کیا جاتاہے۔وہ اس طرح ہے

ایک دینار    ٢٥ئ٤ گرام (٢٢ کیرٹ سونا)

ایک درہم    ٠ئ٣ گرام  اصلی چاندی

٧ دینار   ١٠ درہم  Ahmed(2000)  

اسلامی قدیمی محققین جن میں ابن خلدون  ( مقدمہ ابن خلدون)  امام غزالی قابل ذکر ہیں سونے اور چاندی کو ہی ہر شے کے قدر کا پیمانہ تصور کرتے ہیں، اسی لیے اسکے استعمال پر زور دیتے ہیںکہ اللہ تعالی نے ان دونوں دھاتوں کو اسی استعمال کے لیے تخلیق کیا ہے۔

شرعی جواز کے بعد موجودہ سودی کرنسی سسٹم کو غیر اسلامی تصور کرتے اور اسلامی بینکاری اور جدید بینکاری نظام پر یہ افراد تنقید کرتے ہیں کہ یہ غیر منصفانہ ہے۔ یہ گرانی کے ذریعہ مسلسل لوگوں پر ٹیکس عائد کرتا رہتاہے۔اس کے علاوہ یہ غیر مستحکم نظام بھی ہے۔  حکمی زری نظام(Fiat monetary system ) کے ساتھ کسری محفوظ بینکاری نظام  (fractional reserve banking system) کی وجہ سے سود ی زر معیشت میں گرانی اور عدم استحکام لے آتاہے۔ سرمایہ دانہ زری نظام کی تین بنیادی خرابیاں ہیں ١۔ حکمی زر(Fiat money) ٢۔ کسری درکار محفوظات(fractional reserve requirement) اور ٣۔ شرح سود ۔یہ تینوں خباثتیں سونے کے دینار کے نظام میں نہیں پائی جاتیں(Kameel)۔کاغذی نوٹ چاہے موجودہ یا قدیم شکل میں غیر اسلامی زر ہیں۔ شرعی زر صرف سونے کا دینار او ر چاندی کا درہم ہے ۔ کوئی بھی شے جو کہ تبادلہ کے لئے عام طور پر استعمال ہوتی ہو وہ بھی زر کے زمرے میں آسکتی ہے  ۔اسلامی بینک سودی بینک کی ایک قسم ہے، جو عیسائیت کی طرح سود سے نجات حاصل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے  (Umar  2010)۔

سرمایہ داری اور بینکاری نظام کی مخالف یہ تحریک نظام کے اندر رہتے ہوئے ، سرمایہ دارنہ ریاست کی سرپرستی میں ایک گلڈ کی طرز کا ادارہ قائم کرنا چاہتی ہے۔اس کے علاوہ عبدالقادر الصوفی کے خیال میں سودی کرنسی کے ذریعہ زکواة ادانہیںہوتی اسکے لئے اسلامی طور پر زکواة کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کا اجراء کیا جائے۔

اس تحریک نے ملیشیا کے معاشی اور مالیاتی عدم استحکام کو اپنا ماڈل بنا کر اسکو تمام عالم کے  معاشی عدم استحکام پر لاگو کردیا  (Ahmed 2005)۔مالیاتی بحران کا حل مالیاتی پالیسی کو سودی کرنسی سے نجات دلا کر اسکو اصلی سونے اور چاندی کے دینار اور درہم میں تبدیل کردیا جائے۔جو ماڈل یہ پیش کرتے ہیںجیسا کہ پہلے بیان ہو ا وہ اس نظام میں رہتے ہوئے کام کرے گا۔ ان کا خیال ہے کہ پہلے اسکو او آئی سی کے ممالک کے درمیان کیا جائے اور اسکی ذمہ داری ان اسلامی ممالک کے مرکزی بینک کی ہوگی  یا اسکے لیے بیت المال بنایا جائے جو کہ اس سونے کے دینار اور درہم کی سرپرستی کرے۔اس ماڈل کی جو تحقیق میںنے کی ہے اس میں انہوںنے ایک تو رہن(Ahmed 2005)  اور دوسرا گلڈز(Umar 2010),  کو بطور  ماڈل کے استعمال کیا ہے۔اسکے علاوہ غیر ملکی تجارت کو سود سے اور ڈالر کی سبقت سے دور رکھنے کے لیے اسکو سونے کو بطور پیمانہ بنانے کے ماڈل کو بھی پیش کیا ہے۔

ایک ماڈل تو یہ ہے کہ خالص سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کا اجراء کیا جائے۔ سونے اور چاندی کے اوزان وہ ہی ہوں گے جو حضرت عمر  کے دور میں طے ہوئے تھے ۔جس کی تفصیل اوپر دی گئی ہے۔اس سونے کے دینار اور چاندی کے درہم  کی کامیابی اس میں ہے کہ صرف اس میں انویسٹمینٹ  نہ کی جائے  بلکہ روزمرہ کی خرید و فروخت بھی اسی میںکی جائے۔ اس کا تبادلہ نوٹوں میںنہ کیا جائے ۔ قیمتو ں کا تعاین سونے کی بنیاد پر کیا جائے جس سے گرانی (inflation)کا خاتمہ ہوجائے گا۔ابتداء میں اسکو انویسمینٹ کے لیے استعمال کیا جائے افراد اپنی بچتوںکو سونے کے دینار میںرکھیں۔ اسکے بعد اسکو پورے معاشرے میں آلہ تبادلہ کے لیے اکیلی کرنسی کو طور پر قابل قبول بنایا جائے ۔ شادی کا مہر بھی اسی سونے میںطے کیا جائے۔اسی طرح رہن کو بھی سونے میں رکھا جائے۔ اس علم کو سرمایہ دارانہ عمل سے متصادم نہ ہونے دیا جائے بلکہ اسکی خوبیاں جو اوپر بیان ہوچکی ہیں جب ان کا اداراک ان ممالک کو ہوگا تو خو بخود یہ ممالک دینار اور درہم کے نظام کو قابل عمل بنا دیں گے۔

ای کامرس کے ذریعہ بھی اس دینار اور درہم کو بین القوامی طور پر قابل عمل بنانے کی تجویز ہے ۔ اس میں اور سودی ای کامرس میں فرق یہ ہے کہ اس کارڈ کے عیوض آپکو سونا ملے گا۔ اور سونے کی مقدار سے قیمت طے ہوگی۔یہ کارڈ ڈیبٹ کارڈ (Debit card) بھی ہوسکتا ہے اور کیش کارڈ بھی ہوسکتا۔ کیش کارڈ میں ضروری ہے کہ رقم سونے کے دینار اور چاندی کے درہم ہو۔

اس کرنسی کے اجراء کی ذمہ داری دراصل ایک ایسے ادارے کو ہے جو کہ سونے اور چاندی کو سکوں میںڈھال سکے جسکی ایک صورت ورلڈ اسلامک منٹ (World Islamic Mint) WIM  ہے(Ahmed 2005)۔یہ ادارہ سونا بین الاقوامی مارکیٹ سے خرید و فروخت کرسکتا ہے ، ورلڈ گولڈ کونسل سے۔اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سونے کے دینا میں سونے کو تبدیل کرے اسکی جو لاگت آئی گی ان کا خیال ہے کہ وہ اس کی بار بار خرید وفروخت سے پوری ہوجائے گی۔  WIM ایک ادارہ بنائے گا جسکو فرض کریں الرہن مارکیت کہتے ہیںوہ اس دینار و درہم کی خرید و فروخت کی ذامن ہوگی۔یہ مارکیٹ اس وقت کی مارکیٹ قیمت پر  دینار و درہم کو خرید بھی سکتی ہے۔بیت المال یا مرکزی بینک اس ملک میں سونے کے سکوں اور سونے کے بولین کی حفاظت کی ذمہ داری  لے سکتا ہے تاکہ لوگوںکا اعتبار حاصل ہوسکے۔ یہ تما م کام سرمایہ دانہ معیشت میں رہتے ہوئے کوئی بھی ادارہ یا ادارے نجی طور پرکرسکتے ہیں ۔ اب یہ کام منافع کی بنیاد پر ہوگا یا بغیر منافع کے کیا جائے گا اسکی تفصیل نہیں ملتی۔

ورلڈ اسلامک منٹ (World Islamic Mint) WIM  یہ وہ ادارہ ہے جس کا مرکزی دفتر تو متحدہ عرب امارا ت میں ہے مگر اسکا اصل کام ملیشیامیں ہے۔یہ ایک ٹکسالی ادارہ ہے جو کہ تمام دنیا کو خاص کر مسلمانوںکو دعوت دیتا ہے کہ اس کے ڈھالے ہوئے طلائی دینار  اور نقرئی درہم کو کرنسی کے طور پر استعمال کرے۔ جس ادارہ یا ملک کو ضرورت ہو وہ اسکی مارکیٹ  قیمت ادا کرکے اسکو حا صل کرسکتا ہے ۔ پھر اس ملک میں قائم ادا رہ اسکی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا ۔ 

طلائی دینار کو تجارتی لین دین کے لیے استعمال کرنے کی تجویز بھی ہے۔ اس میں تجویز کیا گیا ہے کہ ادائیگیوں کا تصفیہ ہر تین ماہ میں ایک بار برآمدات اور درآمدات کے وقت کے تبادلہ کے نرخ سے طلائی دینار سے کریں گے(Ahmed 2005)۔اب اس دینار اور درہم پر پایا جانے والا اعتراض جو کہ سیزاککامرات    (Cizakca Murat 2010) نے کیا ہے اسکا جائزہ لیتے ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ جب بھی موجودہ دور میں کاغذی کرنسی کے ساتھ سونے کے دینا ر اور درہم کو مارکیٹ میں لایا جائے گا تو اس میں سود اور گرانی دونوں پائی جائیں گی۔

سب سے پہلے وہ  تاریخی طور پر خلافت عثمانیہ کے ادوار کی مثالوںسے اور دیگر مغربی ممالک کی مثال سے ثابت کرتاہے کہ سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کے ادوار میں بھی قیمتیں مستحکم نہیںرہتی تھیں بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتاہے۔

ان دونوں دھاتوںسونے اور چاندی ، کی ترسیل کی کمی و زیادتی کے نتیجے میں بھی قیمتیں بڑھتیںہیں اور ان کو ذخیرہ کرنے سے اس میں تخمینہ بازی(Speculation)    کا عنصر غالب آجاتاہے۔جو کہ سٹہ بازی (سود) کا موجب بنتاہے۔ اسکے علاوہ غرر یعنی ایک پارٹی پر ظلم کے نتیجے میں اس کوتمام نقصانات کا بوجھ برداشت کرنا پڑے۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ

وہ فارمولا جس کے تناظر میں کرنسی کی قیمت کاتعاین کیا جاتا ہے وہ یہ ہے

کرنسی کی کشیدہ قیمت

 = x    کرنسی کو ڈھالنے کی لاگت

 G/TW   سونے کا کل کرنسی میں حصہ

  Pg  سونے کی بین القوامی مارکیٹ میںقیمت

اس مساوات میں دائیں طرف سونے کی اصلی (intrinsic) قدر ہے، جبکہ بائیں طرف اسکی کشیدی قیمت ہے۔تین عوامل اس سکے کی کشیدہ قیمت اور اصلی قیمت میں فرق کرتی ہے۔ ایک کرنسی کو ڈھالنے کی لاگت، دوسرا ،سونے یا چاندی کا سکہ میں حصہ اور سونے کی بین القوامی مارکیٹ میں قیمت۔

پہلا اگرG/TW میں تبدیلی واقع ہو۔ قدیم زمانے سے طلائی اور نقرئی سکوں کی ترسیل میں کمی و پیشی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ چاہے جنگی اخراجات کو پوراکرنا ہویا سونے اور چاندی کی ذخائر میں کمی بیشی ہو دونوں صورتوں  میں سونے اور چاندی میں دیگر سستی دھاتوں کی ملاوٹ کردی جاتی ہے جس سے G/TW میںکمی واقع ہو تی تھی ا ور موجودہ زخائر سے زیادہ کرنسی کی ترسیل کردی جاتی ہے اس کی وجہ سے پرانے سکوں ، جو کہ اصلی سونے کے ہوں گے ، اس کی ذخیرہ اندوزی کردی جاتی ہے  یا اسکو خام سونے میں ڈھال دیا جاتاہے۔ جس سے گرانی میں اضافہ ہوجاتا ہے اورکرنسی کی ذخیرہ اندوزی جیسے غیر اسلامی سودی فعل کا ارتکاب ہوجاتاہے۔

دوسرااس سکے کی لاگت میں تبدیلی کے تین عوامل ہیں ایک اسکو ڈھالنے کی لاگت دوسرا اسکی مارکیٹ میں قیمت او ر تیسرا جوکہ قدیم زمانے میں لاگو تھا وہ اس کی کرنسی پر حکومتی محصول (seigniorage) ۔ ان عوامل کے تبدیل ہونے سے سکوں کی لاگت میں تبدیل ہوگی اور وہ گرانی اور سود کی آمیزش کا سبب بنیں گے ۔ یہ تو اسکا اعتراض تھا قدیم دور میں کہ سکوں پر اس دور میںبھی سود اور گرانی ان سکوں کے ہوتے ہوئے ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں اگر اسکو کاغذی نوٹوں کی موجودگی میں لاگو کیا جائے تو پھر اس میںسود یعنی سٹہ بازی کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔وہ اس طرح کہ اس سکہ کی کشیدہ قیمت فرض کریں 1000RM   ہے ۔ سکہ کو ڈھالنے کی قیمت 50 RMہے ، اس سکہ میں سونا 90فیصد استعمال ہو، بین القوامی مارکیٹ میں اسکی قیمت 1000 RM فی اونس ہے اس طرح

RM 1,000= 50+0.9 (1,000)

RM 1,000>950

اس صورتحال میں جبکہ کشیدی قیمت  اسکی لاگت سے زیادہ ہے تو اسکی ترسیل میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔مگر اگر کچھ عرصے کے بعد اگر بین القوامی مارکیٹ میں سونے کے داموں میں اضافہ ہوجاتا ہے جو کہ فرض کریں 1200RM   فی اونس ہوجاتے ہیں تو پھر صورتحال یوںہوگی۔

RM 1,000<50+0.9(1,200) or,

RM 1,000<1,130

وہ کرنسی جو کہ 1000RMمیں خریدی تھی اب اسکو اگر سونے کے داموںمیںمارکیٹ میں بیچا جائے تو ا سکے1130RM مل رہے ہیں۔ اس صورتحال میںلوگ اسکو اصلی سونے میںڈھال کر بیچ دیں گے ۔ اسی طرح اسکی طلب میں اضافہ اور اسکی ترسیل میںکمی ہوگی ۔ جو کہ گرانی اور سٹہ بازی کا موجب بنے گی ۔ یہ سکہ ایک شے زیادہ  بن جائے گا اور آلہ تبادلہ کم رہ جائے گا۔(Cizakca Murat)

مورات کے اس تنقید سے ہم یہ تجزیہ کرسکتے ہیںکہ کرنسی کانظام مرہون منت ہے ایک ریاست کا اور ریاست کے بغیر کرنسی کو روبائے عمل نہیں لایا جاسکتا خاص کر اس طلائی اور بقرائی کرنسی کو ۔ جب تک ریاست طاقت ور نہیںہوگی اور وہ اس کرنسی کے علاوہ دیگر کسی آلہ مبادلہ کو چلنے نہیںدے گی اور اسکے ڈھالنے اور دو بارہ سونے میںتبدیل کرنے پر پابندی نہیںلگائے گی یہ نظام نہیںچل سکتا۔ قدیم زمانے میں جو بھی مورات نے مثالیں دیں ہیں ان میںیہ ہی کمزوری ریاست کی معلوم ہوتی ہے ناکہ اس کرنسی نظام کی۔ جب کہ موجودہ دور میںاسکا تجزیہ درست ہے اور  یہ ہی ہو رہا ہے۔ WIM کی جاری کردہ کرنسی پر لوگ سٹہ بازی کررہیں ہیں کہ اسکو اس لیے خرید تے ہیں کہ اسکو بیچ سکیں جبکہ اسکی قیمت میں اضا فہ ہوجائے ۔اس کرنسی کو ابھی تک آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جارہا۔

جہاں تک سوال ہے کہ ان سکّوںکو بین القوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ سود اور امریکی بالادستی سے بچاجائے ۔ تو اسکے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک مصبوط ریاست ہو۔ چوںکہ ڈالر کی بالادستی کے پیچھے امریکی بالا دستی کا ہاتھ ہے ۔ ورنہ اس سے پہلے پونڈ اسٹرلینگ کے ذریعہ بین القوامی تجارت ہوتی تھی چوں کہ اس دورمیں برطانوی بالادستی قائم تھی ۔اس لیے یہ

اقدام کہ ڈالر کی جگہ اسلامی ممالک سونے کو استعمال کرسکیں امریکی بالادستی کو چیلنج کیے بغیر ناممکن ہے۔ اس لئے احمد(Ahmed 2005) کی تجویر تحریری  طور پر تو اچھی ہے مگر عملی نہیں ہے۔

کرنسی کی تشکیل بلا حکومتی اعانت کے:

ابھی تک ہم نے بلاسودی کرنسی کے تین ماڈلوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ایک لنکن اور ڈوگلس کا سرمایہ دارنہ ریاست کے لیے ماڈل تھا دوسر ا ماڈل کمیونیٹی کرنسی کا ماڈل تھا اور تیسری طلائی دینار و نقرئی درہم کا ماڈل تھا ۔ان تینوں ماڈلوں کی راہنمائی میں ہم ایک خالص اسلامی کرنسی کی تشکیل کا ماڈل پیش کرتے ہیں۔ جو کہ ہم کسی دینی جماعت جیسا کہ تبلیغی جماعت ،دعوت اسلامی ، جماعت اسلامی ، جیسی خالص دینی جماعتیں اپنے نظم میں چلاسکتی ہیں۔ یا اسکو کسی علاقے میں جہاں ان جماعتوں کا مکمل قابو ہو اس ماڈل کے تحت تشکیل زر کرسکتی ہیں۔

ہم یہاں ایسی کرنسی کے اجراء ا کی تجویز دی ہے جو ناصرف سود سے پاک ہو بلکہ سرمایہ دارنہ اداروں سے اورنظام سے بھی کوئی تعلق نہ ہو۔اس ماڈل کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ

مرکزی تمویلی ادارے کا ڈھانچہ:

یہ ادارہ کوئی خومختار ادارہ نہیں ہوگا بلکہ یہ اسلامی جماعتوں ، گرہوں کے تابع ایک ادارہ ہوگا ۔ اس ادارہ کا ڈھانچہ کیسا ہوگا ۔  اسکا ڈحانچہ وہی ہوگا جس کا ذکر ہم باب سوئم میں کرچکے ہیں۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ایک اسلامی کونسل  کا قیام عمل میں لایا جائے  گا۔یہ کونسل تین طرح کے گروہوں پر ممنی ہوگی جسکا ایک سربراہ ہوگا۔

سپریم کونسل :یہ جید علمائے کرام پر ممنی ہوگی

دوسرا گروہ:  ٹیکنوکریٹس(Technocrates )اور ماہرین پر ممنی ہوگا جس میں اسلامی ذہن رکھنے والے معیشت دان اور  بینکاری کے ماہرین حضرات شامل ہونگے ۔جن کا اب سرمایہ دارنہ اداروں سے تعلق نہ ہو۔

تیسرا گروہ :   اسلامی جماعتوں کے نمائندوں پر مبنی ہوگا۔

            ہر گروہ ایک امیر کا چنائو کر یگا جو سفارشات تیار کرکے اپنے امیر کو دیں گے جو ان سفارشات کی روشنی میں تمویلی اداروں کو چلانے کی حکمت عملی طے کرے گا ۔تمویلی ادارے کے مینجر اور دیگر عملے ان حکمت عملیوںکو عملی جامہ پہنا ئیں گے ۔

١۔ اس کرنسی کا نام اسلامی دینار و درہم ہوگا۔

٢۔ یہ کرنسی موجودہ روپے کے متبادل ہوگی

٣۔ اس کا اجراء پہلے کسی ایک علاقے میں ہوگا ۔ جہاں پر اسلامی گرہوں کا قابو ہو اور پاکستانی ریاست کا عمل دخل کم ہو یا یہ کرنسی اسلامی جماعتوں کے اندر رہ کر چل سکتی ہیں۔

٤۔یہ کرنسی دینی جماعتیں اپنے نظم میں چلائیں گی۔

٥۔ اس کرنسی کی پشت پر اس جماعت کا اعتبار ہوگا۔ اسلیے یہ کرنسی صرف اسی جماعت کے کارکنان کے لیے ہوگی۔

٦ ۔ اس کرنسی کو کتنی مقدار میں چھاپنا ہوگا اس کا دارمدار درج ذیل عوامل پرہوگا۔

جس علاقے میں اس کرنسی کا اجراء کیا جائے گا وہاں پر ان کارکنان اسلامی کی  کم از کم ضروریات کا تخمینہ روپے کی صورت میں لگایا جائے گا۔فرض کریں اس جماعت کے کاکنان کی تعداد  ٠٠٠،١٠٠ ہے۔ ایک اسلامی شخص کی بنیادی ضرورت اسکا ماہانہ راشن،یوٹیلیٹی بلز، ٹرانسپورٹ کا خرچہ، اسکول فیس، انفاق  وغیرہ کاتخمینہ لگایا جائے اور اسکو کارکنان کی تعداد سے ضرب دے دیا جائے۔

فرض کریں

ک   کارکنان کی تعداد       100,000 افراد

ب    بنیادی ضروریات   0000    2روپے

کل زر کا اجراء   ک x ب     100,000 x 200,00 2,000,000,000روپے

اس تخمینہ کے مطابق درکار کرنسی کی مالیت دوملین یا ٢٠٠ کروڑ  روپے ہے۔ یہ کرنسی جو کہ دینار اور درہم کے نوٹوں کی صورت میں ہوگی اسکی روپے میں مالیت یعنی شرح تبادلہ کیا ہوگا  اسکا جائزہ لیتے ہیں۔

 اس کے لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ہم بنیادی ضرورت کو  ١٠٠ دینار تک رکھنا چاہتے ہیں ۔

 اس طرح          ایک دینار    ٢٠٠ روپے

اسلامی کارکنان کی ایک ماہ کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ١٠٠دینار درکار ہوں گے۔پاکستانی روپے کی مالیت مسلسل گر رہی ہے ہم اپنی شرح مبادلہ کو اسی طرح متغیر رکھیں گے کہ بنیادی ضرورت وہی رہے۔

فرض کریں ٢٠١٢ء تک  ١٠ فیصد گرانی  ہو جاتی ہے  تو بنیادی ضرورت ٢٢٠٠٠ روپے میں پوری ہوگی ۔اگر شرح مبادلہ وہ  ہی رہے تو بنیادی ضرورت کے لیے  ١١٠  دینار درکار ہوں گے ۔ اس بنیادی ضرورت کو١٠٠دینار پررکھنے کے لیے  شرح مبادلہ کو تبدیل کرنا ہوگا جو کہ  یہ ہوجائے گی۔

ایک دینار  ٢٢٠ روپے

اس طرح شرح مبادلہ کو متغیر کرکے بنیادی ضرورت کو مستحکم رکھنا ہوگا۔درہم کی دینار میں تبدیلی کے یہ شرح مطعین ہوگی جو عام طور پر مملک میں رائج ہے۔

    ایک دینار    ١٠٠ درہم

ایک،٢، ٥،١٠،٢٠، ٥٠ اور ١٠٠ دینار کے کرنسی نوٹ چھاپنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٥، ١٠، ٢٠، ٢٥، ٥٠درہم کے سکّے یا کاغذی نوٹ چھاپیں گے۔

چوں کہ یہ ایک کمیونیٹی کے طرز کرنسی ہے اور ایک مستحکم کرنسی ہے اس لیے اسکو دینار اور درہم دونوں میں چھاپنا ہوگا۔اسکی مقدار کتنی ہوگی تو اصول تویہ ہوگا کہ چھوٹے نوٹ اور کرنسی کی مقدار زیادہ ہوگی۔

اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ یہ کرنسی کسی بھی طرح سٹہ بازی (Speculation) اور سودی لین دین میں استعمال نہ ہو پائے۔سود اور سٹہ بازی سے بچنے کے لیے سب سے لازمی شرط ہے کہ  مارکیٹ یا بازا ر کو کرنسی کے  لین دین سے دور رکھا جائے۔اسلامی مرکزی مالیاتی کمیٹی کی مکمل گرفت اس کرنسی پر ہو۔چوں کہ اس کرنسی کا اجراء  سرمایہ دارنہ دور سرمایہ دارنہ ریاست کے اندر ہورہاہے اسلئے اسکا احتمال ہے کہ یہ کرنسی سٹہ اور سود  کے زیر اثر آجائے۔جیسا کہ پچھلے ابواب میں ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا کہ جب بھی مارکیٹ میں زر کی تجارت ہوگی اس کی قیمت خرید و فروخت کے درمیان جو فرق ہوگا وہ سود ہوگا۔ اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ یہ کرنسی اوپن مارکیٹ میں نہ جاپائے۔دوسرا اس کا دیگر کرنسیوں خاص کر روپے میں تبادلے کی شرح بھی مرکزی مالیاتی کمیٹی طے کرے۔ یہ کسی کو بھی اختیار نہ ہو کہ اس کا تبادلہ کسی بھی بینک یا فورکس ماکیٹ میں کرے ۔ اس کا تبادلہ صرف مرکزی تمویلی ادارہ اپنے دیگر متعین شدہ اداروں یا شخصیات کے ذریعہ کرے گا۔

اس کرنسی پر زکواة  و عشر وغیرہ لگایا جائے گا تاکہ اس کرنسی کو ذخیرہ اندوزی (hording)سے بچا جاسکے۔یہ کرنسی ایک مستحکم کرنسی ہوگی خاص کر روپے کے مقابلہ میں ۔ روپے کی مالیت میں ،سود اور سٹہ ،کی وجہ مسلسل گرانی آتی جارہی ہے ۔اس لیے زر کے تاجر یہ کوشش کریں گے کہ روپے کے مقابلہ میں اسلامی دینار کو بچا کر رکھیں  اور اسکو فروخت کریں زیادہ مالیت میں۔اس لیے اس سٹہ بازی کو ختم کرنے کے لیے اسلامی دینار کے رکھنے پر جرمانہ جس کا شریعی جواز ہو ضرور لگانا ہوگا، جس کا تعین اسلامی مالیاتی کمیٹی میں موجود فقہی کرام کریں گے۔چوں کہ یہ کرنسی اسلامی نظم میں جاری ہوگی شرعً  یہ دباؤ ہو گا کہ اس کو سٹہ بازی کے لئے نہ رکھا جائے ۔ زکواة کا نظام اسکے ساتھ منسلک کیاجا سکتا ہے اس سے بھی کرنسی کی گردش میں اضافہ ہوگا۔

اس کے علاوہ اسکی ترسیل پر قابو رکھنے کے لیے اس کی چھپائی کو بنیادی ضرورت سے زیادہ نہیںکرنا ہوگا ۔ جتنی اس کرنسی کی ضرورت ہو اس حساب سے کرنسی کو چھپاکر بازار میں لانا ہوگا۔چوںکہ اس کی ترسیل پر مکمل گرفت اسلامی مالیاتی کمیٹی کی ہوگی اسلیے اس کی زائد ترسیل کا مسئلہ نہیں ہوگا۔

جس علاقے یا جماعت کے اندر اس کرنسی کو لاگو کیا جائے گا  وہاں موجود انفراسٹریکچر(infrastructure) کو استعمال کیا جائے ۔ تاکہ اضافی اخراجات سے بچا جاسکے اور لوگوں میں وہ مانوس بھی ہو۔اس کے لیے سب سے مانوس ادارے جو اسلامی اور عوامی بھی ہیں وہ مساجد و مدارس ہیں۔ اس علاقے میں موجود مساجد و مدارس کو اس مالیاتی ادارے کے آفسز کے طور پر استعما ل کریں گے۔اس ادارے کا مرکز کسی قریبی شہر یا علاقے میں ہو تو بہتر ہے تاکہ دیگر علاقوں سے رابطہ آسانی سے ہوسکے ۔مالیاتی ادارے کی شاخیں نا صرف اس علاقے میں موجود ہوں گی بلکہ پورے ملک میں قائم مدارس و مساجد کے نیٹ ورک کو اس کی شاخوںکے طور پر استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس جماعت یا علاقے میں آنے والے ا شخاص اگر باہر شہر میں کام کررہا ہے اور وہ اپنی رقم اس جماعت یا علاقے میں بھجوانا چاہتے ہیں تو وہ یہ رقم مقرر شدہ مدارس کے پاس جمع کروادیں گے جس کا رکارڈ اس کے پاس ہوگا وہ مدرسہ فون کے ذریعہ یا نیٹ کے ذریعہ اس رقم کی اطلاع مرکز کو کردے گا مرکز یہ اطلاع  مطلقہ برانچ کو کردے گا کہ فلاں شخص کو فلاں رقم ادا کردی جائے۔ وہ شخص وہ رقم دینا و درہم میں وصول کرلے گا۔اسی طرح آگے چل کر دنیا بھر سے رقوم ، ھنڈی کے ذریعہ پاکستان منتقل ہوسکتی ہیں پر وہاںسے اس علاقے میں منتقل ہوسکتی ہیں۔

 سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ پاکستانی روپے کو کس طرح اس درہم دینار میں تبدیل کریں گے۔چوں کہ یہ کرنسی روپے کے مقابلہ میں ایک مستحکم  اور سود سے پاک کرنسی ہوگی ۔اسکا اجراء   اسلامی جماعت کے منظم گروہ میں ہوگا جس میںعلمائے کرام و بزرگان دین کے ہر فیصلے کو بلا چوں و چرا قبول کیا جائے گا۔ جب اس کرنسی کا اجراء ہو جائے گا تو ہر کارکن کو اس کرنسی میں تبادلہ کرنا لازمی ہوگا۔ اس کا دھان بھی لوگوں کو مبذول کروانا ہے کہ روپے ایک سودی کرنسی ہے درہم اور دینار کے آنے کے بعد اس کرنسی میں خرید و فروخت سرانجام دینا گناہ ہے۔روپے کی دینار و درہم میں تبادلہ(Demonitization) کے لیے ١٥ سے ٢٠ دن دیے جائیں گے ۔ اس کے بعد اس علاقے  یا گروہ میں روپے کو کرنسی کے طور پر تبادلہ پر پابندی لگادی جائے۔صرف دینا اور درہم میں ہی اشیاء کا تبادلہ کیاجائے۔

فرض کریں اس کرنسی کا اجراء تبلغی جماعت یا دعوت اسلامی کرتی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے پاس تاجر  اور کاروباری  حضرات یہ ایک بڑی جماعت ہے۔ اسکو قابل عمل بنانے کے لیے پہلے ان جماعتوںسے منسلک کارباری حضرات اپنی لین دین میں اس کرنسی کو اپنائیں گے۔ کوئی بھی ادائیگی اپنے کارکنا ن سے اس کے بغیر نہیں کریں گے کارکنان کو بھی ان ہی سے لین دین کرنے کی پابندی لگائی جائے گی جو کہ دینار اور درہم کو استعمال کریںگے۔ اس میںبڑا کام کھاتے دار تمویلی ادارہ کا ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے تعلقات مرکزی تمویلی ادار ے سے رکھے گا۔

اسلامی مرکزی مالیاتی ادارہ اور اسلامی تمویلی کھاتے دار اداروں میں تعاون ہوگا ۔

کھا تے دار تمویل ادارے چوں کہ اسی جماعت کے زیر اثر ہوں گے اس لئے وہ اس کرنسی کے اجراء کے بعد اسی کرنسی کو اپنے اند ر قابل عمل بنائیں گے۔

محفوظات میں جمع رقوم کھاتے کی صورت میں ابتداء میں تو روپے کی صورت میں جمع ہوں گی۔ یہ روپے مرکزی تمویلی ادارہ کے محفوظات میں چلے جائیں گے وہ اسکے عیوض دینار اور درہم کھاتے دار اداروں کو دے دیںگے۔ اسطرح مرکزی تمویلی ادارے کے اثاثوں (Assets)  میں روپے آجائیں گے اور وہ اس کے عیوض دینار اور درہم کے ذمہ داری (Liabilities)  اسکے ذمہ ہو ں گی۔

روپے کو دینار و درہم میں تبادلہ کھاتے دار اداروں کے ذمہ ہوگا ۔ ہر کارکن کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنا کھاتا اس تمویلی ادارے میںکھولے ۔ اگر اسکو فوری ضرورت کے لیے رقم درکار ہوگی تو وہ رقم جاری کھاتے سے نکا لے گا ۔ ورنہ وہ قرض حسن یا شراکت کے تحت  طویل مدت کے لیے ان کھاتوں میںرقم رکھے گا۔اس بات کو ممکن بنایاجائے گا کہ کارکنان اپنے پاس کیش کی مد بچتیں نہ کریں۔ جاری کھاتے  اور دیگر کھاتوں پرحق خدمت ) (service chargesادا کرنا ہوگا ۔ اسکے علاوہ اوقاف اور دار المال کے تحت رقوم کو گردش میں رکھا جائے گا ۔ اس کرنسی کی بچت کو روکا جائے گا ۔ زائد رقم کو تمویلی ادارے کے پاس یا تو قرض حسن میں قیل مدت کے لئے رکھا جائے گا یا پھر اسکو انفاق میں ، کمیٹی فنڈ ، حج و عمرہ فنذ میںڈالا جائے گا۔ جو کہ روزگار میں اضافے کا سبب بنے گا۔کھاتے دار تمویلی ادارے کو بھی ان پروجیکٹ میں رقم لگانی ہوگی جن کا تعلق کارکنان کی بنیادہ ضروریات سے ہے تاکہ بنیادہ اشیاء اور خدمات یہ جماعت خو د باہم پہچائے۔یہ کا م مرکزی تمویلی ادارہ کا ہو گا کہ وہ ان تمام امور کو کرنسی کے اجراء کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائیں۔

مرکزی تمویلی ادارہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ہر کھاتے دار ادارے کے محفوظات کی نگرانی کرے گا اور ان کو اس جگہ منتقل کرے گا جہاں اسکی ضرورت ہوگی ۔  مختلف شاخوںمیں مختلف فنڈز ہوں گے ان کو اس شاخ تک پہچانا جہاں اسکی ضرورت ہو یہ مرکزی ادارے کی ذمہ داری ہوگی۔

اگر کارکنان کی طرف سے زائد رقم جیسا کہ مثال میں دیا گیا ہے وہ رقم بنتی ہے ٢ بلین روپے اگر اسکی جگہ ٣ بلین روپے آجاتے ہیں تو اس زائد ایک بلین کا کیا کیا جائے گا۔  اس صورت میں یا تو شرح تبادلہ کو بڑھا دیا جائے گا  یا بھر اس زائد روپوں کو محفوظات میں ،روپے کی صورت میں ، رکھ کر ان مدوں میں جہاں روپے کی ضرورت ہے وہاں قرض حسن یا انفاق کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔

ہماری تجویز ہے کہ سونے اور چاندی کی کرنسی اصل اسلامی کرنسی ہے مگراسکو قابل عمل بنانے کے لیے ضروری ہے ایک مصبوط اسلامی ریاست اور اسکے ساتھ سونے اور چاندی کے ذخائر پر دسترس ہو تاکہ سود ، غرر اور سٹہ (سود) سے اس کرنسی کو کماحقہ بچایا جاسکے۔اس لیے اس دور میں جب تک قوی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوجاتی اور اسکی دسترس سونے اور چاندی پر نہیں ہو جاتی اس وقت تک کاغذی کرنسی کو ہی روبائے عمل لانا ہوگا جیسا کہ ہمارے ماڈل میں ہے۔

2 thoughts on “Bankari Ka Islami Mutabadil – موجودہ بینکاری کا اسلامی متبادل”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *